جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع:بے وقت کی راگنی کیوں؟

جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع:بے وقت کی راگنی کیوں؟
جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع:بے وقت کی راگنی کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے 14ماہ پہلے اِس بحث کا کیا جواز بنتا ہے کہ اُنہیں ملازمت میں توسیع ملنی چاہئے یا نہیں۔ طریقۂ کار کے مطابق نئے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری تین ماہ پہلے کی جاتی ہے، پھر اتنی جلد بازی کیوں کی جا رہی ہے، کون کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل میڈیا اور عوامی حلقوں میں زیر گردش ہیں۔ عالمی جریدے ’’اکانومسٹ‘‘ نے اپنے حالیہ شمارے میں جنرل راحیل شریف کو مُلک کی سب سے مقبول شخصیت قرار دے کر یہ توقع ظاہر کی ہے کہ انہیں ملازمت میں توسیع دے دی جائے گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس جریدے کو14ماہ پہلے کیا فکر کھائے جا رہی ہے، کوئی مجھ سے میری غیر جانبدارانہ رائے پوچھے تو مَیں بِلا کسی کم و کاست کے یہ کہوں گا کہ سب کچھ جنرل راحیل شریف کو دباؤ میں لانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انہوں نے اب تک مُلک کی بہتری کے لئے جو کچھ کیا ہے، اُس کے پسِ پردہ ملازمت میں توسیع کی خواہش شامل ہے۔ حیران کن بات ہے کہ بار بار اِس ایشو کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما اٹھاتے ہیں، یا پھر پیپلزپارٹی کے لوگ، اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہر دوسرے روز اس کا ذکر کرتے ہیں، لامحالہ اس کے پیچھے کچھ سیاسی مقاصد کار فرما ہوں گے۔ پاکستان تحریک انصاف والے چونکہ اِس گیم پلان میں شامل نہیں، اِس لئے وہ اس بحث کو قبل از وقت قرار دے رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے واضح طور پر کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع کا معاملہ ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘ کے مترادف ہے۔


کیا یہ نکتہ قابلِ غور نہیں کہ ماضی میں جرنیلوں کو ملازمت میں توسیع ملتی رہی ہے اور آخر تک کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی تھی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جب توسیع دی گئی، تو سب کچھ خاموشی سے ہو گیا۔ کیا وجہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کے معاملے میں14ماہ پہلے ہی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔ ضرور دال میں کچھ تو کالا ہے، اس بحث کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اُن کی توسیع ملازمت کے ایشو کو متنازعہ بنایا جائے، کیونکہ زمینی حقائق کے مطابق اگر وہ عوام میں حد درجہ مقبول ہیں تو سیاسی اشرافیہ میں اتنے ہی غیر مقبول ہو چکے ہیں۔ اُن کی موجودگی کرپٹ اشرافیہ پر بھاری گزر رہی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے جس مہارت اور خوبصورتی سے سیاسی نظام کو چھیڑے بغیر مُلک میں احتساب اور دہشت گردی کے محاذ پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وہ عوام کے لئے امرت دھارا اور سیاسی اشرافیہ کے لئے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب مُلک پر جنرل(ر) پرویز مشرف کی حکومت تھی، خفیہ ادارے عوام سے رابطہ قائم کر کے اُن کی حمایت میں منت ترلے کے بعد بینرز لگواتے تھے۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں بھی فوج کی حمایت کرنے والے کئی تحفظات میں مبتلا تھے، مگر اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ خود مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی بینروں پر جنرل راحیل شریف کی تصویر لگواتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عوام کا موڈ کیا ہے۔ ’’اکانومسٹ‘‘ کی یہ بات درست ہے کہ خیبر سے کراچی تک ہر جگہ جنرل راحیل شریف کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ یقیناًیہ امر سیاسی قیادت کے لئے خوش آئند نہیں۔ اگر عوام اپنے منتخب رہنماؤں کی بجائے ایک وردی والے سپہ سالار پر اعتماد کرتے ہیں، تو اس میں سیاست دانوں کے لئے فخر کی کوئی بات نہیں۔



اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیاست دان اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھاتے، اپنی کارکردگی بڑھاتے، مگر اس کی بجائے انہوں نے وہ موقف اختیار کیا، جو اُن کی رہی سہی مقبولیت کے لئے تازیانہ ثابت ہوا۔ مثلاً یہ بحث چھیڑ دی گئی کہ رینجرز کو کہاں مداخلت کرنی چاہئے اور کہاں نہیں؟ آئینی اداروں کا کردار اور حدود کیا ہیں اور ہو کیا رہا ہے۔ احتساب سول اداروں کو کرنے دیا جائے، چونکہ یہ عسکری اداروں کا مینڈیٹ نہیں وغیرہ وغیرہ، مگر یہ سب باتیں اگر عملی شکل اختیار کر لیتیں، سیاسی قائدین واقعی سول اداروں کے تحت گڈ گورننس کے لئے نظام میں تبدیلیاں لاتے، اربوں کھربوں کی کرپشن کرنے والوں کو حکومتی صفوں میں پناہ دینے کی بجائے انہیں نکال باہر کرتے اور اس حوالے سے چوروں کی بجائے چوری پکڑنے والوں کا ساتھ دیتے تو عوام اُن کی بات ضرور سنتے۔ پھر ضرور یہ سوچتے کہ جب منتخب حکومت سب کچھ کر رہی ہے، تو فوج کو سول معاملات میں مداخلت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر وہ جنرل راحیل شریف کی بجائے وزیراعظم نواز شریف کو زیادہ نمبر دیتے، لیکن یہاں تو سب کچھ الٹ ہو رہا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ ارے بھائی ایک طریقۂ کار اور مروجہ قانون کے مطابق رینجرز نے اگر انہیں ٹھوس شواہد کی وجہ سے 90دن کی حراست میں لے لیا ہے، تو نتائج و تحقیق کا انتظام کرو۔ یہ کہنا کہ سندھ پر حملہ ہو گیا ہے منتخب حکومت کے اختیارات چھین لئے گئے ہیں، سب کچھ بالا بالا ہو رہا ہے، کیا اختیارات سے تجاوز نہیں ہے۔ ایک لمحے کے لئے اگر یہ فرض کر لیں کہ ڈاکٹر عاصم حسین واقعی اِس لوٹ مار کا حصہ رہے ہیں، جو مُلک میں ہوتی رہی ، تو کیا رینجرز کے بغیر سندھ کی حکومت ان پر ہاتھ ڈالتی، وہ تو انہیں صوبائی وزیر کا درجہ دیئے ہوئے تھی۔ آج پیپلزپارٹی اُن کی گرفتاری کے باعث جس اضطراب میں نظر آ رہی ہے، اُس کے پیش نظر بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین پر ہاتھ تو کیا کسی نے بُری نظر تک نہیں ڈالنی تھی۔


