اندرون ملک بھی اقدامات کی ضرورت
آسمان رنگ بدلے نہ بدلے، ہمارا ہمسایہ عالمی افق پر نیا چاند چڑھانے کی تگ و دو میں ضرور ہے اور قدم بہ قدم اس کی پیش قدمی امن پسندوں کو پریشان کئے دے رہی ہے۔ داخلی محاذ پر فاتحانہ آغاز کے بعد عالمی سطح پر بھی ہاتھ جوڑتے جھپیاں ڈالتے، اعزازات اور دوستیاں سمیٹتے سمیٹتے وہ اپنی ظالمانہ کارروائیوں کی پذیرائی کے لئے دنیا کے سب سے بڑے ادارے اور سب سے طاقتور ملک میں رائے عامہ ہموار کرنے کی مہم پر ہے۔ اس کے مقابلے میں مظلوم و مقہور کشمیری قوم اور مسلمانانِ ہند کی آہ و فغان ابھی تک صدالصبحرا ہے۔ مقبوضہ وادی میں کرفیو اور جبر و استبداد کی نئی لہر کو نصف سنچری سے زائد دن ہو چکے ہیں۔ رابطوں کے تمام جدید ذرائع بند پڑے ہیں۔مودی حکومت کشمیریوں کو مارتی بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتی۔ یہ حکومت مسلمانانِ ہندو کشمیر کے لئے عذاب بنتی جا رہی ہے اور اسی پالیسی کو وہ اپنی سیاسی کامیابیوں کی کلید سمجھتی ہے۔ اقلیتوں کے خلاف جابرانہ پالیسی کے نتیجے میں وہ ہندو اکثریت میں مقبول ہوئی ہے اور ہیوسٹن کے جلسے میں بڑے فخر سے مودی نے جو یہ کہا ہے کہ بھارتی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ان کی پارٹی نے اقتدار میں پانچ سال مکمل کرنے کے باوجود نئے انتخابات میں پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کی ہے، اس کی وجہ اقلیتوں کے خلاف پھیلائی نفرت سے جنم لینے والا ہندو تعصب ہے،
جس نے بھارت کے سیکولر اور لبرل ہونے کے دعوؤں کو تہس نہس کر دیا ہے۔ اس کے باوجود اگر عرب مسلمان ملک انہیں ایوارڈز سے نواز رہے ہیں اور امریکہ جیسے لبرل ملک میں بھی پذیرائی مل رہی ہے تو ہمارے پالیسی سازو ں کو اس پر غور کرکے کوئی توڑ نکالنا چاہیے۔ہیوسٹن (ٹیکساس) کے سٹیڈیم میں بھرپور جلسے میں مودی کے جارحانہ موڈ اور صدر ٹرمپ کی فدویانہ حاضری نے کئی حساس دل پاکستانیوں کی نیند اڑا دی۔ جولائی میں عمران خان کی موجودگی میں مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرنے والے ٹرمپ سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ منصف کی بجائے فریق بن جائیں۔ یہ بات خود ٹرمپ نے بھی سوچی ہو گی۔ اس کے باوجود وہ ہیوسٹن میں بھارتی وزیراعظم کے جلسے میں گئے تو اس کی وجہ امریکی سیاست بھی ہو سکتی ہے۔ آئندہ سال نومبر میں صدارتی انتخابات ہیں اور ٹرمپ دوبارہ صدر بننے کے لئے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ٹیکساس تیل کے ذخائر سے مالامال ریاست ہے جس میں ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کو گزشتہ انتخابت میں کامیابی نہیں ملی تھی۔
یہاں بھارتی نژاد امریکیوں کی اچھی خاصی تعداد رہتی ہے۔ ٹرمپ آئندہ انتخابات میں یہ ووٹ حاصل کر کے پوزیشن بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں بتایا گیا ہو گا کہ متذکرہ جلسے میں شرکت کے لئے تقریباً سوا لاکھ بھارتی امریکیوں نے رجسٹریشن کرائی تھی، مگر جگہ کم ہونے کی وجہ سے پچاس ہزار کے لگ بھگ لوگوں کو ہی داخلہ مل سکا۔یہ اتفاق ہی ہے کہ اس وقت بھارت میں بھی نسل پرست انتہا پسند سوچ رکھنے والوں کی حکومت ہے اور امریکہ میں نسل پرست انتہا پسند حکمران ہے۔ دونوں کا ”قرورہ“ ملتا ہے۔ مودی اور ٹرمپ دونوں کا معاملہ نسل پرستانہ سیاست ہے۔ دونوں کے نزدیک یہ سیاسی کامیابی کا راستہ ہے۔ مودی نے حالیہ انتخابات میں واضح کامیابی جس انتخابی منشور پر حاصل کی وہ ہندو نسل پرستی کا منشور تھا،جس میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کو بھارت میں ضم کرنے کا وعدہ شامل تھا۔
