حق نواز اختر……ایک مردِ آہن
وفاقی وزیر نے انہیں اپنے کمرے میں بلایا اور کچھ ناراض سے لہجے میں بولے:”اختر صاحب! اب تک تو یہی سنا تھا کہ کنٹریکٹر حضرات ڈائریکٹر فنانس کے پیچھے بھاگتے ہیں،لیکن آپ کے بارے میں سنا ہے کہ آپ خود کنٹریکٹر حضرات کے پیچھے بھاگتے ہیں؟“ ”آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے جناب!“ مخاطب نے بڑے تحمل سے جواب دیا ”مَیں کنٹریکٹرز کے پیچھے بھاگتا ہوں اور آئندہ بھی بھاگتا رہوں گا“خلافِ توقع جواب سن کر وفاقی وزیر ہکا بکا رہ گئے اور جھلا کر پوچھا ”وہ کیوں؟“ ”وہ اس لئے جناب کہ اگر ہمارے کنٹریکٹرز یہ کام نہیں سنبھالیں گے تو غیر ملکی کمپنیاں اربوں ڈالر زرمبادلہ کی شکل میں لے جائیں گی“ مخاطب نے اسی اعتماد سے وضاحت کی ”دوسرے مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے کنٹریکٹرز کے لئے بڑا کام سنبھالنے اور سیکھنے کا نادر موقع ہے،جو انہیں پھر کبھی میسر نہیں آئے گا۔ وہ یہاں سے کام سیکھ لیں گے تو ملک کے اندر بھی بڑے بڑے کام سنبھال سکیں گے اور ملک سے باہر بھی یہ تجربہ ان کے کام آئے گا اور وہ ہمارے لئے بھاری زرمبادلہ کما کر لا سکیں گے یہ سن کر وفاقی وزیر نے اطمینان کا سانس لیا اور ان کی ناراضی مسکراہٹ میں تبدیل ہو گئی ”تو پھر کنٹریکٹر کیا کہتے ہیں؟“ انہوں نے پوچھا؟ ”وہ کہتے ہیں ہم نے کبھی دو کروڑ سے اوپر کا کام نہیں کیا۔ بیس بیس کروڑ کا کام کیسے سنبھالیں گے؟ مَیں انہیں سمجھاتا ہوں کہ روسی ماہرین آپ کی مدد کے لئے موجود ہوں گے اور بلامعاوضہ آپ کو سکھائیں گے،آپ کی مدد کریں گے……“وفاقی وزیر نے اپنے مخاطب پاکستان سٹیل کے ڈائریکٹر فنانس حق نواز اختر کو شاباش دے کر رخصت کیا۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان سٹیل تعمیر کے ابتدائی مراحل میں تھا۔تاریخ گواہ ہے ہے کہ ملک میں بڑے بڑے کام سنبھالے،بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں بھی بڑے بڑے ٹھیکے حاصل کئے۔ ملک و قوم کی خدمت کے دیوانے اختر صاحب صرف کنٹریکٹرز کے پیچھے نہیں بھاگتے تھے، بلکہ جب پاکستان سٹیل نے پیداوار شروع کی تو اس کے چیئرمین کے طور پر وہ ملک میں فاؤنڈریز والوں کے پاس بھی گئے اور انہیں آمادہ کیا کہ وہ اپنی فاؤنڈریز میں توسیع کریں اور نئی فاؤنڈریاں لگا کر پاکستان سٹیل کی پیداوار سے فائدہ اٹھائیں۔ان کی مخلصانہ کوششوں سے پاکستان میں فاؤنڈریز کی صنعت نے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ لاہور کی ایک فاؤنڈری نے پاکستان سٹیل کی بلٹ سے تیار کردہ موٹر گاڑیوں کے پرزے امریکی کمپنی فورڈ کو برآمد کرنے شروع کر دیئے اور فاؤنڈریز اتنی پھیلیں کہ پاکستان سٹیل کا پگ آئرن(دیگی لوہا) بلیک ہونے لگا۔ اختر صاحب کے بس میں ہوتا تو ملک و قوم کے لئے کیا کچھ نہیں کر گزرتے۔
اس کا اندازہ محنت کشوں کے اس خواب سے ہوتا ہے جسے انہوں نے حقیقت میں ڈھال دیا۔انہوں نے گلشن حدید کے نام سے ایک وسیع و عریض بستی تعمیر کی، جس میں پاکستان سٹیل کے ملازمین کو آسان قسطوں پر تعمیر شدہ مکانات فراہم کئے گئے۔حق نواز اختر کو جو گزشتہ دِنوں خالق حقیقی سے جا ملے،خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یہ دو مثالیں دیگ میں سے دانے کے مصداق ہیں،جو رسمی بیانیہ سے ہٹ کر اس خیال سے پیش کی گئیں کہ انگریزی محاورے کے مطابق اعمال کی آواز الفاظ سے کہیں زیادہ بلند ہوتی ہے۔وہ بیورو کریسی کے محاذ پر تعینات زمانہ امان کے بہت بڑے جرنیل تھے، جن کے کارناموں کی تفصیل اگر بیان کرنے پر آئیں تو پوری کتاب کی ضرورت ہو گی۔
