مہم جوئی یا بوکھلاہٹ
’’محبت فاتح عالم‘‘۔۔۔ علامہ اقبال کا قول حقیقت پر مبنی ہے۔ تاریخ کے اوراق اس امر کے شاہد ہیں کہ امن و آشتی ہی کا بالآخر بول بالا ہوتاہے۔ تلواروں اور بندوقوں کے زور پر اگر فتح حاصل کر بھی لی جائے تو یہ فتح محض عارضی ہے۔ ترقی صرف وہی اقوام کرتی ہیں جو امن و آشتی اور محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہندوستان پر جنگی جنون سوار ہے، جس کی بناء پر وہ کہیں نہتے کشمیریوں پر ظلم و ا ستبداد کا بازار گرم کئے ہوئے ہے تو کہیں وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے۔ مودی نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان کو تنہا کرنے کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ نریندر مودی نے اپنی سیاست چمکانے کے لئے پاکستان مخالف جذبات کا سہارا لیا ہے۔ ہندوستان میں ہندو انتہا پرست عناصر بھارتی حکومت کی شہہ پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی عروج پر ہے۔ 70روز سے زائد عرصہ گزر چکا کہ بھارتی سکیورٹی فورسز نے وادی کشمیر میں مسلسل کرفیو نافذ کیا ہوا ہے۔ سینکڑوں کشمیری شہید ہو چکے۔ اس کے باوجود بھارت کو یہ امر ناگوار گزرتا ہے کہ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کا ذکر بھی کیا جائے۔ گاہے بگاہے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ بھی کافی عرصے سے جاری ہے۔ نریندر مودی اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ میں بھارت کا کردار تھا۔
بھارتی حاضر سروس ایجنٹ کی پاکستان میں گرفتاری اور دیگر پیشتر شواہد اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ بھارت پاکستان میں پاکستان مخالف عناصر کی مالی معاونت کر رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی حکمران مودی حکومت کے ساتھ روزِ اول سے ہی دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ چند حلقوں کی جانب سے تنقید کے باوجودوزیراعظم پاکستان نے مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔ پٹھان کوٹ حملے میں بھی پاکستان نے بھر پور تعاون کیا۔ بھارت کا ردعمل ہمیشہ اس کے برعکس ہی رہا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں حالات کشیدہ ہو گئے اور بھارتی حکومت نے حریت پسندوں کو خاموش کروانے کے لئے بندوق کا سہارا لیا، جس کی پاکستان نے مذمت کی۔ اصل بھارتی چہرہ اس وقت بے نقاب ہوا جب وزیراعظم پاکستان اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے۔بھارت اس امر سے بخوبی واقف تھا کہ پاکستان کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرے گا اور کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار داوں پر عملد ر آمد کا مطالبہ کرے گا۔ رسوائی کے خوف سے بھارت نے کشمیر کی صورت حال سے عالمی توجہ ہٹانے کے لئے غیر سفارتی ہتھکنڈے اختیار کرنے شروع کر دےئے۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے جنرل اسمبلی کے خطاب سے ایک روز قبل ہی بھارت نے اُڑی حملے کا الزام پاکستان پر عائد کر دیااور مودی نے غیر سفارتی انداز میں پاکستان دھمکانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھنے کی ناکام کوششوں کے باوجود پاکستان کے وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کا مسئلہ بطریق احسن اٹھایا اور دنیا کی توجہ اس دیرینہ مسئلے کی طرف مبذول کروائی۔
اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے بھارتی چہرہ بے نقاب ہونے پر بھارتی حکومت بوکھلاہٹ کاشکار ہے۔ اپنے ایک خطاب میں نریندرمودی ایک جانب تو پاکستان کو للکارتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے پاکستان کو غربت کے خلاف لڑنے کی دعوت دیتے ہوئے پائے گئے۔ جنگی جنون سے سر شار مودی حکومت اب اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہے۔ اب بازگشت یہ ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی تنسیخ کی تجویز بارے غور کر رہا ہے۔ اس سے قبل بھی بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی ڈیم تعمیر کر چکا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ملکی معاملات کو سفارتکاری کے ذریعے حل کیا ہے۔ کشمیر جیسے معاملات کو بھی پاکستان نے جارحیت کی بجائے ہمیشہ مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ نواز حکومت تو خاص طور پر بھارت کے ساتھ تمام تنازعات کو مذ اکرات کے ذریعے حل کرنے کی خواہاں رہی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں بھی میاں نواز شریف نے بھارت کے ساتھ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کروانے کی کاوشیں کیں ۔۔۔لیکن بھارت،پاکستانی دشمنی میں اس قدر اندھا ہوچکا ہے کہ اس نے سارک اجلاس کے انعقاد کو خطرے میں ڈال دیاہے۔ جنوبی ایشیاکا خطہ قدرتی و سائل سے مالا مال ہے ۔ اگر ان وسائل کو احسن طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو یہ خطہ ترقی کہ منازل طے کر سکتا ہے، لیکن با ہم کشیدگی اس خطے کی خو شحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بھار ت اور پاکستان کے معاملات کو پُرامن طریقے سے سفارتی اصولوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، تاکہ ان دونوں ممالک کے غریب عوام کی زندگی میں بہتری آسکے۔