5اگست کو آئین کی شق 370ختم کرنے کی تائید بھارتی ایوانِ زیریں لوک سبھا اور ایوانِ بالا راجیہ سبھا دونوں نے دو تہائی اکثریت س یکی۔ اسی طرح ہیوسٹن کے جلسہ کے شرکاء نے پُرجوش انداز میں مودی کے موقف کی تائید کی۔ ہجوم میں بھارتی مسلمانوں کی بھی موجودگی ان کے لباسوں سے نظر آ رہی تھی۔بوہری فرقے کے لوگ اپنے مخصوص لباس پہنے ایک گوشے میں اکٹھے بیٹھے تھے۔اِکا دُکا سکھ بھی موجود تھے، جس طرح پاکستان میں ”کشمیر بنے گا پاکستان“ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے اور کوئی اس کی مخالفت کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اسی طرح بھارت میں کشمیر کا مکمل انضمام بھارتیوں کی خواہش ہے۔ قبضہ بھی بھارت کا ہے۔ کشمیریوں کے احتجاج کے باوجود بھارتی رائے عامہ اس اقدام کی حامی ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کی طرف سے موجودہ صورت حال کے خلاف قرارداد پیش کرنے میں ناکامی کی تحقیقات تو ہونی چاہئے،مگر اس سے جو سبکی ہماری ہوئی ہے اس سے شہ پا کر لگتا ہے کہ مودی سرکار اپنی پالیسیوں کو مزید آگے بڑھائے گی۔لگتا ہے کہ ہندوتوا کے علمبردار انتہا پسند بھارتی حکمران مقبوضہ کشمیر میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ریاستی اسمبلی کا الیکشن کرانے کو یقینی بنائیں گے۔ پہلے انتخابات کا بائیکاٹ حریت کانفرنس کرتی تھی اب ہو سکتا ہے بھارت نواز سابق ریاستی حکمران جماعتیں بھی بائیکاٹ کا اعلان کر دیں،مگر ہمارا خدشہ اور بھارتی لابی کی کوشش یہ ہے کہ حسب سابق بھارتی حکمرانوں کو مقبوضہ ریاست میں موقع پرست دستیاب ہو جائیں اور قابض فوج کے کڑے پہرے میں انتخابات کا ڈرامہ رچا کر کٹھ پتلی اسمبلی وجود میں لائی جائے اور اس اسمبلی سے بھی370 کے خاتمے کی منظوری لے کر اتمام حجت کر لی جائے۔
ہو سکتا ہے کہ بھارتی سرکار اس طرح ملکی اور عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو جائے اور اپنے تئیں مسئلہ کشمیر حل ہونے کا یقین بھی کر لیے،لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح مسئلہ واقعی حل ہو جائے گا؟ تاریخ کا سبق تو یہی ہے کہ نہیں اس طرح کے مسائل اس طرح حل نہیں ہوتے۔ تلواروں کی چھاؤں میں اور سینگوں کی نوک پر قوموں کے جذبہ آزادی کو تادیر دبایا نہیں جا سکتا۔جبرکے ذریعے، کٹھ پتلی اسمبلی سے تائید لی گئی تو اصل فلم تب شروع ہو گی۔ چھاپہ مار سرگرمیوں (گوریلا وار) کے لئے یوں بھی پہاڑی علاقے بہت کارآمد ہوتے ہیں۔اس معاملے کو انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر دُنیا کے سامنے زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان محتاط رہے اور کسی قیمت پر مقبوضہ کشمیر کی عوامی جدوجہد میں اپنی مداخلت کا تاثر ابھرنے نہ دے۔ اسی وجہ سے وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کے کنٹرول لائن عبور کرنے کے عوامی مطالبے کے جواب میں سختی سے منع کیا اور ایسے کسی اقدام کو ملک دشمنی کے مترادف قرار دیا۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخاب یا قرارداد منظور کرانے سے قبل بھارت، کسی خود ساختہ بہانے سے کنٹرول لائن عبور کر کے باقاعدہ فوجی کارروائی کر کے آزاد کشمیر کا کچھ حصہ ہتھیانے کی کوشش کرے۔ اس ضمن میں بھارتی وزراء کئی بار دھمکیاں بھی دے چکے ہیں۔اس کے لئے پاکستانی حکومت، عوام اور مسلح افواج کو تیاری مکمل رکھنی ہو گی۔وزیراعظم کے امریکہ میں خیالات قومی جذبات کے آئینہ دار ہیں۔ جنرل اسمبلی کا اخطاب بھی موثر اور جاندار تھا۔تاہم ایک چیز ایسے ملکی بحرانوں میں ضروری سمجھی جاتی ہے اور وہ ہے قومی ہم آہنگی۔اس میں جو کردار حکمرانوں کا ہونا چاہئے اس کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔زیر عتاب سیاست دانوں کو بھی اعتماد میں لے کر ساتھ چلا لیں تو یہ مزید کامیابی ہوگی۔کیا قوم عمران سرکار سے یہ توقع رکھے کہ وہ وطن واپسی پر ”آل پارٹیز کشمیر کانفرنس“ کا اعلان کر دیں گے اور سبھی جماعتوں کی قیادت کو باقاعدہ مدعو بھی کریں اور منا کر آمادہ بھی کریں۔یہ اصلی تے وڈی قومی خدمت ہو گی۔ ورنہ ٹرمپ تو اِدھر بھی ”پُچ پُچ“ کرتے رہیں گے اور اُدھر بھی جپھیاں ڈالتے رہیں گے۔
جناب ”ٹرمپ“ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی