عید کی نماز سیاسی قیادت ملک سے باہر اور جنرل راحیل شریف نے خیبر ایجنسی کے پتھریلی پہاڑوں میں ادا کی
پورے ملک میں جب ہر خاص وعام اپنوں کے ساتھ عید منارہے تھے اور سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے بعد چٹ پٹے کھانوں میں مصروف تھے ایسے وقت میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے خیبر ایجنسی کے پتھریلے پہاڑوں میں اپنے جوانوں کو گلے لگا رہے تھے جنرل راحیل شریف اپنے خاندان ،رشتہ داروں اوردوستوں کی محفل کو چھوڑ کر عید کے پہلے روز خیبر ایجنسی پہنچے جہاں انہوں نے دہشتگردی کے خلاف برسر پیکار جوانوں کے ساتھ نماز عید ادا کی اورایک ایک جوان کو گلے لگا کرعید ملے یہ وہ جوان ہیں جو ملک وقوم کی آزادی اورحفاظت کیلئے عرصہ سے پہاڑوں پر تعینات ہیں یقیناً ایسے وقت میں ان جوانوں کو اپنا گھر اور گھرانہ شدت سے یاد آرہا ہوگا مگر جنرل راحیل نے انکی تنہائی اور اداسی کو ایک خوشی میں بدل دیا جسے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یاد رکھیں گے اس موقع پر جنرل راحیل شریف نے جوانوں کا حوصلہ بلند سے بلند کرنے کیلئے ان سے خطاب کیا اور اپنے خطاب میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اندرونی اور بیرونی دہشتگردوں کو شکست دینا ہوگی دہشتگردی کے خلاف فوج کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہے اور سب نے مل کر ریاست کے دشمنوں کو ناکام بنانا ہوگا جنرل راحیل شریف نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ دہشتگردوں کو سرحد پار بھی اپنی پناہ گاہیں بنانے سے روکنے کیلئے ہر سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے یہ بات متعدد بار دہرائی کہ دہشتگردی کیخلاف پوری قوم پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہے دہشتگردی پھیلانے والے اندرونی اور بیرونی دہشتگردوں کو ہر حال میں شکست دینا ہوگی ہمیں بحیثیت قوم ریاست کے دشمنوں کو کوئی موقع نہیں دینا چاہئے اور پوری قوم کو دہشتگردوں کے خلاف متحد ہونا چاہئے ۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ نہ صرف ان کے دل کی آواز تھی بلکہ وہ سو فیصد عوام کے جذبات کی بھی ترجمانی کررہے تھے اس بات میں اب شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ ماسوائے مٹھی بھر دہشتگرد عناصر اور مٹھی بھر کرپٹ لیڈروں کے پوری قوم دہشتگردی کے خلاف متحد ہوچکی ہے اور پاک فوج کی پشت پر ایسے کھڑی ہے کہ اگر قوم کو کال دی جائے تو وہ پاک فوج کے شانہ بشانہ قربانیاں دینے کیلئے بھی تیار ہے عوام کے اندر دہشتگردی کیخلاف آواز اٹھانے کا جذبہ جنرل راحیل شریف ہی نے اپنے عمل سے پیدا کیا ورنہ اس سے قبل صرف روایتی بیانات ہی آتے تھے اور عید سمیت اہم قومی ومذہبی تہواروں کے موقع پر اسلام آباد میں محفلیں جمائی جاتی تھیں اور موسیقی کے نام پر قوم کو آزادی کا پیغام دیا جاتا تھا ہماری سیاسی قیادتوں نے ہمیشہ ملک سے باہر عید کے تہوار منائے اور محض ایک روایتی بیان جاری کرکے عوام کو لالی پاپ دینے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہمارے ماضی کی قیادتوں کے ان رویوں نے عوام کے اندر احساس عدم تحفظ اور احساس محرومی کو جنم دیا اور عوام نہ صرف اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے بارے فکر مند تھے بلکہ ملک کی سلامتی کے حوالے سے بھی خاصی تشویش پائی جاتی تھی مگر جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کی قیادت سنبھالتے ہی ایسے اقدامات اٹھانا شروع کردیئے جس سے مایوس عوام کے اندرزندگی کی نئی لہر دوڑ گئی عوامی حلقوں میں پاک فوج کی مقبولیت اور ان پر اعتماد کا اندازہ اسی بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ تمام حلقے کر پشن اور دہشتگردی کے خلاف فوج کو مکمل بااختیار بنانے کے تذکرے کرتے نظر آتے ہیں بے زبان عوام اب یہاں تک کہنا شروع ہوگئے کہ انتخابات ہوں یا زلزلہ کی تباہی سیلاب ہو یا کسی کے اقتدار کو خطرہ تمام حالتوں میں فوج کو ہی بلایا جاتا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ کرپشن اور دہشتگردی کیخلاف فوجی اقدامات کے سامنے رکاؤٹیں پیدا کی جاتی ہیں اور سیاسی بنیادوں پر ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جو پاک فوج کی دل شکنی کا باعث بنتے ہوں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کرپشن اور کرپٹ عناصر کے حق میں بیانات دینے پر تمام سیاسی ورکر اپنی اپنی قیادتوں سے ناراض اور نالاں دکھائی دے رہے ہیں اور اپنے لیڈروں کے برعکس وہ پاک فوج کی حمایت میں بات کرتے نظر آتے ہیں کرپٹ عناصر کے حق میں بیانات جاری کرنے سے سیاسی لیڈروں کی مقبولیت میں اسقدر کمی واقع ہوگئی ہے کہ کارکن اب اپنے لیڈروں کی کال پر سڑکوں پر بھی نکلنے کو تیار نہیں اس کے برعکس پاک فوج کی مقبولیت اور حمایت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور نچلے درجے کے عوام اب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہش مند بن گئے خیبر پختونخوا اورملحقہ قبائلی علاقوں میں حسب روایت ایک روز قبل جزوی طور پر عید الاضحی منائی گئی اور قومی یکجہتی کا خواب ایک مرتبہ پھر شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا تاہم اس مرتبہ نماز عید کے بعد سنت ابراہیمی ادا کرنے والوں نے ایک روز قبل عید منانے پر کئی ایسے سوالات اٹھائے جو کہ غور طلب ہیں پشاور سمیت بندوبستی اور قبائلی علاقوں میں جب لوگ نماز عید سے فرصت پانے کے بعد سنت ابراہیمی ادا کررہے تھے تب سعودی عرب اور مکہ میں نماز فجر ادا کی جارہی تھی اس طرح مکہ سے پہلے ہی قربانی کرنے والوں نے اپنی قربانی پر کئی شرعی سوالات اٹھائے جن کا جواب کسی کے پاس نہ تھا تاہم کسی کو اس کے سوال کا جواب ملے بغیر قربانی ہوگئی عید بھی گزر گئی ۔
