آنکھوں والے لوگ
یہ کبھی ممکن ہی نہیں کہ میں لاہور کے علاقے شاد باغ جاؤں اور وہاں آنکھوں کے فری ہسپتال محمدی میڈیکل ٹرسٹ نہ جاؤں۔ برادرم ندیم احمد اپنے والد گرامی محمد شفیق جنجوعہ کی سرپرستی اور نگرانی میں یہ ہسپتال نہایت کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ یہ ہسپتال صبح آٹھ بجے سے دوپہر ایک بجے تک کھلتا ہے۔ وقفے کے بعد شام پانچ بجے دوبارہ کھل جاتا ہے اور رات دس بجے تک مریضانِ چشم کی چارہ گری کرتا ہے۔ ہر روز سینکڑوں مریض یہاں دور و نزدیک سے آتے ہیں۔ آنکھوں کا مفت معائنہ کراتے ہیں۔ ضرورت ہو تو ان کا آپریشن بھی کیا جاتا ہے۔ ضرورت مندوں کو مفت عینکیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
مجھے پہلی بار یہ ہسپتال دکھانے کے لئے ماہنامہ ’’پھول‘‘ کے مدیر گرامی برادرم شعیب مرزا لے گئے تھے۔ وہ شادباغ میں ایک عرصے سے مقیم ہیں اس لئے محمدی میڈیکل ٹرسٹ اور اس کے چلانے والوں کی خوبیوں سے کچھ زیادہ واقف ہیں۔ چنانچہ وہ دوستوں کو یہ ہسپتال دکھانے کے لئے یوں سینہ تان کر اپنے ہمراہ شاد باغ لے جاتے ہیں جیسے یہ انہی نے قائم کیا ہو۔ شعیب مرزا صاحب میری طرح گناہ گار نہیں، ایک نیک آدمی ہیں اس لئے وہ دوسروں کی نیکیوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ دیکھنے، سننے اور پڑھنے والے بھی ان کی تقلید کریں۔
ہمارے میڈیا میں برائی کا شور اتنی شدت کے ساتھ مچایا جاتا ہے کہ نیکی کی بڑی آواز بھی دب کر رہ جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بظاہر معاشرے میں ہر طرف برائی ہی برائی نظر آتی ہے اور اچھوں پر بھی بروں کا گمان ہوتا ہے کوئی اچھا کام کرے تو اس میں سے بھی ہم کوئی سازش ڈھونڈ لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس میں بھی اس کا ضرور کوئی فائدہ ہوگا ورنہ کون آج نیکی کے کام کرتا ہے۔ لیکن محمدی میڈیکل ٹرسٹ کے محمد شفیق جنجوعہ صاحب اپنے فرزندانِ ارج مند کو ساتھ ملا کر نیکی کے سفر پر گامزن ہیں۔ میرا ایک شعر ہے:
خدا کے ساتھ کرو نیکیوں کا کاروبار
خدا ہمیشہ منافع زیادہ دیتا ہے
میں کچھ زیادہ مذہبی آدمی نہیں لیکن اس کے باوجود پختہ یقین رکھتا ہوں کہ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اس کا ثواب اور ثمر کئی بار ضرب دے کر ہم تک پہنچتا ہے۔ آپ ایک سیب کاٹ کر بتا سکتے ہیں کہ اس میں کتنے بیج ہیں لیکن یہ کبھی نہیں بتا سکتے کہ ایک بیج میں کتنے سیب ہیں۔
آپ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اللہ تعالیٰ اگر ایک بیج بونے کے صلے میں ہمیں ہزاروں، لاکھوں سیب عطا کرتا ہے تو ایک نیکی کے بدلے کیا کچھ نہیں ملتا ہوگا۔ میں اگر اس ہسپتال کے بارے میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو صرف اس لئے کہ دوسروں کو بھی ایسا کام کرنے کی ترغیب ملے۔ بہت سے لوگ جو صاحبِ استطاعت ہیں، جنجوعہ صاحب کی طرف دستِ تعاون بڑھا سکتے ہیں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس ہسپتال کو کسی سرکاری تنظیم یا ادارے سے کوئی گرانٹ نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ بیرونی ممالک میں قائم ڈونر ایسوسی ایشنوں سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں۔ جنجوعہ صاحب اپنی ذاتی کوشش و کاوش سے اس ہسپتال کی ایک بہت بڑی نئی عمارت تعمیر کرا رہے ہیں جس میں اہل علاقہ نے بھی اپنی بساط کے مطابق کچھ حصہ ڈالا ہے۔
جنجوعہ صاحب نے آج سے تیس سال پہلے ایک چھوٹی سی کرائے کی دکان میں جز وقتی ڈسپنسری بنا کر لوگوں کی فلاح کا کام شروع کیا تھا۔ آج ان کا لگایا ہوا یہ پودا ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ جدید اور بہترین طبی آلات اور مشینری یہاں موجود ہے۔ نہایت لائق اور محنتی ماہرین امراض چشم کی خدمات اس ادارے کو حاصل ہیں جو سب کے سب خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ یہ سب خلوصِ نیت سے اپنا کام کرتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ جس کام میں خلوص شامل ہو جائے وہ کبھی نا مکمل نہیں رہتا۔ ایک بات اور بتاتا چلوں کہ یہاں آنکھوں کا مفت معائنہ کرانے کے لئے کسی کی سفارش نہیں کرانا پڑتی آپ مقررہ وقت پر تشریف لایئے۔ معمولی سی پرچی فیس ادا کیجئے اور بس اس کے بعد ہسپتال کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ اہل ثروت مگر اہل دل قارئین سے مجھے عرض کرنا ہے کہ آپ آگے بڑھیے اور نیکی کے اس کام میں اپنا حصہ ڈالئے۔ منافع اللہ تعالیٰ دے گا۔ اس ہسپتال کا ایڈریس ہے 480 شادباغ لاہور فون نمبر 042-37285841
آخر میں میری ایک غزل کے چند شعر جن کا تعلق بصارت اور بصیرت سے کچھ کچھ ضرور ہے:
ہم اپنے آپ ہی کو دکھائی نہیں دیے
اس واسطے کسی کو دکھائی نہیں دیے
کُچلے ہوؤں کو اور کچلتی چلی گئی
ہم لوگ زندگی کو دکھائی نہیں دیے
ہم نے بٹھا رکھا ہے جنھیں اپنے دوش پر
ہم لوگ بس انھی کو دکھائی نہیں دیے
بارش میں بھیگتے ہوئے رونے کا فائدہ
آنسو مرے کسی کو دکھائی نہیں دیے
کچھ منزلوں کی کھوج میں نکلا نہیں کوئی
کچھ راستے کسی کو دکھائی نہیں دیے
ناصر بشیر وہ مرے حصے میں آ گئے
کشکول جو سخی کو دکھائی نہیں دیے
