تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی ایک بار پھر حلیف بن گئیں
تجزیہ:- قدرت اللہ چودھری
سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا اسی لئے اس میں دوستیاں اور دشمنیاں بھی مستقل نہیں ہوتیں۔ کل کے دوست آج کے دشمن بن جاتے ہیں اور آج کے دوستوں کو دوبارہ دشمن بنتے ہوئے بھی دیر نہیں لگتی، پاکستان کی سیاست میں ہم نے ایسے کرشمے بارہا دیکھے اور آج تک دیکھ رہے ہیں، دوستیاں ، دشمنیوں میں اور دشمنیاں دوستیوں میں کسی اصول اور ضابطے کے تحت نہیں بدلتیں، بلکہ اس کا محرک عام طور پر سیاسی مفادات اور سیاسی مصلحتیں ہوتی ہیں، ماضی کی سیاست پر نگاہ واپسیں ڈالی جائے تو ہمیں ایسے بدلتے مناظر اکثر نظر آجائیں گے اور حال کی سیاست میں بھی کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے۔
2013ءکے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں کسی جماعت کو حکومت سازی کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہوئی تھی ۔ تحریک انصاف اس صوبے میں سب سے بڑی جماعت (سنگل لارجسٹ پارٹی) کی حیثیت سے ابھری، چنانچہ اس نے حکومت سازی کے لئے اسمبلی میں چھوٹی جماعتوں سے رجوع کیا۔ اس کی نگاہ انتخاب جماعت اسلامی اور آفتاب شیرپاﺅ کی قومی وطن پارٹی پر پڑی، چنانچہ دونوں جماعتوں کو شریک حکومت کر لیا گیا، وزیر اعلیٰ کا تعلق تحریک انصاف سے تھا تو سینئر وزیر سکندر شیرپاﺅ کو قومی وطن پارٹی سے بنایا گیا اس پارٹی سے دو دوسرے وزیر بھی بنائے گئے جن کے نام بخت بیدار اور ابرار حسین ہیں۔ لیکن سہولت کی یہ شادی زیادہ دیر نہ چل سکی اور بہت جلد طلاق پر منتج ہو گئی، نومبر میں قومی وطن پارٹی کے تینوں وزیر حکومت سے الگ ہو گئے، بخت بیدار اور ابرار حسین پر کرپشن کا الزام لگایا گیا، جس سے نہ صرف ان وزیروں نے انکار کیا، بلکہ ان کی جماعت یعنی قومی وطن پارٹی بھی ان کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑی ہو گئی اور تحریک انصاف کے ساتھ لفظی جنگ شروع ہو گئی، آفتاب شیر پاﺅ کا موقف تھا کہ اگر ان کی جماعت کے وزیرو ں نے کرپشن کی ہے تو یہ ثابت کی جائے یا پھر الزام واپس لیا جائے، تھوڑے عرصے کے لئے لفظوں کی یہ جنگ جاری رہی، نتیجہ کچھ نہ نکلا،نہ کوئی تحقیقات ہوئی، نہ الزام واپس ہوا، تحریک انصاف کی حکومت پرویز خٹک کی قیادت میں چلتی رہی اور قومی وطن پارٹی حکومت سے الگ ہوکر بیٹھ گئی، اب تقریباً دو سال کے بعد دونوں جماعتوں نے ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس میں طے کیا گیا ہے کہ قومی وطن پارٹی(دوبارہ) خیبر پختونخوا حکومت کا حصہ بنے گی۔ سکندر شیرپاﺅ(پہلے کی طرح) سنیٹر وزیر بنیں گے، دو وزیروں اور دو مشیروں کا تعلق بھی اس جماعت سے ہو گا دونوں جماعتوں کے نمائندو ں نے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے دستخط پرویز خٹک (وزیر اعلیٰ) اور جہانگیر ترین(جنرل سیکرٹری تحریک انصاف )نے کئے ہیں، جبکہ قومی وطن پارٹی کی طرف سے دستخط سکندر شیرپاﺅ اور انیسہ زیب طاہر خیلی نے کئے ہیں۔ دونوں جماعت کے نمائندوں کا اجلاس آفتاب شیرپاﺅ کے گھر پر ہوا۔ دو تین روز میں وزیروں کا اعلان ہو جائیگا اور وہ باقاعدہ شریک حکومت ہو جائیں گے۔
ابھی تک یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ وزیر اور مشیرکون کون لوگ ہوں گے لیکن اتنا تو معلوم ہی ہے کہ یہ جو بھی ہوں گے خیبر پختونخوا اسمبلی کے ارکان ہوں گے سکندر شیرپاﺅ کا معاملہ توحتمی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بخت بیدار کے بخت ایک بار پھر جاگ اٹھیں اور انہیں وزارت مل جائے، ابرار حسین کو بھی دوبارہ شریک حکومت قائم کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال جو بھی ہو گا معاہدے کے مطابق ہی ہو گا،
لیکن اس موقع پر بعض سوالات ایسے ہیں جن کا جواب مل جائے تو اچھا ہو گا پہلا سوال تو یہ ہے کہ تحریک انصاف نے قومی وطن پارٹی کے جن وزراءپر کرپشن کا الزام لگایا تھا کیا وہ واقعی کرپٹ تھے یا یہ صرف انہیں وزارت سے نکالنے کا ایک بہانہ تھا؟ اگر وہ کرپٹ تھے تو کیا اب انہوں نے کرپشن سے توبہ کر لی ہے یا پھر اپنی ماضی کی سرگرمیوں پر اظہار ندامت کر لیا ہے؟یا کرپشن کا راستہ چھوڑ کر پاک صاف ہو گئے ہیں؟ امکان تو یہی ہے کہ وزیروں پر کرپشن کا الزام محض ایک سیاسی بیان اور انہیں وزارت سے نکالنے کا ایک بہانہ ہو گا ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تحریک انصاف جس نے اپنے کرپٹ وزیر کو گرفتار کرا دیا دوسری جماعت کے کسی ایسے وزیر کو برداشت کرے جو کرپشن میں ملوث رہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں جماعتوں نے ماضی پر مٹی ڈال کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہو۔سیاست میں جو ”ناخوب“ ہوتا ہے وہ بتدریج ”خوب“ بھی ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے اس اصول نے دونوں جماعتوں کو دوبارہ قریب کر دیا ہو خوشی کی بات یہ ہے کہ دو جماعتیں ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب آ گئی ہیں۔ اس کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں کو ایک ایک دوسرے پر الزام تراشی سے گریز اور ایک دوسرے کو کرپٹ قرار دینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ کیا پتہ کب کسی سیاسی ضرورت کے تحت اسی کرپٹ سے ووبارہ ہاتھ ملانا پڑ جائے۔ سیاسی جماعتیں کوئی گیا وقت تو نہیں ہوتیں جو واپس نہ آ سکیں۔
