اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
"قرآن کریم کو عام کرو،یک جان دو قالب ہو جاؤ"......شیخ الاسلام جناب مفتی تقی عثمانی نے اس شب "اسیر مالٹا "مولانا محمود حسن کا "سبق آموز قول" دہرا کر علمائے کرام کو"دعوت فکر" دی...لاہور کی معتبر دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ کی" مسجد الحسن" کے صحن میں یہ ایک "دلکش مجلس" تھی...عزت مآب مولانا فضل الرحیم اشرفی اور حافظ اسعد عبید نے بڑے اہتمام سے جامعہ کے ترجمان ماہنامہ" الحسن" کے "مولانا عبدالرحمان اشرفی نمبر" کی"تقریب رونمائی" کے عنوان سے یہ"بزم" سجائی...قابل صد احترام مفتی تقی عثمانی کے علاوہ جناب قاری محمد حنیف جالندھری اور مولانا انوار الحق صاحب سٹیج پر جلوہ افروز تھے ... پاکستان کے " مدبر مدیر" جناب مجیب الرحمان شامی ،نوید چودھری اور شجاع الدین بھی" شریک محفل" تھے...
میرے ساتھ منفرد کالم نگار جناب حافظ شفیق الرحمان،محمد عبداللہ ،اسلامی سکالر مفتی امداد اللہ فرید،قاری ضیا الرحمان صدیقی اور قاری مہد بن امجد عثمانی تھے.. جید علمائے کرام کے سامنے سفید لباس پہنے اجلے اجلے دینی طلبا سرجھکائے بڑے ادب سے ہمہ تن گوش تھے ...بڑا ہی روح پرور منظر تھا...دل چاہا کہ چبوترے کے سامنے اللہ والوں کے قدموں میں بیٹھوں مگر ہمارے "میڈیا فرینڈلی میزبان"مولانا مجیب الرحمان انقلابی "تکلف" میں پڑگئے اور نا چاہتے ہوئے سٹیج کے نیچے دائیں جانب کرسیوں پر بیٹھنا پڑا...اکثر سوچتا ہوں اللہ کےگھرمیں کون سااورکیسا پروٹوکول؟میرے خیال میں مسجد میں سب سے بڑا "پروٹوکول" چٹائی پر بیٹھنا ہے...2015ٔءمیں عمرہ کے دوران مسجد نبوی شریف میں یہی بات "فقیر مدینہ" ڈاکٹر احمد علی سراج سے کہی تو ان کی آنکھیں بھیگ گئیں.. وہ ہمیں باب السلام سے تلاش کرتے کرتے بیرونی دروازے پر آگئے تھے...ننگے فرش پر بیٹھے دیکھا تو کہنے لگے مسجد شریف کے اندر ٹھنڈک بھی ہے اور قالین بھی بچھے ہیں...میں نے کہا حضرت! ائیر کنڈیشنر اور کارپٹ تو ہر جگہ مل جائیں گے مگر "خاک مدینہ "کہیں اور سے نہیں ملے گی...!!!
صوفی بیوروکریٹ جناب قدرت اللہ شہاب کا ممتاز مفتی کے ساتھ عشق رسول ﷺمیں ڈوبا مکالمہ یاد آگیا...مفتی جی لکھتے ہیں:شہاب صاحب مسکرادیے ...ان کی مسکراہٹ میں بڑی بے بسی تھی...میں نے پوچھا "کل رات جب مسجد نبویﷺ" شاہ مراکو" کے لیے خصوصی طور پر کھلی تھی، اس وقت آپ نے مسجد نبویﷺ میں آنے سے کیوں انکار کر دیا تھا"؟؟ان کے چہرے کی سلوٹیں سرک سرک کر یوں ڈھیلی پڑ گئیں جیسے معذرت اور ندامت میں بھیگ گئی ہوں..."دیکھیے نا"وہ بولے"کچھ اچھا نہیں لگتا"..."کیا اچھا نہیں لگتا"؟؟؟
"اس طرح مسجد نبویﷺ میں آنا کچھ اچھا نہیں لگتا"..."کس طرح"؟"کسی خصوصی حیثیت سے...جب مسجد نبویﷺخصوصی طور پر کھولی جائے... صاحب حیثیت لوگوں کے لیے کھولی جائے...میں...میں...میں...وہ اٹک اٹک کر رک گئے...پھر سنبھل کر بولے"حضور ﷺ کی "خدمت عالیہ" میں حاضری دینے کے کچھ آداب ہونے چاہئیں"اللہ اکبر....اللہ اکبر.....مسجد نبویﷺ کے موذن کی اذان گونجی....!!!!!
