مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:33
ایک دفعہ مجھے ایک ایسی نوجوان خاتون کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا جو بہت ہی خوبصورت اور پرکشش تھی اوراکثر مرد اس کی توجہ اور محبت حاصل کرنے کے متمنی تھے۔ بہرحال وہ خاتون اس خیال پر قائم تھی کہ اس سے پہلے اس کے تمام تعلقات کا انجام صحیح نہیں ہوا اور پھر بھی وہ بالآخر شادی کی خواہش مند ہے لیکن اسے اس قسم کا موقع نہیں حاصل ہو سکا۔ اس کے ساتھ ملاقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اپنی ہر تعلق داری کو اس کا ادراک و احساس کیے بغیر خراب کر رہی ہے۔ اگر کوئی نوجوان مرد اس سے یہ کہتا کہ وہ اسے پسند کرتا ہے تو پھر وہ خاتون اس فقرے کے ذریعے اس مرد کی پیشکش ٹھکرا دیتی: ”وہ مجھے یہ سب کچھ محض اس لیے کہہ رہا ہے کہ میں یہی کچھ سننا چاہتی ہوں۔“ یہ خاتون ہمیشہ ایسے فقرے کی تلاش میں رہتی جس کے ذریعے وہ اپنی ذات کی تحقیر اور توہین کر سکے۔ اس کے دل میں اپنی ذات کے لیے اہمیت، قدروقیمت اور محبت موجود نہ تھی لہٰذا اس نے دوسروں ک طرف سے محبت و پیار کی پیشکش ٹھکرا دی۔ اسے یہ یقین نہیں تھا کہ وہ دوسروں کے لیے پرکشش اور محبت آمیز ثابت ہو سکتی ہے۔ کیوں؟ اس کی وجہ تو یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو محبت کے قابل نہیں سمجھتی تھی لہٰذا اپنے آپ کو قابل نفرت اور حقیر سمجھنے کی مستقل عادت کے باعث اس کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہو گیا کہ وہ ایک بے وقعت شخص ہے۔
مندرجہ بالا فہرست میں سے بہت سے امور گھٹیا نوعیت کے حامل ہو سکتے ہیں لیکن کم از کم ان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ احساس کمتری اور بے وقعتی کی علامات ہیں۔ اگر آپ اپنی ذات کے متعلق احساس تحقیر میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کے باعث آپ اپنے لیے صرف گھٹیا چیزیں ہی پسندکرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ خود کو قابل قدر اور اہم نہیں سمجھتے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ کو بچپن ہی سے سکھا اور پڑھا دیا گیا ہو کہ اخلاق اور تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ خود کو کمتر سمجھیں یا آپ واقعی کسی کے لیے پرکشش اور جاذب نظر نہیں ہیں۔ بچپن ہی سے آپ کو ان خیالات اور عادات کا عادی بنایا گیا ہے اور اپنی ذات کی تحقیر و تذلیل آپ کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ مزیدبرآں اپنی ذات کی تحقیر، تذلیل اور استرداد پر مبنی بے شمار روئیے اور عادات پر مشتمل مثالیں موجود ہیں جو دوران گفتگو اور روزمرہ معمولات زندگی کی انجام دہی کے دوران عیاں ہو جاتی ہیں اور ہر دفعہ آپ خود کو غیراہم اور بے وقعت سمجھنے اور ثابت کرنے پر مبنی رویہ اور طرزعمل اختیار کرتے ہیں اور آپ یہ پرانا اور قدیم تصور اپنے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں کہ دوسرے آپ پر غالب آ چکے ہیں اورآپ کو زندگی میں اپنے لیے خوشی حاصل کرنے کا کوئی موقع میسر نہیں خواہ یہ خوشی آپ کی اپنی پیداکردہ ہو یا دوسروں کی طرف سے آپ کو خیرات میں حاصل ہوئی ہو، یقیناً آپ میں یہ صلاحیت اور استعداد بدرجہ اتم موجود ہے کہ آپ خود کو حقیر اورغیراہم ثابت کر سکیں۔
کسی بھی قسم کے اعتراض اورشکایت کے بغیر اپنی ذات کا ادراک و احساس
حُبِ ذات سے مراد یہ ہے کہ آپ خود کو ایک قابل قدر اور اہم شخص سمجھیں کیونکہ آپ نے ایسا رویہ اورطرزعمل اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اپنے وجود کو قابل اہمیت اور قابل قدر سمجھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ کو اپنے وجود سے کسی بھی قسم کی کوئی شکایت نہیں جو لوگ بھرپور اور کامیاب زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، وہ یہ شکایت کبھی نہیں کرتے کہ راستوں میں کانٹے بچھے ہیں یا آسمان ابرآلود ہے یا برف بہت ہی زیادہ ٹھنڈی ہے۔ اپنے بدن اورذات کو عین من قبول اور تسلیم کرنے سے مراد یہ ہے کہ آپ کو اپنے وجود سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے اور خوشی سے مراد یہ ہے کہ جن چیزوں پر آپ کا بس نہیں، انہیں نہ حاصل ہونے پر آپ کو غم نہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