گلو بٹ بننے کے ارادے؟

گلو بٹ بننے کے ارادے؟
گلو بٹ بننے کے ارادے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قلم کے تقدس سے کھیلنے والے ہی نہیں،عمران خان جیسے شعلہ بیان اور طاہرالقادری جیسے قادرالکلام بھی گلوبٹ کے ذکر کے بغیر اپنی تقریروں کا رنگ جمانے میں کامیاب نظر نہیں آتے۔ سو سبھی کو اپنی تحریر و تقریر میں گلو بٹ کا ذکر کرنا پڑتا ہے اور گلو بٹ ایسا کردار ہے کہ اس کے ذکر پر ہی ہر ایک کے اندر کا گلو بٹ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب طاہرالقادری نے بھی اپنی تقریر میں کہا ہے کہ اپنا قانونی حق حاصل کرنے کے لئے اب ہمیں بھی گلو بٹ بننا پڑے گا، ان کا ارادہ بہت اچھا ہے، وہ اگر عمران کو بھی گلوبٹ بننے کے لئے آمادہ کرلیں تو پھر:
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے ”گلوبٹ“ دو
مگر یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ گلو بٹ بننے کے لئے 9/4 کی مونچھیں بھی ضروری ہیں۔عمران خان ”کلین شیو“ ہیں اور مونچھوں کو رگڑ رگڑ کے صاف کرتے ہیں، اب اگر وہ مونچھیں رکھنے پرآمادہ ہو بھی جائیں تو کم از کم 2018ءتک ہی ان کی مونچھیں گلو بٹ کی مونچھوں کے برابر ہو سکیں گی۔پھر ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ اگر ان کی مونچھوں کے بال سفید نکل آئے تو پھر ہر صبح انہیں کالا کرنا بھی ایک مسئلہ ہوگا، مگر طاہرالقادری کو گلو بٹ بننے کا ارادہ ترک کر دینا چاہیے۔وہ ناک پر رومال رکھے ”دولہا“ بنے زیادہ اچھے لگتے ہیں۔گزشتہ روز میں نے انہیں ناک پر رومال رکھے، اپنے کارکنوں کے درمیان دیکھا تو پہلے تو یہ سمجھا کہ شاید کوئی دولہا ہے، جو نکاح کے بعد سلامیاں وصول کررہا ہے کہ اس دن طاہرالقادری کے دھرنے میں تین عدد نکاح بھی ہوئے تھے، مگر جب غور کیا تو یہ تو اپنے طاہرالقادری نکلے، جو کارکنوں کی خوشبویا بدبو سے بچنے کے لئے ناک پر رومال رکھے ہوئے تھے۔

 انہوں نے میڈیا کے تبصروںپر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں الرجی ہے، اس لئے انہوں نے ناک پر رومال رکھا ہوا تھا، مگر رومال کے حوالے سے ایک خبر یہ بھی تھی کہ ان کے بعض کارکنوں نے ان کے استعمال شدہ کاغذی رومال بطور تبرک اپنے ناک پر رکھ لئے تھے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ جن جن کارکنوں نے طاہرالقادری کے استعمال شدہ کاغذی رومال کو تبرکاً اپنے اپنے ناک پر رکھا ہے۔ان سب کا بھی طبی معائنہ کرایا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ طاہرالقادری کے ناک یا جسم میں موجود ”وائرس“ ان کارکنوں کے جسموں میں بھی داخل ہو جائے، گوکہ یہ ”وائرس“کوئی زیادہ خطرناک نظر نہیں آتا.... مگر پھر بھی ایک خطرہ بہرحال موجود ہے کہ اس ”وائرس“ کی وجہ سے ان کے کارکنوں کی ذہنی کیفیت بدل جائے اور انہیں ایسے ایسے خواب بھی دکھائی دے سکتے ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ ”گمراہ“ بھی ہو سکتے ہیں۔
گلو بٹ کی بات ”وائرس“ کی طرف نکل گئی۔طاہرالقادری نے گلو بٹ کو ایک وائرس بھی قرار دیا تھا، مگر گلوبٹ نے کیاکیا تھا؟ گلو بٹ نے شہریوں کی گاڑیوں کو تباہ و برباد کیا تھا، لوگوں کی لاکھوں روپے کی گاڑیوں کو ”ٹکے ٹوکری“ کر دیا تھا.... یہ ایک ایسا جرم تھا ،جس پر اسے قانون کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا، بہرحال اس نے خود کو قانون کے حوالے کر دیا۔عدالت نے اسے جیل بھیج دیا۔اس کی درخواست ضمانت منظور ہوئی تو حکومت پنجاب نے اسے ایک ماہ کے لئے نظر بند کردیا۔گلو بٹ نے ایک بار پھر ہائی کورٹ سے رجوع کیا.... اور عدالت نے اسے رہاکرنے کا حکم دے دیا اور اس وقت وہ رہا کر دیا گیا ہے، اس کی رہائی پر سب سے زیادہ طاہرالقادری اور عمران خان نے دھائی دی ہے۔ان دونوں لیڈروں کی تنقید اور تقریر کا مطلب یہ تھا کہ اسے رہا کیوں کر دیا گیا۔ان لیڈروں کا سارا زور حکومت پنجاب پر تھا اور پھر وہ وزیراعلیٰ پنجاب پر برستے رہے۔ خواہش ان کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسے ابھی تک پھانسی کیوں نہیں دی گئی؟

