ٹارزن کی واپسی
صدر آصف علی زرداری کتنے اچھے سیاست دان ہیں، اِس کا فیصلہ تو آنے والے مو¿رخ ہی کریں گے۔ قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں حکمران آتے جاتے رہتے ہیں۔ آنے اور جانے والے حکمران کسی ملک اور قوم کے لئے کیسے اثرات چھوڑتے ہیں؟ اِن ساری باتوں کا فیصلہ بھی تاریخ کے صفحات میں ہی ہوتا ہے۔ اگرچہ کامیابی اور ناکامی جیسی اصطلاحات بھی اپنے اندر جدا جدا تفہیم رکھتی ہیں، لیکن کسی بھی سیاستدان کا دور اقتدار اس کے لئے ذاتی طور پر کتنا کامیاب رہا، اِس کا فیصلہ سیاسی تجزیہ نگاروں کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ صدر آصف علی زرداری کا دورِ اقتدار ان کے لئے ذاتی اور بحیثیت پارٹی سربراہ کے طور پر مشکل تو ضرور رہا، لیکن اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ دور ان کے اور اُن کی پارٹی کے لئے ایک کامیاب اور اطمینان بخش تھا۔
صدر آصف علی زرداری کے لئے گزشتہ پانچ سال میں سب سے مشکل مرحلہ وہ تھا، جب گزشتہ سال ماہِ رمضان کے آخری ایام میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم کے خلاف بھر پور اعلان جنگ کیا تھا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ایم کیو ایم کے درمیان اگرچہ ہلکی پھلکی نوک جھونک تو ابتداءہی سے جاری تھی، مگر اپنے ہاتھ میں قرآن پاک اُٹھا کر ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف سنگین الزامات کی بھر مار نے وقتی طور پر پاکستان میں سیاست سے دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کو حیران کر دیا تھا۔ ابتدائی طور پر تو ایسا محسوس ہوا کہ اب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا مشترکہ سیاسی سفر جاری نہیں رہ سکے گا، مگر تھوڑے ہی عرصے بعد ایم کیو ایم سیاسی سکتے سے باہر نکل آئی اور جوابی طور پر جناب الطاف حسین نے اپنے ہاتھ میں قرآن پاک لے کر اپنے خلاف الزامات کی صفائی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس وقت بظاہر ایسا لگتا تھا کہ آصف علی زرداری کے لئے کوئی بھی فیصلہ کرنا ایک مشکل عمل ہو گا.... ایم کیو ایم سے سیاسی اتحاد یا ڈاکٹر مرزا سے دوستی کا تسلسل....!
جو لوگ آصف علی زرداری کو جانتے ہیں اُنہیں اِس بات کا مکمل علم ہے کہ آصف علی زرداری کی پوری زندگی دوستوں کے ساتھ ہی گزری ہے اور پھر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جیسا دوست جو نہ صرف بچپن کا دوست، بلکہ تمام معاملات کا مکمل راز دان بھی ہے، اس سے آصف علی زرداری کیسے ناتہ توڑ سکتے ہیں؟ لیکن پھر دُنیا نے دیکھا کہ آصف علی زرداری نے سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے ہر قسم کا ناتہ توڑ لیا اور ایم کیو ایم کے ساتھ اپنا سیاسی اتحاد برقرار رکھا....ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے قطع تعلق کے باوجود پاکستان میں تمام تجزیہ نگار اِس بات کو ہضم کرنے پر تیار نہیں تھے کہ صدر آصف علی زرداری اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ایک دوسرے سے جُدا ہو سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا منظر سے غائب ہو گئے، اُن کی اہلیہ بطور سپیکر قومی اسمبلی میں موجود رہیں ،اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مرزا کا بیٹا اُن کی خالی کردہ نشست سے صوبائی اسمبلی کا ممبر بن گیا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے منظر سے غائب ہو جانے پر پیپلز پارٹی میں ہی موجود سندھ میں اُن کے چند ذاتی مخالفین نے غلط اندازے لگائے اور اسے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا سیاسی اختتام سمجھا۔
