اپنا کیس اللہ کی عدالت پر چھوڑتا ہوں، شہباز شریف کا 14جسمانی ریمانڈ منظور
لاہور(نامہ نگار)احتساب عدالت کے جج جوادالحسن نے منی لانڈرنگ اور آمدنی سے زائد اثاثہ جات کیس میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو 14روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا،عدالت نے شہباز شریف کو 13 اکتوبر کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیاہے،عدالت نے میاں شہباز کی جانب سے پیش کی گئی اپنی کارکردگی رپورٹ پر تفتیشی افسر کو شہباز شریف کا موقف قلمبند کرنے کا حکم بھی دیاہے۔گزشتہ روز میاں شہباز شریف کو عدالت عالیہ سے ضمانت مسترد ہونے پر گرفتارکرنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے جسمانی ریمانڈ کی استدعاکرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کو متعدد سوالنامے دیئے، شہباز شریف نے اپنے جواب میں تسلیم کیا کہ انکے بچے ان کے زیر کفالت ہیں۔ شہباز شریف کو گرفتاری کے بعد سوال پوچھے گئے مگر انہوں سے جواب دینے سے انکار کیا۔شہباز شریف کی آمدن کی پہلی ڈیکلیریشن 20 لاکھ روپے تھی۔ شہباز شریف کے خلاف سٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے شکایت موصول ہونے پر انکوائری شروع کی۔ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں نے 2008 سے 2018 تک 9 کاروباری یونٹس قائم کیے، 1990 میں شہباز شریف کے اثاثوں کی مالیت 21 لاکھ تھی، 1998 میں ان کے اور ان کی اولاد کے اثاثوں کی مالیت ایک کروڑ 8 لاکھ ہوگئی۔ 2018 میں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی مالیت بینامی کھاتے داروں، فرنٹ مین کی وجہ سے 6 ارب کے قریب پہنچ گئی۔ شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ نے کرپشن کرکے اس وقت 7 ارب سے زائد کے اثاثے بنا لیے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ منی لانڈرنگ کیس میں لاہور ہائی کورٹ حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت مسترد کر چکا ہے۔شہباز شریف تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کا ملک سے فرار ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز اشتہاری قرار دئیے جا چکے ہیں۔شہباز شریف اور دیگر اہل خانہ کے خلاف نیب منی لانڈرنگ کیس میں تمام قانونی تقاضے پورے کر رہا ہے۔ شہباز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں نے 9 انڈسٹریل یونٹس سے 10برسوں میں اربوں کے اثاثے بنائے۔ملزم شہباز شریف سے تفتیش کی غرض سے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔دوران سماعت میاں شہباز شریف نے کہا کہ میں نے کوئی قانونی دلائل پیش نہیں کئے،عدالت نے جو ریمانڈ دینا ہے دے دیجئے،میرے وکلاء پیش نہیں ہو رہے، انصاف کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں،نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے، مرحوم والد کے زمانے میں صنعتی ادارے تقسیم ہوئے،غریب الوطنی میں ہمارے اثاثے تقسیم ہوئے،وراثت میں ملنے والے تمام اثاثے بچوں کو منتقل کر دیئے تھے،میرا ان صنعتی اداروں سے کوئی تعلق نہیں،میں نے ساری تفصیلات ہائیکورٹ میں پیش کی تھیں۔الزام یہ ہے کہ میرے وزیراعلی پنجاب بننے کے بعد بچوں کے اثاثے بڑھے ہیں۔ میں نے کہا کہ میری وجہ سے اثاثے بڑھے تو پھر گنے کی قیمت سندھ کے برابر نہیں کی تھی، میں نے کاشتکار کو نقصان نہیں پہنچایا۔ خاندان کے افراد کو سرکاری پیسے سے رقم دینا غلط ہے کیونکہ یہ عوام کا حق ہے۔ 2017ء میں حکومت پنجاب نے چینی ایکسپورٹ کیلئے 15 روپے فی کلو کے حساب سے سبسڈی دینے کا کہا، میں نے ستمبر 2017ء کو فیصلہ دیا کہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھجوایا جائے۔ پنجاب کے خزانے سے 15 روپے سبسڈی نہیں دی جائے گی، سندھ حکومت نے 10 روپے کی سبسڈی کے اوپر 9 روپے سبسڈی فی کلو فراہم کی۔ میں خطا کار انسان ہوں، نبی کریم ؐنے آخری خطبے میں کہا تھا کہ بیٹا باپ کا ذمہ دار نہیں اور باپ بیٹے کا ذمہ دار نہیں۔ میں نے اپنے بیٹے کی شوگر ملز کا 90 کروڑ روپے کا نقصان کیا، پنجاب کی شوگر ملز کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ میں نے کوئی نشے میں یا بھنگ چرس پی کر فیصلہ نہیں کیا بلکہ اپنے ضمیر کی آواز پر قیمتیں نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ میرے فیصلے سے کاشتکار کو فائدہ ہوا۔ فاضل جج نے دوران سماعت میاں شہبا زشریف سے استفسار کیا کہ آپ کے فیصلے سے قومی خزانے کو کتنا فائدہ ہوا؟۔ شہباز شریف نے کہا کہ قومی خزانے کو اربوں روہے کا فائدہ ہوا، وہ اربوں روپے ملک میں صحت و تعلیم پر خرچ ہوئے۔ نیب نیازی گٹھ جتنا مرضی زور لگا لے میری گنہگاری ثابت نہیں کر سکتے، پاکستان میں کہیں بھی ایتھنول پر ایکسائز ڈیوٹی نہیں تھی مگر میں نے پنجاب میں لگائی، میرے اس فیصلے سے بھی میرے خاندان کی شوگر ملز کو نقصان ہوا، میرے بیٹے کی شوگر مل میں ایتھنول کا پلانٹ مکمل ہو چکا ہے مگر این او سی نہیں ملا، شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ہائیکورٹ رجوع کرنے سے تحریک انصاف حکومت نے 2 روپے ایکسائز ڈیوٹی کا حکم واپس لے لیا، میرے سیاسی کیرئیر میں یہ بڑا فخریہ کام ہے، میرے والد دن میں کالج جاتے تھے اور شام کو ہندو کے پاس لوہے کی فیکٹری مین کام کرتے تھے۔ 1972ء میں اتفاق فاؤنڈری پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا۔ جب اتفاق فاؤنڈری کو نیشنلائز کیا گیا تو ایک دھیلے کا معاوضہ نہیں ملا، والد نے اس کے بعد 6 فیکٹریاں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لگائیں، اس وقت ہم کون سا اقتدار میں تھے۔جولائی 1979ء کو اتفاق فاؤنڈری کو واپس کیا گیا تب یہ ادارہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا تھا۔ 1996ء میں اتفاق فاؤنڈری کو انجینئرڈ ڈیفالٹ کروایا گیا، جس نے ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا وہ ماضی کا قصہ ہے۔ 2014ء میں لاہور ہائیکورٹ کو خط لکھا کہ ہم قرض کی ایک ایک پائی چکانا چاہتے ہیں، ہم نے ہائیکورٹ کی مداخلت سے قرض کی ایک ایک پائی ادا کر دی تھی۔ نیشنل بینک پاکستان نے ہمارے قرضہ جات کی ادائیگی پر خط جاری کیا۔ 1997 سے 1999ء اور 2008 ء سے 2018ء کے ادوار میں ایک روپیہ بھی تنخواہ نہیں لی، میں اپنی تنخواہ گلاب دیوی ہسپتال اور دیگر خیراتی اداروں کو دیتا تھا۔ فاضل جج نے میاں شہباز شریف سے استفارکیا کہ کیا آپ کی رپورٹ پر نیب تفتیش کرے؟ جس پر میاں شہبازشریف نے کہا کہ جی بالکل سر تفتیش کروائیں، پھرساتھ ہی کہا کہ نہیں سر یہ تفتیش کر چکے ہیں بولتے نہیں ہیں گھنے بنے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف کے اس پربیان پر کمرہ عدالت میں قہقہ بلند ہوا،وہ اپنا کیس اللہ کی عدالت میں چھوڑ رہے ہیں، نیب جتنے دن چاہے ریمانڈ لے لے، اپنا کیس خود لڑوں گا کسی سے مدد نہیں لوں گا۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کچھ دیر کے لئے نیب کی طرف سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کیاجو بعدمیں سناتے ہوئے میاں شہباز شریف کو 14روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا۔شہباز شریف کی پیشی کے موقع پراحتساب عدالت میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے عدالت کی طرف آنے والی سٹرکوں کو کنٹینر اور خاردار تاریں لگا کر بند کر دیا گیا،عدالت میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ وکلاء کو بھی شناخت کے بعد اندر جانے کی اجازت دی گئی۔دریں اثناء کیس کی سماعت کے دوارن کیس کے شریک ملزم حمزہ شہباز کی کورونا وائرس سے متعلق رپورٹ عدالت میں جیل کے ڈاکٹر محمد افضل خان نے پیش کی،جس میں بتایا گیا کہ حمزہ شہباز کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا، حمزہ شہباز کو آئسولیشن میں رکھا ہوا ہے، حمزہ شہباز کا کرونا کیلئے پی سی آر ٹیسٹ کروانا باقی ہے۔ اسی لئے حمزہ شہباز کو کرونا وائر کی وجہ سے جیل سے لاکر پیش نہ کیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ عدالت میں وزارت خارجہ نے سلمان شہباز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری پر رپورٹ پیش کی گئی۔
شہباز ریمانڈ