امریکہ کے مشرق میں میری لینڈ سے شکاگو

امریکہ کے مشرق میں میری لینڈ سے شکاگو
امریکہ کے مشرق میں میری لینڈ سے شکاگو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

(گزشتہ سے پیوستہ )


دارالحکومت واشنگٹن سے ملحق ریاست ’’میری لینڈ‘‘ کا نام امریکی تاریخ کا ایک افسوسناک پہلو اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے۔ امریکہ کے سولہویں صدر ابراہم لنکن کا قاتل ’’جون ولکس بوتھ‘‘ جو اپنے زمانے کا تھیٹر کا اس قدر مقبول اداکار تھا کہ خود ابراہم لنکن بھی اس کے مداح تھے۔ میری لینڈ کا رہنے والا تھا۔ وہ یہیں پیدا ہوا اور نہ صرف پلا بڑھا، بلکہ قتل کی واردات کے بعد پانچ دن تک میری لینڈ میں ہی روپوش رہا۔ اس کے بعد وہ برابر کی ریاست ورجینیا چلا گیا ، جہاں وہ بالآخر پکڑا اور مارا گیا،جس وقت ابراہم لنکن پر گولی چلائی گئی، وہ واشنگٹن کے فورڈ نامی تھیٹر میں اپنی اہلیہ میری کے ہمراہ ’’آور امریکن کزن‘‘(ہمارا امریکی عم زاد) نامی ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ بوتھ کیونکہ تھیٹر کی تمام اونچ نیچ سے آگاہ تھا، اس لئے اسے اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ یہ افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا، جب ابراہم لنکن دوبارہ صدر منتخب ہو چکے تھے، جبکہ باغی فوجوں کے سب سے بڑے جنرل رابرٹ لے نے بھی ہتھیار ڈال دیئے تھے، لیکن بوتھ کے جو باغیوں کا حامی تھا اور اس سے قبل بھی صدر کے اغوا اور قتل کے منصوبے بنا چکا تھا، حوصلے پست نہیں ہوئے تھے۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے مل کر نہ صرف صدر لنکن بلکہ نائب صدر اینڈریو جانسن اور وزیر خارجہ ولیم ایچ سیوارڈ کو بیک وقت قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، تاکہ مرکزی حکومت کو مکمل طور پر مفلوج کیا جا سکے۔ نائب صدر پر حملہ نہیں ہو سکا، جبکہ وزیرخارجہ اگرچہ شدید زخمی تو ہوئے، لیکن زندہ بچ گئے۔ بوتھ سمیت سازش میں شریک تمام افراد ایک ایک کرکے پکڑے گئے اور کیفر کردار تک پہنچے۔


یہاں اس بات کا ذکرہے تو مشرق میں واقع ایک امریکی ریاست رہوڈ آئی لینڈ (Rhode Island)کا رقبہ کراچی کے تقریباً برابر ہے، جس کے سمیت ساحل سمندر کے ساتھ واقع چھوٹے بڑے رقبے کی دس ریاستیں واشنگٹن سے صرف تین سو میل کے دائرے کے اندر واقع ہیں، جن میں سے ایک ’’میری لینڈ‘‘ بھی ہے۔ ان کی سرحدیں آپس میں کچھ اس طرح ملی ہوئی ہیں کہ گاڑی لے کر ایک ریاست سے نکلو تو دوسری میں اور دوسری سے نکلو تو تیسری میں پہنچ جاؤ۔ چنانچہ انہی قربتوں کے سبب ہم ایک ہفتے کے دوران پانچ ریاستوں کے درمیان گھومتے رہے۔ ان حالات میں وقت کم اور مقابلہ سخت جیسی کیفیت کے سبب میری لینڈ میں صرف ایک عزیز حارث توقیر سے ملاقات ہو سکی جو این ای ڈی یونیورسٹی سے کمپیوٹر انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک ایسی کمپنی سے وابستہ ہیں، جس کے مالک پاکستانی امریکن ہیں اور اپنی کمپنی کو جس کا ایک دفتر کراچی میں بھی ہے بڑی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ وقت کی کمی کے باعث دیگر عزیزوں سے ملاقات کی کوئی سبیل نہ بن سکی، جس کا بڑا افسوس رہا۔ وقت کی تنگی کا شکوہ تو میرے دوست مسرور نے بھی کیا،جسے میں نے وعدہ فردا پر دور کرنے کا وعدہ کیا، چنانچہ معذرت کے ساتھ ایسا ہی وعدہ ان عزیزوں سے بھی جن کے سامنے اس کالم کے ذریعے میری، میری لینڈ میں موجودگی کا بھید کھلے گا۔ وقت کی یہ انتہائی کمی شکاگو میں بھی شکوے شکایت کا باعث بنی، جہاں ہماری اہلیہ کے ماموں کے ہاں صرف دو دن قیام ممکن ہو سکا، جس کے دوران قریب ہی مقیم اہلیہ کے دو بھانجے بھی وہیں آکر مل لئے، بلکہ وہی نوجوان ہمیں یونیورسٹی آف شکاگو بھی دکھانے لے گئے جہاں کولمبیا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل صاحبزادے ’جنوبی ایشیا کی تاریخ‘ میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔


برخوردار ان دنوں اپنی تعلیم کے سلسلے میں بنگلہ زبان سیکھنے کے لئے بنگال گئے ہوئے تھے، جہاں سے واپسی پر ان سے ہماری ملاقات کیلیفورنیا میں طے تھی۔ وہ اگر شکاگو میں ہوتے تو اپنے ساتھی طلباء اور اساتذہ سے بھی ملواتے، لیکن فی الحال ہم نے یونیورسٹی میں ان کا ہوسٹل، ڈیپارٹمنٹ، لائبریری اور دیگر خاص خاص شعبے دیکھنے پر اکتفاکیا۔یونیورسٹی آف شکاگو امریکہ کی ممتاز اور قدیم ترین درسگاہوں میں سے ایک ہے۔اسے دیکھنے کا شوق مجھے اس وقت سے تھا، جب میں پانچ سال قبل شکاگو آیا تھا اور ایک پاکستانی انجینئر فضل الرحمن کی ڈیزائن کردہ ایک سو آٹھ منزلہ عمارت سیئرز نادر (Sears Tower) دیکھی تھی جو 1973ء سے پچیس سال تک دنیا کی سب سے اونچی عمارت شمار کی جاتی رہی۔ فضل الرحمن جن کا شمار بیسویں صدی کے سب سے زیادہ متاثر کن انجینئر اور آرکیٹکٹ کے طور پر ہوتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے ضلع فرید پور کے رہنے والے تھے اور احسان اللہ انجینئرنگ کالج ڈھاکہ سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد فل برائٹ اور حکومت پاکستان کی طرف سے دیئے گئے اسکالرشپ پر 1952ء میں امریکہ آئے تھے۔ انہوں نے اربنا سمپین (Urbana-Champaign)یونیورسٹی الی نوئے سے اسٹرکچرل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔1969ء میں سیئرز ٹاور کی تعمیر کی ذمہ داری سنبھالنے سے قبل وہ شکاگو میں ہی جون ہینکوک نام کی ایک سو منزلہ عمارت کی تعمیر سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ دنیا میں اور کئی ممتاز عمارتوں کے علاوہ سعودی عرب کا حج ٹرمینل بھی انہی کا تعمیر کیا ہوا ہے۔ ان کی غیر معمولی کامیابیوں پر بنگلہ دیشی بھی اتنا ہی فخر محسوس کرتے ہیں، جتنا پاکستانی، کیوں نہ کریں آخر پاکستان کی تعمیر کا پہلا پتھر بھی تو مسلم لیگ کے قیام کی صورت میں 1906ء میں ڈھاکہ میں ہی رکھا گیا تھا۔


سیئرز ٹاور میں دیگر عوامل کے علاوہ جس چیز نے مجھے متاثر کیا تھا، وہ ایک دیوار پر یونیورسٹی آف شکاگو کا تعارف تھا جس پر نظر ڈالتے ہوئے مَیں یہ جان کر دنگ رہ گیا کہ اس یونیورسٹی سے وابستہ نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کی تعداد 89 تھی، جن میں اینریکو فرمی (Enrico Fermi)کا نام بھی شامل تھا، جنہیں ایٹم بم کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ فرمی کا نام دیکھ کر مَیں اس لئے بھی چونکا تھا کہ طبیعات کا طالب علم ہونے کے ناتے مَیں نے ان کے نام سے تعبیر کئے گئے نظریات 1968ء میں یونیورسٹی میں پڑھے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میں گھر سے سائنسدان بنتے نکلا تھا اور فزکس میں آنرز کرنے اسکالر شپ پر ڈھاکہ یونیورسٹی پہنچا تھا،جس کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کے ایک سربراہ ’لوس‘ کا نام نہ صرف یہ کہ آئن اسٹائن کے ساتھ آتا ہے، بلکہ ایک دریافت شدہ ایٹمی زرے ’بوسون‘ (Boson) کو بھی انہی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، لیکن انقلابات زمانہ نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش اور مجھے سائنسدان کے بجائے صحافی بنا دیا۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے حوالے سے نوبل پرائز حاصل کرنے والوں میں آفاقی مفکر برٹنڈرسل اور صدر امریکہ بارک اوباما کا نام بھی آتا ہے۔ برٹنڈرسل جنہیں ادب میں نوبل پرائز ملا، دوسری جنگ عظیم سے قبل یہاں پڑھاتے رہے، جبکہ امن کا نوبل پرائز پانے والے صدر اوباما 1992ء سے لے کردس سال تک ،سینیٹر منتخب ہونے سے قبل یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں آئینی قوانین پڑھایا کرتے تھے۔(جاری ہے)


مزید :

کالم -