نہر کنارے جامعہ اشرفیہ اور مسجد الحسن کی "روحانی داستان" بھی بڑی ہی ایمان افروز ہے...مفتی محمد حسن صاحب نے ایک رات اللہ کریم کے سامنے "جھولی" پھیلائی اور اللہ کریم نے اپنے ایک بندے کو "مطلوبہ وسائل" دیکر ان کی خدمت میں بھیج دیا... خواب میں ہی مسجد کی بنیادوں کی نشاندہی ہو گئی اور پھر انہی نشانات پر اللہ کے اس گھر کا سنگ بنیاد رکھا گیا...میری خوش بختی کہ گاہے جامعہ اشرفیہ حاضری ہوجاتی ہے...کبھی اس اسلامی یونیورسٹی کے ترجمان برادرم مولانا انقلابی چائے کا کپ پلا دیتے تو کبھی انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے امیر بزرگوارم ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ مکہ مکرمہ سے لاہور کے لیے نکلتے ہی پابند کردیتے ہیں کہ فلاں دن فلاں وقت جامعہ میں ملاقات ضروری ہے...ایک مرتبہ یہاں رسول کریم ﷺ کے موئے مبارک کی زیارت اور ایک دفعہ امام کعبہ الشیخ عبدالرحمان السدیس کی امامت میں نماز فجر پڑھنے کی سعادت بھی ملی...تقی عثمانی صاحب کو یہاں دوسری مرتبہ براہ راست سننے کا موقع مل رہا تھا...سوچتا ہوں کچھ لوگ شہرت کے لیے صبح سے شام بولتے ہیں مگر پھر بھی عزت یاب نہیں ہوتے مگر تقی صاحب اس باعزت انداز میں بات کرتے ہیں کہ ان کا بیان "بیانیہ" بن کر شہرت پا جاتا ہے...
مفتی صاحب نے مولانا عبدالرحمان اشرفی کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا.. . مدارس کے طلبا کو حدیث کی اجازت دی اور اپنی مختصر مگر جامع تقریر میں فرمایا:شیخ الہند مولانا محمود حسن نے "کالا پانی" سے رہائی کے بعد کہا کہ ہم نے مالٹا کی قید سے دو سبق سیکھے...میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی لحاظ سے تباہ کیوں ہو رہے ہیں تو اس کے دو اسباب معلوم ہوئے ...ایک قرآن کو چھوڑ دینا اور دوسرا آپس کے اختلافات...میں جیل سے یہ عزم لیکر آیا ہوں کہ باقی زندگی قرآن کو عام اور مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے وقف کر دوں گا...ابھی تقی صاحب کی اس سحر انگیز گفتگو کا "خمار" نہیں اترا تھا کہ اس" اچھی خبر "نے "سرشار" کر دیا کہ آں جناب وفاق المدارس کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے ہیں...دل باغ باغ ہو گیا کہ وفاق کی صدارت کے لیے مفتی تقی کا انتخاب واقعی حسن انتخاب ہے ...شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے بعد مفتی تقی صاحب ایسے جید عالم دین ہی اس عالی شان مسند پر سجتے ہیں...!!!!
