عمران خان کی دفاعی شیلڈ
ان دنوں ایک بار پھر سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تبدیلی کی افواہیں زوروں پر ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہہ دیا ہے کہ وہ جب تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے اس وقت تک وزیراعلیٰ پنجاب کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔عثمان بزدار کا راستہ کاٹنے کی کوشش میں علیم خان اور سبطین خان جیسے وزراء نیب یاترا کرآئے ہیں۔اس کے باوجود پارٹی کے اندر کئی حلقے ایسے ہیں کہ ا نہیں صبر نہیں آ رہا۔وہ سوچتے ہیں کہ اگر ایک عام ایم پی اے جسے تحریک انصاف میں آئے جمعہ،جمعہ آٹھ دن بھی نہیں گزرے تھے وزیراعلیٰ بن سکتا ہے تو آخر ان میں کیا کمی ہے؟یہ سچ ہے کہ عثمان بزدار کی سب سے بڑی سفارش بنی گالہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو روحانی حوالوں سے بتا دیا گیا ہے کہ جب تک عثمان بزدار پنجاب میں برسر اقتدار رہیں گے تب تک ہی آپ کی کرسی بھی محفوظ رہے گی۔عمران اور عثمان ایک دوسر ے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔سیاسی حوالے سے دیکھیں تو ملک کا سب سے بڑا صوبہ براہِ راست اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے عمران خان کو بزدار سے بہتر بندہ مل ہی نہیں سکتا۔
پھر سب سے اہم اتحادی ق لیگ کو لے لیں وہ ہر صورت یہی چاہیں گے کہ اگر خود چودھری خاندان میں سے کسی کو موقع نہیں ملتا تو پھر عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ رہنے میں ہی فائد ہ ہے۔اسی طرح سرکاری افسروں اور اقتدار کے دیگر تمام غیر سیاسی سٹیک ہولڈروں کو بھی عثمان بزدار ہی سوٹ کرتے ہیں اور تو اور مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور دیگراپوزیشن جماعتوں کو بھی ان کی شخصیت کے حوالے سے کو ئی پریشانی نہیں۔صوبے میں انتظا می اور ترقیاتی امور خواہ ٹھپ ہی ہو جائیں۔فی الوقت کسی کو اس سے زیادہ دلچسپی نہیں۔اپوزیشن کے لوگ کہتے ہیں کہ ا گر عثمان بزدار سے صوبہ نہیں سنبھل رہا تو عمران خان نے کون سا وفاق سنبھال لیا ہے؟ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کو ”فارغ“ حکمران تصور کیا جاتا ہے۔ان کی تو بنی گالہ تک ڈائریکٹ رسائی بھی نہیں۔اس مقصد کے لئے پہلے مراد سعید سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔بلوچستان میں سیاسی وفاداریاں بدلنے کے لئے مشہور،جام خاندان کے جام کمال کی کارکردگی بھی خاصی ناقص ہے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ پر فارمنس دکھانے کی کوشش تو کر رہے ہیں، لیکن اس سیٹ اَپ کے قیام کے فوری بعد سے انہیں چومکھی لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے۔ہمیشہ بلیک میلنگ پر تلی ایم کیوایم کے ساتھ اب کراچی میں پروان چڑھائی جانے والی پی ٹی آئی کے تند خو ارکان جو بار بار وفاقی حکومت کا نام لے کر کارروائی کی دھمکیاں دیتے ہیں،وزیراعلیٰ سندھ کے لئے مستقل سردرد بنے ہوئے ہیں۔اب تو مراد علی شاہ کو نیب کی مہمانداری کا انتظار ہے۔ ایسے میں اگر عثمان بزدار کچھ خاص نہیں کر پا رہے تو انہیں ہی آخر تنقید کا سب سے زیادہ نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ان کے پاس اختیارات ہی کتنے ہیں۔ اختیارات سے یاد آیا چودھری سرور مسلم لیگ (ن) کے دور میں گورنر پنجاب بنے تو اکثر اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے رہتے تھے۔ 2014ء کے دھرنوں کے بعد ان کے متعلق کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئیں تو فارغ کر دیا گیا۔اس کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔
شاید وہ متحرک اور بااختیار وزیراعلیٰ بننے کا سوچ رہے تھے،لیکن قسمت نے یاوری نہیں کی۔ایک بار پھر سے گورنر بنا دیئے گئے اور اختیارات کے حوالے سے ہاتھ شاید پچھلے دور سے بھی تنگ ہے۔اب زیادہ بول بھی نہیں سکتے۔سردار عثمان بزدارکا وزیراعلیٰ رہنا گورنر سرور کے لئے بھی پلس پوائنٹ ہے۔کچھ اور نہیں اتنا تو ہے کہ وزیراعلیٰ ملاقات کے لئے خود چل کر گورنر ہاؤس آ جاتے ہیں۔عثمان بزدار کے خلاف تازہ ترین مہم کے سرخیل ”محرر اینکر اور تجزیہ کار“ ہیں۔یہ سب لوگ وٹس ایپ اورپرچیاں لے کر دکانداری چلاتے ہیں،کیا عثمان بزدار کو ہٹانے کی مہم واقعی سنجیدہ کارروائی ہے یا کوئی کیموفلاج ہے۔ ان کی وزارتِ اعلیٰ کے آغاز میں جب یہ بل لایا گیا کہ اس وزیراعلیٰ کو لاہور میں رہائش کے لئے ذاتی مکان ملے گا جو دو سال تک برسراقتدار رہا ہو۔کہا جاتا ہے کہ اسے دیکھ کر عثمان بزدار نے کہا تھا کہ مدت کم کر کے چھ ماہ کردی جائے،
یہ الگ بات ہے کہ میڈیا اور اپوزیشن کے زبردست شور شرابے کے بعد یہ بل ہی واپس ہو گیا۔ حکومت پنجاب کے سربراہ پر اپنے ہی اینکروں اور تجزیہ کاروں کی بے رحمانہ تنقید سے لگتا ہے کہ کوئی ہے جو چاہتا ہے کہ پنجاب کی حد تک تمام خرابیوں کا ذمہ دار بزدار کو ٹہرا کر عوام اور میڈیا کی توجہ اسی جانب مبذول رکھی جائے۔واقفانِ حال کو خوب پتہ ہے کہ مقتدر حلقے وزیر اعظم عمران خان کی امیج بلڈنگ کیلئے ہر حد تک جانے پر تیار رہتے ہیں۔عمران خان کے متعلق مثبت کہنے اور لکھنے کے مشورے تسلسل سے دیئے جاتے ہیں۔اگر کچھ خلاف چل جائے یا شائع ہو جائے تو میڈیا نمائندگان اور ادارے زیر عتاب آ جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے بہت سے لوگ اب یہ تسلیم کرنے سے نہیں ہچکچا تے کہ عمران حکومت ڈلیور کرنے میں ناکام ہو چکی،آگے بھی کوئی امید نہیں۔اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ وفاقی سطح پر عمران خان اور ان کی حکومت کی ناکامی سیدھا ہمارے کھاتے میں پڑے گی کئی سال کی منصوبہ بندی کے بعد جو سیٹ اَپ سامنے لایاگیا اسے الٹا کر پرانی سیاسی جماعتوں کو پھر سے فوری طور پر موقع دینا شکست کی بہت بڑی علامت ہو گی، اپوزیشن اگرچہ جیلوں میں پڑی ہے،جو باہر ہیں انہیں نیب اور عدالتوں کا سامنا ہے۔
اس کے باوجود پریشر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے ماضی گواہ ہے کہ اصل حکمران طبقات کے پیٹ بھرتے رہیں اور محفلیں سجتی رہیں تو عوام ان کی طرف سے چاہے بھاڑ میں جائیں۔کچھ لینا دینا نہیں ہوتا،لیکن جب وہ خود کسی خرابی کی زد میں آ جائیں تو پھر یو ٹرن لینے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔یہ سچ ہے کہ ا سٹیبلشمنٹ کی سطح پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی سے مذاکرات ہو رہے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں،لیکن بات نہیں بن پا رہی۔پچھلے دِنوں مسلم لیگ(ن) سے مذاکرات اور پھر پیشگوئیوں کا تذکرہ میڈیا کی زینت بنا تو عثمان بزدار کے خلاف خود انہی کی پارٹی کے اینکروں نے ”فائر“ کھول دیئے۔ کرپشن کے الزامات لگائے گئے،جو اس ملک میں سب سے آسان کام ہے۔یہ سچ ہے کہ کرپشن پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی اور اوپر سے نیچے تک کھلے عام جاری ہے۔ خود عمران خان کے بارے میں بھی دیانتداری کا ڈنکا اسٹیبلشمنٹ نے بھی فتھ جنریشن وار پیٹرن کے تحت بجایا ورنہ اعلیٰ ترین عدلیہ تک ہر جج جانتا ہے کہ عمران خان آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر کتنا پورا اترتے ہیں اور رکن اسمبلی بننے کے بھی اہل ہیں یا نہیں۔
ساری عمر ان کے مشاغل اور ہر طرح کے اخراجات کا بوجھ اٹھانے والے اب حکومت میں مزے لوٹ رہے ہیں۔عارف علوی، زلفی بخاری، صاحبزادہ چیکو، ذوالقرنین خان،جہانگیر ترین، انیل مسرت،اور بے شمار دیگر کیا پاکستان میں فلاحی کام کرتے ہیں؟ خود عمران خان کی ہمشیرہ کی بیرون ملک اربوں کی جائیداد بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان سب کی نشاندہی گھر کے ایک بھیدی اکبر ایس بابر نے بہت پہلے ہی کر دی تھی، لیکن چونکہ اس پر فی الحال کوئی کارروائی اسٹیبلشمنٹ کو منظور نہیں اِس لئے یہ سب اور پوری وفاقی کابینہ اور پی ٹی آئی کے ارکان اور رہنما صادق اور امین ہیں اب واپس آتے ہیں بے قصور عثمان بزدار کی طرف انہیں نشانہ اس لئے بنایا جا رہا کہ اگر سیاسی درجہ حرارت ایک حد سے زیادہ ہو گیا تو ان کی قربانی دے کر عمران خان کو محفوظ رکھا جائے گا اس لئے مخصوص اینکروں اور تجزیہ کاروں کو ان پر چھوڑاگیا تاکہ پروپیگنڈا کی فضا میں عثمان بزدار کے اصل سرپرست عمران خان اور ان کے سیاسی مخالفوں کو بیک وقت پیغام مل جائے کہ اس معاملے پر ڈیل ہو سکتی ہے یہ تجزیہ نہیں اطلاع ہے کہ مسلم لیگ(ن) سے پہلے کہا گیا تھا کہ چودھری نثار کو وزیراعلیٰ بنانے پر رضا مندی کی صورت میں انہیں ریلیف مل سکتا ہے اور صوبائی کابینہ میں معقو ل حصہ بھی، مسلم لیگ (ن) میں سے کسی نے اس پیشکش پر کان نہیں دھرے پھر اوپر والوں نے ڈائریکٹ آفر بھی د ے دی،جس کی جزئیات تفصیلات لکھنا ضرو ری نہیں۔
صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ نواز شریف نے یہ تجویز بھی مسترد کر دی، حالانکہ شہباز شریف ہی نہیں خواجہ آصف اور ایاز صادق جیسے ہارڈ لائنر(سخت مؤقف رکھنے والے) بھی اس پر تیار ہو کر اسے اچھا پیکیج قرار دے رہے تھے اب سب اپنی پرانی تنخواہ پر واپس آ گئے ہیں عثمان بزدار کو عمران خان کی دفاعی شیلڈ کے طور پر استعما ل کیا جا رہا ہے اپوزیشن سے سودے بازی کی صورت میں ان کی قربانی بھی دی جا سکتی ہے فی الحال حالات سنبھلنے کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں لگتا یہی ہے کہ ڈیل کرنا مجبوری بن جائے گا اور انہی کی شرائط کو فوقیت دینا ہو گی،جہاں تک اسمبلیوں میں نمبر گیم کا معاملہ ہے تمام کوششوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو توڑا نہیں جا سکا،پی ٹی آئی کے متعلق اتنا ہی عرض ہے کہ پارٹی جن کی ملکیت ہے وہ خود ہی ہینڈل کر لیں گے ورنہ فیصلے آنے میں کون سی دیر لگتی ہے۔