عوام اندھے ہیں، نہ بہرے، وہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں، بھانت بھانت کی بولیاں سُن رہے ہیں۔ کیا یہ کم ہے کہ کراچی میں بغیر کسی بڑے خون خرابے کے امن آ گیا ہے۔ آپ ذرا 90ء کی دہائی میں جائیں اور دیکھیں کہ جس نصیر اللہ بابر آپریشن کی آج تک مثال دی جاتی ہے، اُس میں کیا کچھ نہیں ہوا تھا۔ جنرل راحیل شریف کی حکمتِ عملی نے ہر ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ مُلک کا سب سے بڑا شہر جو ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا تھا، اب ایک پُرامن شہر کے طور پر اُبھر رہا ہے۔14اگست بھی بھرپور طریقے سے منایا گیا اور اب عیدِ قربان بھی امن و سکون سے گزر گئی۔ یہ سب کچھ عوام کو نظر آ رہا ہے۔ سندھ حکومت غالباً دُنیا کا ساتواں عجوبہ ہے، جو صوبے کے سب سے بڑے شہر میں آنے والے امن پر خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے اس غم میں مبتلا ہے کہ صوبے میں مداخلت کیوں ہو رہی ہے؟ اس سے تو ظاہر ہے کہ سید بادشاہ کی حکومت کو عوام کے جان و مال کی حفاظت سے کوئی غرض نہیں تھی۔اُس کا حال تو مرزے کی اُس خواہش جیسا تھا،جو گلیوں کے سنسان ہونے کی آرزو کرتا ہے تاکہ اُن میں اکیلا پھرتارہے۔ حکومت اور عوام اگر ایک صفحہ پر رہیں، تو جمہوریت چلتی ہے، اگر یہ دونوں ایک دوسرے کے متحارب آ کھڑے ہوں، تو جمہوریت لولے لنگڑے نظام کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ حیرت ہے کہ سول حکومتیں عوام کے موڈ کو نہیں دیکھ رہیں۔ اپنا راگ الاپ رہی ہیں۔ آئین ہو یا پارلیمینٹ یہ سب عوام کی سلامتی و خوشحالی کے ذرائع ہیں۔ اگر کوئی ان کا حقیقی راستہ روک کر انہیں اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے، تو آئین و پارلیمینٹ کا اصل منحرف وہ ہے۔ آئین و پارلیمینٹ کو صرف اپنے ذاتی و مفاداتی ایجنڈے کے لئے استعمال کرنا سب سے بڑی قانون شکنی ہے۔ اس وقت منظر نامہ بالکل واضح ہے۔ ایک طرف وہ قوتیں ہیں، جو اس نوعیت کی قانون شکنی کو جاری رکھنا چاہتی ہیں اور دوسری طرف عوام کی خواہشیں اور وہ فضا ہے، جس میں اب یہ کام ممکن نظر نہیںآتا۔ یہ کشمکش کب تک جاری رہ سکتی ہے، عوامی خواہشات کے برعکس اشرافیہ اپنا روایتی طرزِ عمل کیسے برقرار رکھے گی۔ یہ سوال سیاسی قیادت کے پیش نظر رہنا چاہئے، مگر وہ اس سوال پر غور کی بجائے اس تگ و دو میں لگی ہوئی ہے کہ کس طرح پہئے کو اُلٹا چلا د ے اور وہ سب کچھ ختم ہو جائے، جو اس وقت ہو چکا ہے اور جس نے ملکی فضا کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔


جہاں تک جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہے، تو اس کا ابھی وقت نہیںآیا، مگر ایک بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ ماضی میں فوج کے سپہ سالاروں کو حکمران اپنی مصلحتوں کے تحت توسیع دیتے رہے، ان کا عوام کی مرضی و منشاء سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن جنرل راحیل شریف کا معاملہ دوسرا ہے۔ اُن کے بارے میں عوام کی رائے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملکی حالات و نظام کی بہتری تک جنرل راحیل شریف موجود رہیں۔ عوام ان کی وجہ سے مُلک میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھ رہے ہیں۔ حقیقی و صاف ستھری جمہوریت احتساب اور امن کے بغیر ممکن نہیں، یہ دونوں باتیں اب عوام کو سامنے نظر آ رہی ہیں۔ اگر اِن دونوں کو سیاسی قائدین اپنی سیاست کا بنیادی ایجنڈا بنا لیں اور عوام کو ایک اچھی جمہوریت کا تحفہ دے دیں تو عوام کِسی باوردی رہنما کی طرف دیکھنا بند کر دیں گے، مگر مَیں جانتا ہوں سیاست دانوں نے یہ کام نہیں کرنا، کیونکہ جمہوریت و سیاست اُن کے لئے عوامی نہیں ذاتی ایجنڈا ہے۔

مزید :

کالم -