انگریزی میں ان کی اپنی کتاب بھی ”اِف دا ٹرتھ بی ٹولڈ“ (اگر سچ کہا جائے تو) ایک ایسا ہی کارنامہ ہے،جس میں انہوں نے قدو قامت رکھنے والی کئی شخصیتوں کو بے نقاب کیا ہے۔زندگی کے آخری دِنوں میں ان کے لئے سب سے بڑا صدمہ پاکستان سٹیل کا بند ہو جانا تھا۔یہ وہ پودا تھا جو انہوں نے اپنے خون سے سینچا تھا۔ وہ اسے دوبارہ چلانے کے لئے آخری دم تک مقدور بھر کوشش کرتے رہے۔انہوں نے اس سے قبل بھی ایک دفعہ پاکستان سٹیل کو اس وقت بند ہونے سے بچایا تھا جب غلام اسحاق خان جن کے پاس خزانے کی کنجی تھی فولاد درآمد کرنے والی لابی کے اس پروپیگنڈے کے زیر اثر آ گئے تھے کہ پاکستان سٹیل سفید ہاتھی ہے اسے بند کر دینا چاہئے،لیکن اس وقت اختر صاحب اپنے سینئر معروف بیورو کریٹ ایچ یو بیگ کی مدد سے غلام اسحاق خان کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ پاکستان سٹیل دراصل دودھ دینے والی گائے ہے،جس پر انجینئرنگ کی صنعت پلتی ہے اور ملک کو معاشی طور پر مضبوط بناتی ہے۔ اختر صاحب نے پاکستان سٹیل کو بند ہونے سے تو بچا لیا تھا،لیکن درآمدی لابی سے کشمکش میں یہ نقصان ہوا کہ تکمیل کے دو تین سال بعد 1986-87ء میں تعمیر و تنصیب کا دوسرا مرحلہ جس کے ذریعے پاکستان سٹیل کی پیداوار میں تین گنا اضافے کے بعد اسے نفع بخش بنانا تھا، کھٹائی میں پڑ گیا،
جس کی وجہ سے پاکستان سٹیل کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اختر صاحب نے اپنے طور پر زرمبادلہ کا ایک ایک ڈالر بچانے کی کوشش کی تھی اور اسے ریکارڈ مدت میں مکمل کر کے چلا دیا تھا۔1985ء میں جب ڈالر 15 روپے کا تھا پاکستان سٹیل کی تعمیر و تنصیب پر25ارب روپے لاگت آئی تھی،یعنی ایک اعشاریہ چھ بلین ڈالر، جبکہ پاکستان اسٹیل کے بند ہونے کے بعد صورتِ حال یہ ہے کہ فولاد کی درآمد پر سالانہ دو ارب ڈالر خرچ ہو رہے ہیں،یعنی پاکستان سٹیل پر لاگت سے کہیں زیادہ۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان سٹیل کا قیام ایک سیاسی فیصلہ تھا، جو ایٹمی پلانٹ سے قبل اسی کی طرح نفع نقصان سے بالاتر ہو کر دفاعی ضروریات کے لئے فولاد کی پیداوار میں خود کفالت حاصل کرنے اور انجینئرنگ کی صنعت کی ترقی کو بنیاد فراہم کرنے کے لئے کیا گیا تھا تاکہ حقیقی معاشی ترقی ممکن ہو،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی ترجیحات ملک کو کسی اور سمت لے گئیں، جن کے نتائج سامنے ہیں۔
حق نواز اختر نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول سرگودھا سے حاصل کی۔ سول سروس میں وہ 1954ء میں شامل ہوئے اور 1990ء میں بطور وفاقی سیکرٹری ریٹائر ہونے سے قبل کسٹمز کے سربراہ سمیت کئی کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی زندگی ایک عام سے فلیٹ میں گزاری، جو کسی بھی دیانتدار سی ایس پی افسر کے حصے میں آ سکتا ہے۔سرکاری افسر کے طور پر وہ کروڑوں میں کھیلے،لیکن ہمیشہ عجز و فقر کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا۔اس عاجزی اور فقیری نے ہی انہیں وہ دلیری عطا کی، جس کے بل پر وہ استعفیٰ جیب میں رکھ کر کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنے ضمیر کے مطابق فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ انہوں نے بیورو کریسی کے وسیع حلقے میں اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا یوں منوایا کہ ان کے وضع کردہ مینجمنٹ کے پانچ اصول اعلیٰ سرکاری افسروں کی ”نیپا“ جیسی تربیت گاہوں میں ایک عرصے تک پڑھائے جاتے رہے۔ان میں سے ایک اصول یہ بھی تھا کہ کریڈٹ ہمیشہ ان کو ملتا ہے،جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔انہیں اس کا کوئی ملال بھی نہیں تھا اور وہ بار بار اپنا یہ مقولہ دہرایا کرتے تھے کہ ان کے حصے میں محنت اور قربانی ہی آئے گی۔