دوسری طرف متحدہ والوں نے بھی اسے اپنی عظیم کامیابی سمجھا اور سندھ میں مشترکہ اقتدار میں اب زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی تیاری شروع کر دی۔ متحدہ کی جانب سے سب سے پہلے تو یہ مہم شروع کی گئی کہ جب پرویز مشرف کے دور میں سندھ حکومت کی وزارت داخلہ اُن کے پاس تھی، تو سندھ میں امن عامہ کی صورت حال اِس قدر ابتر نہیں تھی، اِس لئے اگر سندھ میں امن و امان بحال کرنا چاہتے ہو تو محکمہ داخلہ متحدہ کے حوالے کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ پولیس میں تقرریوں اور تعیناتیوں میںمتحدہ کو بھر پور حصہ دینے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔ گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے متحدہ اور آصف علی زرداری کے درمیان سیاسی آنکھ مچولی جاری تھی، چند ہفتے متحدہ اور آصف علی زرداری کی محبت بلندیوں کے نشان چھو رہی ہوتی تھی، تو اگلے ہفتوں میں متحدہ کی جانب سے زبانی گولہ باری اور خلع کے مطالبات شروع ہو جاتے تھے، لیکن متحدہ کی جانب سے صدر آصف علی زرداری پر سنگین الزامات اور حکومت سندھ کے خلاف ہر قسم کے الزامات کے باوجود صدر آصف علی زرداری نے نہ خود اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے کسی ذمہ دار کو متحدہ کے ان حملوں کا جواب دینے دیا۔ دوسری طرف ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اِس سارے منظر میں غائب نظر آئے۔
سیاسی میدان میں متحدہ کی تازہ ترین کامیابی بلدیاتی اداروں کے نئے قانون کا صوبہ سندھ میں نفاذ ہے۔ متحدہ کے دباﺅ پر صدر آصف علی زرداری نے صوبہ سندھ میں اپنے تمام اتحادیوں کی ناراضگی مول لیتے ہوئے نیا آرڈیننس جاری کر دیا۔ نئے بلدیاتی قانون کے اجراءکو متحدہ نے اپنی بھر پور کامیابی سمجھا، لیکن دوسری طرف سندھ میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی قوتوں نے اس قانون کو سندھ کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سیاسی تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک طرف سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخالف قوتیں اور سندھ کی قوم پرست جماعتیں اس بلدیاتی قانون اور پیپلز پارٹی کے خلاف تحریک چلا رہی ہیں، تو دوسری طرف پیپلز پارٹی سندھ کے اندر اس قانون پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، اسی لئے پیپلز پارٹی سندھ کی جانب سے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اور وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن کے علاوہ کوئی دوسری قابل ذکر سیاسی شخصیت اِس قانون کا دفاع کرتی نظر نہیں آرہی۔
اس تمام صورت حال میں صدر آصف علی زرداری نے اپنے اتحادیوں اور اپنے مخالفین دونوں کو ایک بار پھر بڑا سرپرائز دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے صدر آصف علی زرداری بغیر کسی پروگرام کے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے گھر پہنچ گئے۔ بظاہر ایک طویل عرصے کا قطع تعلق لمحوں میں دور ہو گیا اور تمام گلے شکوے باتوں باتوں میں دُور ہو گئے۔ ایک بار پھر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا خبروں کی زینت بن گئے۔جو لوگ پہلے ہی یہ کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر مرزا اور صدر آصف علی زرداری یک جان و دو قالب ہیں، وہ اپنی خاموشی توڑ کر دوبارہ میدان میں واپس آگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے سیاسی سفر کو ختم قرار دینے والے اپنا منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اب جب ڈاکٹر مرزا کی واپسی ہو گی، تو اس واپسی کے بعد کس کس کا سیاسی سفر اختتام پذیر ہو گا۔ جناب وسان کے سچے خواب پیپلز پارٹی اور متحدہ کے اتحاد کو تو بچا گئے، لیکن خود اُن کی وزارت داخلہ ان سچے خوابوں کی نذر ہو گئی۔ اب ایک بار پھر وزارت داخلہ کے بارے میں خبریں آ رہی ہیں جو جناب وسان کے جانے کے بعد بغیر وزیر کے سہارے چلی جا رہی ہے کہ اِس خالی وزارت میں ایک بار پھر ڈاکٹر مرزا بھر پور گھن گرج کے ساتھ واپس آیا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے صدر آصف علی زرداری کی ملاقات اور دوبارہ محبت کے ساتھ اُن کی سندھ کی سیاست میں واپسی کی خبروں نے ایک بار پھر متحدہ کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ صدر آصف علی زرداری اور رحمن ملک کی ملک میں غیر موجودگی کے دوران متحدہ کی مرکزی رابطہ کمیٹی نے ایک بار پھر پیپلزپارٹی پر سنگین الزامات کے ساتھ حکومت سے علیحدگی کا الٹی میٹم دے کر حسب دستور واپس لے لیا ہے، یہ آٹھواں الٹی میٹم تھا جو واپس لیا گیا۔ ایک بات طے ہے کہ آنے والے انتخابات میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے متحدہ کے مقابلے پر موجود ہوںگے۔ ٭