میں واپس جانے کو مڑا، تب ہی پیچھے سے کسی نے ششکارا جیسے متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہو،مڑ کر دیکھا تو اس نے پوچھا ”ممیاں دیکھنی ہیں“؟

Sep 30, 2024 | 11:26 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:16
 میں بے حد افسردہ ہو کر واپس جانے کو مڑا، تب ہی پیچھے سے کسی نے اس انداز میں ششکارا جیسے کوئی مجھے متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو دروازے پر کھڑا ایک محافظ مجھے انگلی کے اشارے سے اپنی طرف بلا رہا تھا۔ بے یقینی کی کیفیت میں اس کے قریب ہوا تو اس نے پوچھا ”ممیاں دیکھنی ہیں“۔ میں نے جلدی سے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا۔ اس نے ہاتھ کھول کر میرے چہرے کے سامنے اپنا پنجہ لہرایا جو میرے ناک کے قریب سے ہو کر گزرا۔ کہنے لگا ”پانچ پونڈ دے دو اور چپ چاپ اندر چلے جاؤ“۔ میں پہلے ہی ایسے موقع کی تلاش میں تھا۔ فوراً اس کو مطلوبہ پونڈ تھمائے، اس نے محض رسم پوری کرنے کی خاطر اِدھر اُدھرجھانکا اور آہستگی سے زنجیر ایک طرف ہٹائی اور جلدی سے مجھے اندر داخل ہوجانے کا کہا۔ اس دوران اس کا دوسرا ساتھی بے نیازی سے کھڑا سر کھجاتا رہا۔
جب اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ سرکاری طور پر بند ہونے کے باوجود اندر کم از کم درجن بھر غیر ملکی سیاح وہاں موجود تھے اور بڑی باریک بینی سے چبوتروں پر رکھی ہوئی ممیوں کا جائزہ لے رہے تھے اور ان کے سرہانے رکھی گئی تختیوں پر ان کی کندہ تاریخ پڑھ رہے تھے۔ ظاہر ہے انہوں نے بھی اس گیلری میں داخل ہونے کے لئے پانچ پونڈ والی چابی گھمائی تھی، تبھی تو اب وہ اتنی یکسوئی سے یہ طبی معائنے کر رہے تھے۔ مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا تو جاپانی بزرگوں کا ایک جوڑا بھی ایسے ہی حالات سے گزر کر اندر داخل ہو رہا تھا۔ گیلری کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ پہلے حصے میں سر تا پا پٹیوں میں لپٹی ہوئی اور ریک پر ایک ترتیب سے رکھی ہوئی کچھ ممیاں تھیں۔ وہاں لکھی گئی تحریروں کے مطابق یہ اس زمانے کے کچھ شہزادے، شہزادیاں اور گمنام بادشاہوں کے علاوہ کچھ اشرافیہ تھے۔ ان میں سے کچھ تو ابھی تک اپنے سنہری یا پتھر کے تابوتوں میں لیٹے ہوئے تھے۔ کئی ایک کے تابوتوں کے ڈھکن پر عین چہرے والی جگہ آنجہانی کی خوبصورت رنگین تصویر بھی بنی ہوئی تھی۔ ایک عجیب اور ناگوار سی بُو چار سُو پھیلی ہوئی تھی جس کو دبانے کے لئے شائد تھوڑی تھوڑی دیر بعد کوئی سپرے کیا جاتا تھا۔ ان ممیوں کے آس پاس بنے ہوئے سنگی چبوتروں پر کچھ کتے، بلیوں، کبوتروں اور شائد ایک آدھ ہرن بھی حنوط کرکے رکھ دیئے گئے تھے۔ ایک کتے اورایک بندر کو پٹیوں میں سے نکال کر باہر سٹینڈ پر کھڑا کیا ہوا تھا۔ باقی ابھی تک اپنی اصلی پیکنگ میں ہی موجود تھے۔وہ ہمارے ہی دور کی طرح کے عام سے جانور تھے جو حنوط کئے گئے مصالحے کی بدولت لکڑیوں کی طرح اکڑے ہوئے پڑے تھے۔ ان کو دیکھ کر گھن سی آئی تھی۔ یہ وہ جانور تھے جو اپنے مالکوں کی خوشنودی کی خاطر مارے گئے اور اب یہاں پڑے اپنی شناخت کے طالب تھے۔ 
مرکزی ہال کے اندر سے ہی ایک دروازہ ایک ذیلی ہال میں کھلتا تھا جس میں شاہی خاندان کے اونچے درجے کے فرعون بادشاہوں اور ملکاؤں کی ممیاں بھی ایک قطار میں چبوتروں پر پڑی نظر آ رہی تھیں۔ ایک پوری تاریخ ہر ایک کے سرہانے رقم تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کے چہرے ننگے اور قابل شناخت تھے، تاہم باقی جسم ابھی تک جزوی طور پر ملگجی سی پٹیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ان کے سرہانے بعض تختیوں میں اصل تحریر تو فرعونوں کی اپنی ہی زبان میں تھی جس میں جانور اور پرندوں کی تصاویر کسی خاص لفظ یا احساس کو ظاہر کرتی تھیں۔ تاہم جیسا کہ سب عجائب گھروں میں ہوتا ہے وہاں سیاحوں کی سہولت کے لئے انگریزی، فرانسیسی اور عربی میں بھی ضروری معلومات فراہم کر دی گئی تھیں۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں