سانحہ منیٰ اکثر حجاج کی کم علمی کے باعث ایسا ہوتا ہے، تحقیق ضروری
سانحہ منیٰ کے اندوہناک صدمے نے پوری ملت اسلامیہ کی طرح پاکستان کے لوگوں کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے لوگوں کی اپنے لاپتہ پیاروں کی خیریت کے حوالے سے پریشانی ایک فطری عمل ہے مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو سیاست کا کھیل اور پوائنٹ اسکورنگ کا معاملہ بنانے کے عادی ہو گئے ہیں۔ جن کو خدا نے حج بیت اللہ کی استطاعت دے کر حج پر جانے کی توفیق عطا فرمائی ہے ان میں سے اکثر کا مشاہدہ یہی ہے کہ حج کے موقع پر منیٰ میں جب بھی کوئی سانحہ رو نما ہوتا ہے اس کا بڑا سبب حجاج کرام کے لئے طے کردہ آنے جانے کے الگ الگ راستوں کی پابندی کی خلاف ورزی اور بعض حضرات کا نا سمجھی میں آنے اور جانے کے لئے ایک ہی راستہ کو استعمال کرنے کی کوشش ہوتا ہے۔ مستقبل میں اس طرح کے المناک سانحات سے محفوظ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ اس واقعہ کی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے سعودی حکومت اعلیٰ سطحی تحقیقات بھی کرائے، اور اس کی رپورٹ دنیا کے سامنے پیش بھی کر دے تاکہ کوئی اس ملی سانحہ کو ’’عرب و عجم‘‘ کی جنگ بنانے کی سازش میں کامیاب نہ ہو سکے، بلا شبہ سعودی حکومت اپنے طور پر انتظامات کرتی ہے حکومت حجاج کرام کی سہولیات کے جتنے بھی بہتر سے بہتر فول پروف انتظامات کرلے تب بھی انسانی غلطی اور کوتاہی کے امکان کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟ سعودی حکومت کو اس سانحہ کی تحقیقات میں اسی پہلو پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مفتی اعظم پاکستان محترم مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کا یہ کہنا سو فیصد درست اور صائب مشورہ ہے کہ ’’اس سانحہ کی تحقیقات تو ضرور ہونی چاہئے۔ مگر سانحہ منیٰ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا شریعت میں کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘
اس معاملے میں میڈیا کو بھی حد درجہ احتیاط کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے اور معاملے کو فرقہ واریت اور عرب و عجم کے تعصبات کا رنگ دینے والے رنگ بازوں کو بھی میڈیا سے دور رکھنے کی ضرورت ہے۔ سانحہ منیٰ جیسے واقعات سے مستقبل میں محفوظ رہنے کے لئے ہمارے علماء کرام کو کلیدی کردار ادا کرنا پڑے گا وہ حج کی ادائیگی کے لئے جانے والوں کی رہنمائی کے لئے سال بھر تواتر کے ساتھ اپنے خطبات میں چند منٹ مختص اور شعوری کوشش کریں کہ حج کی سب سے افضل عبارت یہ ہے کہ وہ جلد بازی اور عجلت پسندی کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب کر کے دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے باز رہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا کہ راہنمائی کے لئے خطبہ حجتہ الوداع کی روشنی میں عامتہ الناس سے تعلق رکھنے والے حجاج کرام کی رہنمائی کے لئے ایسی مختصر اور جامع کتاب تیار کی جائے جس میں فقہی مسالک کی بنیاد پر مسائل کی بحث سے اجتناب برتا گیا ہو۔
منیٰ سے شیطان کو کنکریاں مارنے کے لئے ’’حمبرات‘‘ کی طرف جانے کی جلد بازی میں آنے اور جانے کے ایک ہی راستے کو استعمال کرنے کی وجہ سے پہلے بھی کئی بار حجاج کرام کچلنے اور دم گھٹنے کی وجہ سے زندگیوں سے محروم ہوتے رہے ہیں۔ تحقیقات ہو گی تو صحیح صحیح اندازہ ہوگا کہ اس سانحہ کی وجہ کس ملک کے عجلت پسند حاجی بنے ہیں جنہوں نے یک طرفہ راستے کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس نامہ نگار نے سانحہ کے بعد منیٰ فون کر کے جاننے والے متعدد حجاج کرام سے صورت حال اور حادثہ کا سبب جاننے کی کوشش کی تو سب نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ حادثہ کسی شہزادے کے آنے جانے کے لئے راستہ بند کرنے کی وجہ سے ہوا۔
اب بات کرتے ہیں سندھ میں عید الاضحی کی۔ خدا کا شکر ہے کہ سندھ خصوصاً کراچی میں رمضان المبارک، عید الفطر کی طرح عید الاضحی بھی پر سکون گزر گئی ہے کراچی میں امن کی بحالی کے لئے رینجرز کا آپریشن عید کی تعطیلات میں بھی جاری رہا۔ رینجرز کے اعلامیہ کے مطابق رینجرز نے عید کی چھٹیوں کے دوران 356 ملزمان کو گرفتار کیا ہے رینجرز کے اعلامیہ کے مطابق 288 افراد پولیس کے حوالے کئے گئے جبکہ 32 کو رہا کر دیا گیا۔ 36 کو سنگین جرائم میں زیر تفتیش رکھا گیا ہے، اعلامیہ کے مطابق صوبہ بھر میں 18 ہزار کھالیں ضبط کی گئیں جو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر کے اور ’’جبری‘‘ طور پر جمع کی گئی تھیں۔ گرفتار افراد کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ، جماعتِ اسلامی، دعوت اسلامی، سنی تحریک، جماعت الدعوۃ اور میمن برادری سے ہے۔ ایم کیو ایم نے رینجرز کی طرف سے اپنے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور جمع شدہ کھالیں ضبط کرنے کے خلاف احتجاجاً تیسرے دن کھالیں جمع کرنے کا پروگرام منسوخ کر کے اپنی تنظیم کے فلاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن کے تحت رفاہی آپریشن بند کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ایم کیو ایم کا الزام ہے کہ اس کو جبری طور پر کھالیں جمع کرنے سے روکنے کے لئے ’’ریاستی جبر‘‘ کیا گیا۔ اس کے کارکنوں کو پکڑ کر بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا ڈاکٹر فاروق ستار نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ریلیف کے لئے اپیل کی ہے۔ ایم کیو ایم کے الزامات اپنی جگہ۔ اس کی تحقیقات کا اہتمام ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کو خود کرنا چاہئے کہ ایم کیو ایم کی طرف سے لگائے گئے الزامات میں کتنی صداقت ہے۔ ایم کیو ایم کا اور دیگر جماعتوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ رینجرز کے بعض اہلکاروں نے سندھ حکومت اور کراچی کی انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ اجازت ناموں اور ضابطہ اخلاق کی مکمل پابندی کے باوجود رضا کارانہ بنیادوں پر جمع شدہ کھالیں یہ کہہ کر ضبط کر لیں کہ یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر کے لی گئیں جبری طور پر ضبط کر کے کسی قانونی جواز اور اتھارٹی کے بغیر ان کے اداروں کی کھالیں ایدھی سینٹر کو دے دی گئیں۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اٹھارہ ہزار کھالوں میں سے کتنی کھالیں ایم کیو ایم کی جمع کردہ اور کتنی دوسری جماعتوں کی تھیں۔ جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے الخدمت کراچی کے انچارج انجینئر عبدالقدیر نے اس نامہ نگار کے استفسار پر بتایا کہ بلدیہ اور فیڈرل بی ایریا سے ہماری چار سو سے زائد جمع کردہ کھالیں ضبط کر کے ایدھی کو دے دی گئیں۔ البتہ جماعت اسلامی کے 14 کارکنوں کو مجسٹریٹ نے ذاتی مچلکوں پر عید کے دوسرے دن رہا کر دیا۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے ڈی جی رینجرز سے معاملہ کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے ذمہ داروں کے تحفظات سے قطع نظر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کراچی میں ستمبر 2013ء سے آپریشن شروع ہوا ہے۔ قربانی کی کھالوں کی چھینا جھپٹی میں بتدریج بہتری آئی ہے اور اس سال ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانے میں رینجرز کے بعض اہلکاروں کی طرف سے احتیاط کا دامن چھوڑنے کی شکایات کی تصدیق آزاد ذرائع نے بھی کی ہے۔ اور اس کی ذمہ دار اجازت نامے جاری کرنے والی سول انتظامیہ بھی ہے جس نے میڈیا کے ذریعہ اجازت نامے جاری کرنے والوں کے نام پوری طرح مشتہر کئے اور نہ ہی رینجرز کو کھالیں جمع کرنے کے مراکز اور اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسپورٹ کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں آگاہ کیا۔ تب ہی تو رینجرز نے دن بھر کے بعد ایک مرکز سے دوسرے مرکز تک لے کر جانے والے کھالوں کے ٹرک بھی یہ کہہ کر ضبط کر لئے کہ اسی طرح ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ یہ شکایت صرف ایم کیو ایم ہی کو نہیں ہے، کراچی، حیدر آباد، دوسرے فلاحی اداروں کو بھی ہوئی ہے ۔میمن برادری کے غریب طلبہ اور یتیم بچے بچیوں کو تعلیم اور طبی سہولتوں کے لئے کھالیں دی جاتی رہیں۔ بعض غیر سیاسی خالص دینی اداروں کو بھی اسی طرح کی شکایات کرتے سنا گیا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ رینجرز کے پاس دوسرے اداروں کی جمع کردہ کھالیں دینے والوں کی اجازت کے بغیر شرعی طور پر ایدھی سینٹر کو دینے کا جواز تھا یا نہیں اس کا اچھا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے کھالیں خراب ہونے دینے کے بجائے فوری طور پر ایدھی سینٹر کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا جس سے کھالیں ضائع ہونے سے بچ گئیں۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے ٹی وی ٹاک شو میں پاکستان ٹینری ایسوسی ایشن کے حوالہ سے یہ بات کہی تھی کہ اس سال کراچی میں دو لاکھ کھالیں خراب اور ضائع ہو گئی ہیں اس نامہ نگار نے اس صنعت سے وابستہ ایک صنعت کار سے رابطہ کر کے اس تعداد کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ تعداد کے بارے میں تو فی الوقت کچھ بھی کہنا مشکل ہے مگر یہ حقیت ہے کہ کئی وجوہ ہیں جن کی بنا پر اس سال کافی تعداد میں کھالیں خراب ہوئیں۔
ایک سبب گزشتہ سال کے مقابلے میں انٹرنیشنل مارکیٹ میں پاکستان لیدر کی کھپت میں کمی ہے۔ کھالوں کے ریٹ میں50 فیصد سے بھی زیادہ کمی کا ہونا بھی ہے جس کی وجہ سے ناتجربہ کار کھالیں جمع کرنے والوں کی طرف سے ریٹ بڑھنے کے چکر میں کھالیں روکے تو رکھی گئیں، مگر بروقت کھالوں میں نمک لگانے کے انتظامات نہیں کئے گئے۔ دس سے بارہ گھنٹے تو کھال بغیر نمک لگائے خراب نہیں ہوتی۔ اس کے بعد خراب پڑ جاتی ہے۔ نمک لگانے کے بعد ایک ماہ تک خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے گزشتہ سال کراچی میں گائے کی کھال کے ریٹ 2500 سے لے کر درجہ بندی کے اعتبار سے 4000 روپے اور بکرے کی کھال کے ریٹ 400 سے لے کر 600 تک تھے جبکہ گائے کے اس سال نرخ2000 سے لے کر 1800 اور 1900 روپے فی کھال رہے اور بکرے کی کھال کے ریٹ 150 سے لے کر 225 روپے تک رہے جس کی وجہ سے فلاحی اداروں کی آمدنی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں خاصی کمی واقع ہوگی۔ کراچی میں سہراب گوٹھ کی مین مویشی منڈی میں تین لاکھ چالیس ہزار سے زائد گائیں فروخت ہوئیں اور ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد بکرے فروخت ہوئے۔ مین مویشی منڈی کے علاوہ کراچی میں ایک درجن سے زائد دیگر مقامات پر بھی مویشی منڈیاں لگی تھیں۔
