کون جیتے گا؟

کون جیتے گا؟
کون جیتے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جوں جوں 11اکتوبرقریب آرہا ہے۔ توں توں یہ بحث زور پکڑتی جارہی ہے کہ حلقہ 122میں کون جیتے گا، یہ الگ بات کہ حلقے میں انتخابی مہم نے اس انداز میں زور نہیں پکڑا ،جس انداز سے یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ کون جیتے گا؟


حلقے میں موٹر سائیکل بانٹے گئے ہیں، جوتیوں میں دال ابھی بٹنی ہے۔ حلقہ 122کا بٹوارہ اب کے 11مئی 2013ء کو ہونے والے عام انتخابات جیسا نہیں ہے ۔ 11اکتوبر2015ء کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی سر نکال کر کھڑی ہو گئی ہے۔ اب پاکستان تحریک انصاف کاایک نہیں ،دو سیاسی جماعتوں سے مقابلہ ہوگا.....مقابلہ تو خیر ایک سے بھی نہیں تھا اگر پیپلز پارٹی اپنی سیاسی ساکھ بچائے رکھتی۔ چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی ایسا نہ کرسکی ،اس لئے اب پی ٹی آئی اُچھل اُچھل کر سیاسی مخالفین کو پڑ رہی ہے اور آئے روز نت نئے دعوے کرتی ہے، اگرچہ یہ خالی دعوے ہی ہیں اور عملی طور پر کچھ نہیں کر سکی ہے۔کچھ کرنا ہوتا تو پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں کچھ کرکے دکھا نہ چکی ہوتی!


موجودہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کا سارا دارومدار عمران خان کی مقبولیت پر ہے، مگر عمران خان اب مقبول کیا کسی کو قبول بھی نہیں ہیں، کیونکہ شادی کے بعد ان کی ریٹنگ خطرناک حد تک گرگئی ہے اور ان کی وہ مارکیٹ نہیں رہی جو پہلے تھی،گویا کہ حلقہ 122میں عمران خان کی مقبولیت کا کچھ عمل دخل نہ ہوگا اور سارا زور علیم خان کو خود لگانا ہوگا۔


ایک اور اہم بات یہ ہے کہ حلقہ 122میں ضمنی انتخابات کے حکومتی اعلان کے بعد پی ٹی آئی کو لاحق دھاندلی کی قبض بھی ٹوٹ گئی ہے اور اب اس کے سربراہ اس طرح سے جزبز ہوتے نظر نہیں آتے جو اس سے قبل ان کا خاصہ تھا۔ اسی طرح جیوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی سے ٹوٹ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں کو بھی بریکیں لگ گئی ہیں۔ان کے خیال میں اس وقت عمران خان کو جوائن کرنا، ایک بڑی بے وقوفی ہے۔اس لئے انہوں نے انتظار کو ترجیح دی ہے اور اپنے گھوڑوں سے زرہ بکتریں اتار لی ہیں۔چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ حلقہ 122میں کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہونے جا رہا، بلکہ پہلے سے موجود سیٹ اپ ہی دوبار ہ سے سیٹ ہونے جا رہا ہے۔
اس کے باوجود کہ صورت حال پی ٹی آئی کے کچھ خاص موافق نہیں ہے ، حلقہ 122میں عمران خان کے ہمدردوں کی امیدیں قائم ہیں۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے حامیوں کی ہو نہ ہومیاں نواز شریف کے مخالفین کی امیدیں ضرور قائم ہیں ۔ یہ الگ بات کہ ان کی امیدیں غلط کھونٹے سے بندھی ہوئی ہیں۔ پی ٹی آئی میں وہ دم خم نظر نہیں آرہا ہے کہ شیروں کو گرا سکے۔عمران خان خود کہتے ہیں کہ انہیں ٹیسٹ نہ کیا جائے ۔ ہمیں تو سمجھ نہیں آتی عمران خان ایسا کیوں کہتے ہیں، کیونکہ لیڈرشپ تو ہوتی ہی ٹیسٹ ہونے کے لئے ہے۔ شاید عمران ایسا اس لئے کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی ٹیسٹ میں کامیاب ہونے کے لائق نہیں رہے ہیں۔یہ الگ بات کہ ان کی چھب ابھی بھی نرالی ہے۔ ہیرو تو وہ پہلے دن سے ہیں ، مگر اب ہیروئن کو پالینے کے بعد ان کی سٹوری دی اینڈ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پچھلے دنوں ایک بزرگ خاتون نے بڑے دکھ سے کہا کہ بیچارے عمران نے دھرنے کے دوران اتنی زیادہ محنت کی، مگر ناکامی اس کا مقدر بنی۔ اس کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ،جس کا ازالہ یوں ہو سکتا ہے کہ خواہ ایک دفعہ سہی، مگر عمران خان کو وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ہم نے عرض کی کہ محترمہ آپ درست کہتی ہیں، مگر یہ کیا کہ آپ تو منتوں ترلوں پر اتر آئی ہیں۔ مزید عرض کیا کہ جب منتیں ترلے شروع ہوجائیں تو سمجھئے کہ کہانی ختم ہو نے والی ہے۔


لگتا ہے کہ عمران کی سیاست ختم ہو گئی ہے، مگر عمران سے سیاست ابھی جاری ہے، جن لوگوں نے انہیں کھڑا کیا تھا ان میں سے آدھے بھاگ گئے ہیں اور آدھے خود کھڑے ہو گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو معلوم ہے کہ اس دفعہ اگر وہ اپنی سیاسی ساکھ نہ بچاسکی تو ان کا کھوتا کھوہ میں جا گرے گااور اس کی داستاں تک بھی داستانوں میں نہ ہوگی۔حلقہ 122میں اگر پیپلز پارٹی پی ٹی آئی سے زیادہ ووٹ لے گئی تو پیپلز پارٹی سیاسی طور پر زندہ ہو جائے گی۔ دیکھئے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!

مزید :

کالم -