"حسن اتفاق "دیکھیے کہ اسی اثنا مسجد نبویﷺ شریف کے مدرس جناب قاری بشیر احمد صدیق سے کافی عرصے بعد ٹیلیفون پر تفصیلی گفتگو ہوئی تو انہوں نے بھی" خدمت قرآن اور خدمت خلق" کو کامیابی کا "مجرب نسخہ" قرار دیا...کہنے لگے قرآن پڑھنا پڑھانا بھی خدمت قرآن اور قرآن پڑھنے پڑھانے والوں کی خدمت بھی خدمت قرآن ہے...قاری بشیر صاحب پر رشک آتا ہے کہ کہاں جنوبی پنجاب کے "خزاں رسیدہ" گاؤں کا ایک دیہاتی اور کہاں مدینہ منورہ کی بہاریں...اندازہ کیجیے کہ جس استاد گرامی کے تین چار شاگرد کعبہ مشرفہ اور مسجد نبوی شریف کے امام ہوں وہ کس اعلی درجے پر فائز ہونگے...کہنے لگے میرے لیے شکر کامقام ہے کہ میرے شاگردوں کو دنیائے اسلام کی پانچ بڑی مساجد یعنی مسجد الحرام،مسجد نبویﷺ،مسجد قبا،مسجد نمرہ اورمسجد اقصی میں نماز پڑھانے کا شرف ملا... قاری صاحب نے بتایا پسماندہ سے دیہہ میں کھیتی باڑی کرتا تھا کہ اللہ کریم نے قرآن کی وجہ سے نبی کریمﷺ کی مسجد میں جا بٹھایا ...انہوں نے بتایا کہ کلام اللہ کے باعث بارہ سال مراکش کا شاہی مہمان بنا...ایک دفعہ شاہ مراکش نے کہا کہ قاری صاحب دنیا کی جو چیز چاہئیے بتائیں...میں نے کہا کچھ نہیں چاہئیے بس ایک خواہش ہے کہ نبی کریم ﷺ کے شہر کا "مستند مکین "بن جاؤں اور پھر" مدینہ کی شہریت "مل گئی... کہنے لگے ایک مرتبہ پاکستان کے بڑے "پراپرٹی ٹائیکون" نے" عالی شان بنگلے "کی پیشکش کرتے ہوئے چابیاں سامنے رکھیں تو اس سے کہا بھائی ہم تو اب جنت کے بنگلے میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں...اللہ کریم نے قاری بشیر احمد صدیق کو تجوید و قرآت میں وہ ملکہ عطا کیا ہے کہ عرب بھی ان کے سامنے سر جھکائے بیٹھتے ہیں مگر پاکستان کے یہ 85سالہ "انعام یافتہ بزرگ" سجدہ شکر بجا لاتے نہیں تھکتے کہ کہاں میں ناکارہ اور کہاں یہ کرم نوازیاں... یہ سب قرآن کی برکت ہے...!!!!
کچھ دن ہوئے تحصیل پسرور کے چھوٹے سے گاؤں "بھائی دا کھوہ " پر ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے عزیز از جان دوست جناب حافظ ظہیر اعوان کے لیے "دعائیہ تقریب" میں ایک عالم دین نے بھی قرآن کی تعلیم پر بڑے ہی میٹھے انداز میں اظہار خیال کرکے دل موہ لیے...انہوں نے حدیث کا مفہوم بیان کرتےہوئےعربی سیکھنے کی ترغیب دی کہ عربی زبان رسول عربی ﷺ ،قرآن مجید اور اہل جنت کی زبان ہے...شیخ الہند سے شیخ الاسلام تک اکابر علمائے کرام کی نصحیت آموز گفتگو سے یہی روشنی ملتی ہے کہ خود بھی "کتاب اللہ "سے رہنمائی لیں اور اپنے بچوں کو بھی "کلام اللہ "پڑھائیں کہ وہ اس "اندھیر نگری" میں" صراط مستقیم" کھو نہ پائیں...
شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے بھی اُمہ کے زوال کی یہی "تشخیص" فرمائی تھی:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