مرنے کے بعد جلائے جانے کیلئے ہندوﺅں کی پسندیدہ جگہ کون سی ہے اور کیوں؟
نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک)ہر مذہب میں کچھ جگہیں مقاماتِ مقدسہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہندو مذہب میں بھارت کا شہر ”وارانسی“بہت مقدس خیال کیا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے جو بذات خود ہندوﺅں کے نزدیک مقدس دریا کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندو مذہب کے پیروکار اپنے انتقال کرجانے والے لوگوں کو آگ میں جلا دیتے ہیں اور اس رسم کو ”موکشا“ یا ”مکتی“ کا نام دیتے ہیں۔ چونکہ وارانسی شہر اور دریائے گنگا دونوں ہندوﺅں کے نزدیک مقدس ہیں اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مردوں کو وہاں گنگا کے کنارے جلایا جائے۔
کیا آپ ناپسندیدہ میسجز اور کالز وصول کرنے سے تھک گئے ہیں؟ تو یہ خبر آپ کے لئے ہے
اس سلسلے میں وارانسی میں گنگاکے کنارے ”چتائیں“ جلانے کا وسیع انتظام کیا گیا ہے اور یہاں کئی شمشان گھاٹ بنائے گئے ہیں۔ ان شمشان گھاٹوں پر سارا سال آگ جلتی رہتی ہے۔ یہاں روزانہ اوسطاً 300مردوں کی چتا جلائی جاتی ہے۔ہندوﺅں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جس شخص کا انتقال وارانسی میں ہو اسے نَرک(دوزخ)سے نجات مل جاتی ہے اور وہ سیدھے سَوَرگ (جنت) میں چلا جاتا ہے اس لیے وہ اپنے قریب المرگ افراد کو وارانسی لے آتے ہیں اور یہاں ان کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔
بھارتی ریاست اتر پردیش میں واقع اس شہر وارانسی میں مرنے کے بعد یہیں گنگا کنارے ان کی چِتاجلاتے ہیں، ان کی راکھ وہیں گنگا میں بہا دیتے ہیں اور پیتل کے ایک چھوٹے سے گڑوے میں ان کی استھیاں(ادھ جلی ہڈیاں، خصوصاً سر اور چہرے کی) ساتھ لے کر چلے جاتے ہیں جو بعد ازاں مقررہ مدت کے بعد اسی دریائے گنگا میں بہا دی جاتی ہیں۔جلانے سے قبل مرنے والے شخص کو رنگین کپڑوں میں لپیٹا جاتا ہے اور اسے پھولوں(خصوصاً گیندے اور گلاب ) کی مالائیں پہنائی جاتی ہیں اور انہیں جلانے میں عموماً چندن کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ وارانسی کا یہ شمشان گھاٹ بھارت کا سب سے بڑا شمشان گھاٹ ہے۔
اگرچہ ہندو مذہب میں مردوں کو دفنانے کا کوئی تصور موجود نہیں لیکن بعض افراد کو یہ لوگ جلانے کی بجائے دفناتے بھی ہیں لیکن اس کی کچھ شرائط طے ہیں۔اول 2سال کی عمر سے قبل انتقال کرجانے والے بچوں اور دوئم وہ افراد جنہیں یہ مقدس جانتے ہوں یعنی پنڈت وغیرہ، انہیں ہندو جلاتے نہیں بلکہ زمین میں دفناتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوﺅں کا عقیدہ ہے کہ مرنے والے نے زندگی میں جو بھی گناہ کیے ہوتے ہیں وہ آگ میں جل کرختم ہو جاتے ہیں اور اسے نرک میں ان گناہوں کی سزا نہیں ملتی۔ اب چونکہ 2سال تک کے بچے اور مذہبی شخصیات ان کے نزدیک گناہوں سے پاک ہوتی ہیں اس لیے یہ انہیں جلانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
کیا آپ بھی سوتے سوتے ایک دم جھٹکے سے جاگ اٹھتے ہیں؟ دلچسپ وجہ جانئے
دوسری طرف بڑے مجرموں اور خودکشی کرنے والوں کو بھی جلانے کی بجائے دفنایا جاتا ہے کیونکہ ہندو عقیدے کے مطابق ان کے گناہ اتنے بڑے ہیں کہ وہ آگے میں جلانے سے ختم نہیں ہو سکتے۔ چتا جلاتے وقت یہ مرنے والے شخص کے پاﺅں جنوب کی سمت میں رکھتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ موت کے دیوتا ”یاما“ کی سلطنت جنوب میں واقع ہے جبکہ مرنے والے کا سر شمال کی طرف اس لیے رکھا جاتا ہے کہ دولت کے دیوتا ”کُبیرا“کی سلطنت شمال میں واقع ہے۔مرنے والے کو آگ میں جلانے کا مقصد اسے ”آگ کے دیوتا“ کے حوالے کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اس کے گناہ جلا کر ختم کردے۔
ہندوﺅں کے عقیدے میں جہاں مردے کو جلائے جانے کی یہ وجہ بیان کی جاتی ہے کہ انہیں گناہوں سے نجات ملتی ہے وہیں ایک اور وجہ بھی ہے۔ ہندومت کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح اس کے جسم کے گرد گھومتی رہتی ہے کیونکہ ایک طویل عرصہ روح نے جسم کے ساتھ گزارا ہوتا ہے اس لیے اسے جسم کے ساتھ ایک خاص انسیت پیدا ہو چکی ہوتی ہے اور وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتی۔ لہٰذا جب جسم کو پوری طرح آگ میں جلا کر ختم کر دیا جاتا ہے تو روح اس انسیت کے جذبے سے مُکت(آزاد) ہو جاتی ہے اور آسمانوں کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔
