نوا نکور تے ٹکور
برادرم فواد چودھری کو تو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ باجی ڈر گئیں، باجی ڈرگئیں، ان کی پارلیمانی مجبوریاں ہیں۔ اپوزیشن کا تو کام ہی ’’آٹا گندھدیاں ہلدی کیوں ایں‘‘ والا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب فواد چودھری نے نام لئے بغیر ملکی دولت لوٹنے والے غنڈوں کو لعن طعن کی تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ گالیاں انہیں ہی پڑ رہی ہیں۔ چلیں فواد چودھری نے ماحول کو ٹھنڈا اور ایوان کو چلانے کیلئے معذرت کرلی، لیکن بھیا میرے آپ نے غلط تو نہیں کہا تھا، پھر معذرت کیسی۔ آج پاکستان مالی بحران کا شکار ہے، تو ان لٹیروں کی وجہ سے ہی تو ہے، جنہوں نے ملک کو غربت کے اندھیروں میں دھکیلا اور اپنے گھروں میں چراغاں کئے۔ اکاؤنٹس بنائے، محل چوبارے تعمیر کئے۔ فواد چودھری کو تو شاباش دینی بنتی ہے، جنہوں نے ڈری ڈری، سہمی سہمی حکومت کے گنگ ایوانوں میں کلمہ حق بلند کیا۔ کیا ملکی دولت لوٹنے والوں کے گلوں میں ہار ڈالے جائیں یا بھوکی مرتی عوام ان کے محلوں کے گرد گدا ڈالے، خوشی سے راک اینڈ رول کرے، رمبا سمبھا ناچے، ڈٹ جاؤ فواد چودھری ایوانوں میں نہ سہی ایوان کے باہر ہی کلمہ حق بلند کرتے رہو۔ ’’شوکر‘‘ نہیں چھوڑنی چاہئے ورنہ لوگ سانپ کو گنڈھویا سمجھ لیتے ہیں۔ سنتا سنگھ کرپان پکڑے کمرے میں ٹہل رہے تھے۔ بیگم بولیں کہاں جا رہے ہیں۔ سنتا بولا میں شیر کا شکار کرنے جا رہا ہوں۔ بیگم بولی تو جا کیوں نہیں رہے۔ سنتا سنگھ نے جواب دیا، گلی دی نکڑ تے اک کتا بیٹھا اے، اوہ مینوں وڈھ نہ لیوے۔ بھیا شیر کا شکر کرنا ہے تو گلی کے کتے سے ڈرنا بند کر دیں۔
لو جی اس کی کسر رہ گئی تھی، اب اسد عمر نے یہ بھی پوری کر دی۔ اسے کہتے ہیں ڈرے ہوئے کو دفعہ یرکانوے لگانا۔ بھائی میرے اگر معیشت کا بائی پاس جاری تھا، کم از کم بیس کروڑ مریضوں سے آپریشن سلپ پر دستخط ہی کرا لیتے، کم از کم وہ آپ سے اتنا پوچھ لیتے کہ حضور ضرور کریں بائی پاس، لیکن کسی اناڑی سرجن سے نہ کرائیں۔ اب تک آپ نے جتنی بھی ٹریٹمنٹ دی ہے، وہ ایک نیم حکیم والی ہے۔ دوائی کم دے رہے ہیں ’’چیرا‘‘ زیادہ لگا رہے تھے۔ آپریشن سے پہلے مریض کو پریشان دیکھ کر ڈاکٹر نے وجہ پوچھی، بولا سر یہ میری زندگی کا پہلا آپریشن ہے، ڈاکٹر بولا اس میں پریشانی والی کیا بات ہے، میرا بھی پہلا آپریشن ہے۔ سچ پوچھیں تو میں بس پریشان اس بات سے ہوں، ڈاکٹر نیا بھی ہے اور نکور بھی۔ اس نے غلط آپریشن کر دیا تو ٹکور بھی نہیں ہو پائے گی۔ ایک نیا نیا ڈاکٹر بولا آپ کا زخمی بچ سکتا تھا، اگر آپ اسے آدھ گھنٹہ پہلے لے آتے۔ لواحقین میں سے ایک روتے ہوئے بولا، پر ڈاکٹر اس کا ایکسیڈنٹ بیس منٹ ہی پہلے ہوا تھا۔
معیشت اور عوام کے ساتھ جو ہو رہا ہے، برا ہو رہا ہے اور لگتا یوں ہے کہ معیشت کا بیڑا غرق موٹر سائیکل سوار ریڑھی بان، پھیری والوں، کلرکوں، اساتذہ اور ورکر کلاس نے کیا ہے، ورنہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ لٹیروں کو کسی لحاظ کئے بغیر الٹا لٹکا کر ان کے حلقوم سے حرام کی کمائی نکال لی جاتی۔ افسوس نئے پاکستان میں معیشت مضبوط ہوسکی نہ انصاف اور قانون۔ بیٹا بولا اماں میں بڑا ہو کر پائیلٹ بنوں گا، ماں بولی پر مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ تم پائیلٹ بن گئے۔ بیٹا بولا اماں پہلا بم میں تیرے اوپر ہی گراؤں گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم پر کیسا بم گرتا ہے۔ پٹرول بم گرتا ہے یا بجلی بم
میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم باد صبا کہلاؤ تو کیا
وزیر اعظم صاحب بیس کروڑ عوام آپ کو ایک امید ایک آس کے ساتھ لائی ہے۔ اس میں آپ کے نظریاتی کارکنوں کی ان تھک محنت شامل ہے اس میں لاکھوں بے بسوں اور بے کسوں کی دعائیں شامل ہیں۔ یہ کون ہیں جو آپ سے ایسے پالیسیاں بنوا‘‘ رہے ہیں۔ آپ سے غلطی پر غلطیاں کرا رہے ہیں۔ جنہوں نے آپ کو اپنے دلوں میں بسایا ہے ان دلوں پر ایک بار پھر مایوسی کے اندھیرے بڑھ رہے ہیں، آپ کی پالیسیاں سمجھ اور چلا وہی سکتا ہے جو نظریاتی ہو پنجاب اسمبلی کے 80فیصد پی ٹی آئی ارکان الیکشن سے ایک سال پہلے تک دوسری جماعتوں میں بیٹھے آپ کے دھرنوں پر بھپتی کس رہے تھے۔ خدارا آپ نظریاتی ساتھیوں کو سامنے لائیں روزانہ جس طرح اس طاقتور طبقے نے بھٹو مرحوم کا حال کیا تھا آپ کو بھی اس انجام کی طرح لے جائیں گے۔ یہ عوام بہت معصوم ہے جو اسے گلی لگاتا ہے یہ اس کے ساتھ ٹر چلی جاتی ہے۔ یہ مخلوق نئے پاکستان کے خواب سے ابھی باہر نہیں نکلی اس کا خواب ٹوٹنے سے بچا لیں، سنتا سنگھ آئینے کے سامنے آنکھیں بند کر کے کھڑا تھا بلونت کور بولی کیا کر رہے ہیں۔ سنتا بولا دیکھ رہا ہوں ’’میں اکھاں بند کرکے کیسا دسناں‘‘ ہم کسے بھی سنتے اور بنتے سے کم نہیں ہماری آنکھیں بندی رہیں گی۔ لیکن ڈر صرف اس بات کا ہے کسی دن یہ آنکھیں کھل نہ جائیں۔ مجھے یقین ہے یہ آنکھیں ضرور کھلیں گی پھر ان آنکھوں سے آنسو نہیں خون بہے گا اور یہ خون ان محلوں، بنگلوں محفوظ عمارتوں بنک بیلنسوں ملکی وسائل سے چمٹے ناگ ناگنوں وحشی درندوں سب کو سرخ کر دے گا۔ پھر یہ خون سرخ و سپید چہروں اونچے شملے والوں سونے کی بنی حویلیوں میں ہیرے جواہرات کھانے والوں کسی کو نہیں بخشے گا۔ آپریشن کریں بائی پاس کریں لیکن خدارا اتنی جلدی عوامی خواہشات کو بائی پاس نہ کریں۔