گلو بٹ کے ذکر کو چند لمحوں کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور یہاں ایک واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، ان دنوں میں ایک ”معاصر“ میںلکھتا تھا، فلم سٹار نرگس کے بارے میں خبر شائع ہوئی کہ ایک پولیس افسر نے اس پر تشدد کرتے ہوئے اس کے سر کے بال اور بھنویں تک مونڈھ دیں۔ یہ جنرل پرویز مشرف کا سنہری دور تھا، پنجاب کے گورنر خالد مقبول تھے، چودھری شجاعت کا طوطی بولتا تھا، عمران خان بھی سیاست پر چھائے ہوئے تھے۔نرگس کے حوالے سے سبھی اخبارات نے نمایاں طور پر خبریں شائع کیں، مَیں نے بھی ایک کالم لکھا اور اپنے ایڈیٹر جناب محترم عبدالکریم عابد مرحوم کی خدمت میں پیش کر دیا۔انہوں نے کالم پڑھا اور کمپوزنگ کے لئے بھجوایا۔ میری ان کے ساتھ ”یاری دوستی“ بھی تھی۔مَیں نے کہا کہ سر مجھے امید نہیں تھی کہ آپ میرا یہ کالم شائع کریں گے، وہ مسکرائے اور کہا ، آپ کو ہم سے ایسی ہی امید رکھنی چاہیے، مگر ہم آپ کو ہمیشہ مایوس ہی کریں گے، مَیں مسکرایا تو انہوں نے فرمایا تم کالم کے حوالے سے اتنے ”بدگمان“ کیوں تھے۔مَیں نے کہا، سر آپ بھی ”مولوی“ ہیں اور ہمارااخبار بھی ”مولوی“، تو مجھے امید کم تھی۔

 انہوں نے اپنے سامنے رکھے ہوئے کاغذ میری طرف بڑھائے اور کہا کہ اسے پڑھو،کل کا ”شذرہ“ ہے،مَیں نے پڑھا تو انہوں نے لکھا تھا، فلمسٹار نرگس نے اس ملک میں فحاشی کو فروغ دیا ہے، اس نے اپنی نازیبا حرکات اور ڈانس سے پورے معاشرے کو گندہ کر دیا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص بھی اٹھ کر اس کے سر کے بال اور بھنویں مونڈھ دے۔پاکستان کے آئین اور قانون نے اسے وہ تمام حقوق دے رکھے ہیں جو کسی بھی معزز شہری کو حاصل ہیں، سو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوری طور پر ملزمان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہچانا چاہئے اور ایک عورت کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا اعلیٰ سطح پر بھی نوٹس لیا جانا چاہیے۔ گلو بٹ کا معاملہ بھی ایسا ہے، اس کے جرم پر اس کے خلاف جرم کی نوعیت کے مطابق سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہیے، اس نے جن لوگوں کا نقصان کیا ہے، ان کا نقصان اس کی ذاتی جیب سے پورا کیا جانا چاہیے، مگر اسے ریاست کے قانون نے جو حق دیا ہے، اس پر کسی کو ”ڈاکہ“ مارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، گلوبٹ کے حوالے سے میرا مطالبہ ہے کہ اس کا نفسیاتی علاج بھی کرایا جانا چاہیے، کیونکہ اس نے جو کچھ بھی کیا، غصے کی وجہ سے کیا۔غصے کی زیادتی بھی روحانی اور ذہنی بیماری ہے اور یہ بیماری صرف گلو بٹ کو ہی نہیں ہے۔ہمارے بڑے بڑے لیڈروں میں بھی یہ بیماری نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔
کیا! جب طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ اسلام آباد سے جو شخص خالی ہاتھ واپس آئے، اسے بھی گولی مار دو، حتیٰ کہ میرے اور عمران خان میں سے کوئی بھی انقلاب کے بغیر واپس آئے تو گولی مار دی جائے، کیا اس بات میں بھی غصہ شامل نہیں ہے۔چاہے مذاق میں ہی کیوں نہ کہا ہو اور پھر عمران خان اور طاہرالقادری کے جو لوگ ”جنگ اور جیو“ کے دفاتر پر حملے کرتے ہیں، کیا وہ گلو بٹ نہیں ہیں، جب لوگوں نے پی ٹی وی پر حملہ کیا تھا کیا وہ گلو بٹ نہیں تھے؟ عمران خان نے سرعام بجلی کا بل جلایا ہے کیا ریاست کے ”بل“ کو جلانا ”گلو گیری“ نہیں ہے اور پھر محض نوازشریف کے استعفا کے لئے ڈی چوک پر مسلسل قبضہ گلوگیری نہیں ہے؟
گلو بٹ کو سزا ضرور ملنی چاہیے، لیکن ریاست پاکستان نے جو حقوق اسے دیئے ہوئے ہیں، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔انصاف پر ہر ایک کا حق ہے وہ چاہے گلو بٹ ہویا ڈی جے بٹ !

مزید :

کالم -