جرمن انتخابات:یورپی یونین کے لئے خطرے کی گھنٹی

جرمن انتخابات:یورپی یونین کے لئے خطرے کی گھنٹی
 جرمن انتخابات:یورپی یونین کے لئے خطرے کی گھنٹی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جرمنی کے انتخابات میں چانسلر مر کل چوتھی مرتبہ اپنے عہدے پر برقرار رہنے میں کامیاب تو ضرور ہوئیں، مگر اس مرتبہ مرکل کے سرسجی کامیابی کے اس تاج میں بہت سے کانٹے بھی موجود ہیں۔ مرکل کی ’’کرسچن ڈیمو کریٹ پارٹی‘‘ کے ووٹوں میں نمایاں طور پر کمی ہوئی، اسے 33 فیصد ووٹ حاصل ہوئے، یہ شرح 60سال میں اس جماعت کی کم ترین شرح ہے۔ اب مرکل کو اپنی حکومت کے لئے غیر آزمودہ اتحادیوں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا، تاہم جرمنی کے انتخابی نتائج نے یورپ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لئے دلچسپی کا سامان اس لئے پیدا کیا، کیونکہ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کی شکست کے بعد پہلی مرتبہ دائیں بازو کی ایک انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی، یعنی Alternative for Germany بھی 13فیصد ووٹ لے کر جرمن پا رلیمنٹ کا حصہ بنی۔ جرمنی معاشی اعتبار سے یورپی یونین کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے اس لئے اے ایف ڈی جیسی جماعت کا انتخابات میں 13فیصد حاصل کرلینا یورپی یونین کے مستقبل کے لئے خوشگوار پیغام نہیں ہے۔اس جماعت کو بنیادی طور پر جرمنی کی یونیورسٹیوں کے ایسے پرو فیسروں نے قائم کیا تھا جو یورپی یونین کے سخت مخالف تھے۔اس جماعت کے رہنما یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جرمنی کو دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے اپنے کردار پر معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے، بلکہ اپنے ان سپاہیوں پر فخر کرنا چاہیے، جنہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا۔ انتخابی مہم کے دوران اے ایف ڈی اپنے آپ کو ’’انٹی اسٹبلشمنٹ‘‘ پارٹی قرار دیتی رہی جس سے زیریں متوسط طبقات کے ووٹر بھی اس جماعت کی جانب راغب ہوئے۔


انتخابات کی حالیہ مہم میں اس جماعت کے امیدوار جرمنی میں موجود پنا ہ گزینوں کے خلاف سخت ریاستی کارروائی کی حمایت بھی کرتے رہے۔ انتخابی مہم میں اے ایف ڈی کے اس مطالبے میں اتنی شدت رہی کہ جرمنی کی بڑی جماعتوں’’کرسچن ڈیمو کریٹ‘‘ اور’’سوشل ڈیمو کریٹ پارٹی‘‘کو بھی جلسوں میں وعدے کرنے پڑے کہ اقتدار ملنے کی صورت میں پناہ گزینوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں گے۔ جرمن اور یورپی میڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق اے ایف ڈی نے جس جماعت کے سب سے زیادہ ووٹروں کو اپنی جانب راغب کیا، وہ مرکل کی ’’کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی‘‘ہی ہے۔ اس جماعت کے روایتی دس لاکھ ووٹروں نے اس مرتبہ اے ایف ڈی کو ووٹ دیا۔ ان انتخابات میں صرف کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی ہی نہیں، بلکہ سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے بھی 470,000 ووٹوں میں کمی ہوئی۔ ’’ سوشل ڈیمو کریٹ پارٹی‘‘ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد کبھی اتنی بدترین شکست کا سامنا نہیں کر نا پڑا، جبکہ بائیں بازو کی جماعت لیفٹ پارٹی کے 400,000ووٹ کم ہوئے۔ یوں جرمنی کے حالیہ انتخابات سے ثابت ہوا کہ جرمن ووٹر کی اکثریت جرمنی کی روایتی جماعتوں پر اپنا اعتماد کھو رہی ہے۔جرمنی میں روایتی طور پر دو سیاسی جماعتیں اور ان کے چھوٹے اتحادی ہی کامیابی حاصل کرتے تھے۔ جرمن سیاست، کرسچن ڈیمو کریٹ پارٹی اور سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے گرد ہی گھومتی تھی۔ 80 سے 90 فیصد ووٹ ان دونوں جماعتوں میں ہی تقسیم ہوتا تھا، مگر ان انتخابات میں ان دونوں جماعتوں نے 53فیصد ووٹ حاصل کئے۔


خود مغربی میڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے اب عام شہری آسانی سے فیض نہیں اٹھا پاتا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب بھی جرمنی میں معاشی حالات خراب ہوتے تو بائیں بازو کی جماعتیں اس موقع کا سیاسی فائدہ اٹھاتیں، مگر حالیہ انتخابات کے اعداد و شمار سے ثابت ہو رہا ہے کہ اب سماجی حالات سے مایوس ووٹر انتہا پسند جماعت کا رخ کر رہا ہے۔ مشرقی جرمنی میں جہاں پر بائیں بازو کی جماعت لیفٹ پارٹی کا سیاسی غلبہ رہا ہے، اس مرتبہ مشرقی جرمنی میں بھی 22فیصد ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے معاشی اور سماجی حالات میں آج بھی فرق نمایاں ہے۔ مشرقی جرمنی کے کئی علاقوں میں بے روزگاری اور غربت مغر بی جرمنی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اس موقع پر یہ تقابل کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ1930ء کی دہائی میں بھی جرمنی کے خراب معاشی حالات کا فائدہ بائیں بازو نے نہیں، بلکہ ہٹلر کی نازی پارٹی نے ہی اٹھایا تھا۔ جرمنی کے انتخابات کا اگر اسی سال مئی میں فرانس میں ہونے والے انتخا بات کے ساتھ تقابلی جائزہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ فرانس میں میکرون کے صدر بننے پر تجزیہ نگاروں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میکرون جیسے معتدل راہنما کی جیت سے ثابت ہو گیا کہ یورپ میں کسی قسم کی انتہا پسندانہ یا پاپولسٹ سیاست دم توڑ رہی ہے اور اب فرانس میں میکرون اور جرمنی میں مرکل مل کر یورپی یونین کو بحران سے باہر نکال لیں گے۔ یورپی یونین میں معاشی اور سیاسی اصلاحات کی جائیں گی، مگر اب جرمنی کے انتخابی نتائج سے ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ یورپی یونین ابھی بحرانی کیفیت میں ہی رہے گی۔ مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہونے پر مرکل کو ’’لبرل فری ڈیمو کریٹک پارٹی ‘‘اور’’ گرین پارٹی‘‘ کی حمایت درکار ہے۔


لبرل فری ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی کا یورپی یونین سمیت چانسلر مرکل سے کئی پالیسیوں پر سخت اختلاف ہے۔ اسی طرح اے ایف ڈی پارٹی کی اسمبلی میں موجودگی کے باعث مر کل کے لئے بہت زیادہ مشکل ہوگا کہ وہ یورپی یونین میں شامل کم معاشی حیثیت کے ممالک خاص طور پر یونان اور اسپین کو کسی بھی قسم کی رعایت دے سکیں۔ اگر جرمنی نے یورپی یونین کو برقرار رکھنے کے لئے ا پنا بھرپور معاشی کردار ادا نہ کیا تو یورپ کے کسی اور ملک میں اتنی سکت نہیں کہ وہ یورپی یونین کو اپنے دم پر سہارا دے سکے۔ جرمنی کی طرح یورپ کے کئی ممالک میں دائیں بازو کی انتہا پسند سیاسی جماعتوں کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ فرانس میں میکرون کی فتح کے باوجود نیشنل فرنٹ کی انتہا پسند لیڈر میرین لی پین نے فرانس کے انتخابات کے دوسرے راؤنڈ تک میکرون کا بھرپور مقابلہ کیا۔ آسٹریا میں انتہا پسند جماعت فریڈم پارٹی اقتدار میں شامل ہونے جا رہی ہے۔ہنگری کی انتہا پسند جماعت Movement for a Better Hungary ملک کی تیسری بڑی جماعت بن چکی ہے۔ یونان میں نازی ازم کی حامی Golden Dawn تیسری بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے، سویڈن اور ڈنمارک جیسے ممالک میں بھی نازی ازم کی اعلانیہ حمایت کرنے والی جماعتیں اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔ یہ تمام عوامل ظاہر کر رہے ہیں کہ یورپ میں معاشی اور سماجی بے چینی کا سیاسی فائدہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کو ہی ہو رہا ہے۔ یورپ کی روایتی بائیں بازو کی جماعتیں فکری طور پر با نجھ پن کا شکار ہوتی جارہی ہیں، اس لئے اس خلا کو اب دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں پورا کررہی ہیں۔گزشتہ دس، پندرہ سال سے جاری یہ رجحان اگر اسی طرح برقرار رہا تو عین ممکن ہے دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں یورپ کے بعض ممالک میں اقتدار بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور اگر یہ مفروضہ درست ثابت ہوا تو اس سے صرف یورپی یونین ہی نہیں،بلکہ عالمی سیاست پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

مزید :

کالم -