جمہوریت کا انتقام

جمہوریت کا انتقام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ تاریخ کا ایک سچ ہے جو صدر کی زبان پر آیا ہے اور اخبارات کی شہہ سرخیوں کی زینت بنا ہے۔صدر نے کہا ہے کہ خود کو زمینی خدا سمجھنے والے آج پناہ ڈھونڈھ رہے ہیں، یہی جمہوریت کا انتقام ہے۔وطن عزیز میں ان زمینی خداﺅں کا سلسلہ بہت دراز رہا ہے، سب سے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خا ن آئے ، انہوں نے آئین کو منسوخ کیا اور اپنا حکم چلایا،پھر ان کی جگہ جنرل یحی خاں نے لے لی۔اور وہ ملک توڑ کر گھر چلے گئے، مختصر عرصے کے لئے جمہوریت بحال ہوئی مگر جنرل ضیاالحق نے شب خون مارا اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا ، پھر انہیں عدلیہ کی مدد سے پھانسی دے کر شہید کر دیا۔گیارہ برس تک جنرل ضیا الحق کا ڈنکا بجتا رہا، پھر جمہوریت کا ایک قلیل وقفہ اور جنرل مشرف نے دو تہائی اکثریت کے حامل وزیر اعظم کو پہلے تو قلعوں اور سیف ہاﺅسوں میں بند کیا ، پھر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔آج صورت حال بہر حال مختلف ہے، ایک جمہوری منتخب حکومت اتفاق رائے سے ملک کو چلانے میں کامیاب ہے،اور ماضی کے آمر واقعی در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، جنرل مشرف نیویارک سے دوبئی تک ساری دنیا گھوم جاتے ہیں مگر ان کو پاکستان میں قدم رکھنے کی توفیق نہیں ہو پارہی اور اور نہ وہ اس دھرتی پر کبھی قدم رکھ سکیں گے، یہ جمہوریت کا انتقام ضرور ہے مگر میرے نزدیک ابھی نامکمل ہے ۔ماضی میں جتنے بھی آمر آئے، وہ اکیلے تو نہ تھے، کئی اداروں اور طبقات نے ان کی پشت پناہی کی۔ عدلیہ نے ان کا کھل کر ساتھ دیا اور نظریہ ضرورت کے تحت ان کے شب خون کو جواز بخشا جاتا رہا۔ان آمروں نے آئین کو طاق نسیان کی نذر کر دیا اور عدلیہ نے ان سے کوئی باز پرس نہ کی۔خود عدلیہ کا برا حال کیا گیا، صرف من پسند ججوں کو حلف دیا جاتا تھا ، باقی گھر بیٹھے فارغ، نہ کوئی چارج شیٹ، نہ صفائی کا حق۔جنرل مشرف پر تو عدلیہ نے مراعات کی بارش ہی کر دی، اس کو آئین میں ترمیم کا حق بخش دیا گیا۔ماضی کے آمروں نے آئین کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، جنرل مشرف نے عدلیہ کے بخشے ہوئے اختیارات کے تحت آئین کے ساتھ وہ کھیل کھیلا کہ آئین کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ مشرف نے عدلیہ سے آئین میں تبدیلی کا اختیار مانگا ہی نہ تھا ، یہ مہربانی بن مانگے کی گئی، اس طرح صاف ظاہر ہے کہ ایک آمر کو دوام بخشنے اور آئین کو کھلونا بنانے میں عدلیہ کا واضح کردار تھا۔ آج جب ہم یہ کہتے ہیں کہ زمینی خداﺅں کو کہیں جائے اماں نہیں مل پا رہی تو ان عناصرکا بھی احتساب ہونا چاہئے جو ان آمروں کی تقویت کا باعث بنتے رہے۔میں جانتا ہوں کہ ملک میں بہت سے کمیشن بنے اور ان کا نتیجہ ڈھاک کے تین پات، کچھ نہ نکلا ، لیکن ہمیں اب ایک اعلی سطحی کمیشن بنا کر یہ جاننے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے کہ ماضی کے تمام آمروں بلکہ زمینی خداﺅں کے ساتھی کون تھے، کیا فوج کے جرنیل شب خون مارنے میں تن تنہا تھے یا ملکی اداروں میں سے بھی کسی نے ان کو زمینی خدا بنانے میں مدد کی۔ظاہر ہے فوجی جرنیل اکیلے تو ملک پر قابض نہیں رہ سکتے تھے، انہیں اسی معاشرے میں سے ناپسندیدہ عناصر کا تعاون تو ملتا رہا لیکن ان کا تعین کرنے کے لئے ہمیں ایک کمیشن بنا کر جائزہ لے لینا چاہئے اورممکن ہو تو ان کو بھی قرار واقعی سزائیں دی جانی چاہیئں۔اس کمیشن میں نیک نام اور سینئر ریٹائرڈ ججوں کو شامل کیا جائے تا کہ وہ قانون اور آئین کے مطابق انصاف سے کام لے کر آمروں کے حاشیہ نشینوں کی نشاندہی کر سکیں اور ان کے احتساب کے لئے تجاویز پیش کر سکیں ، آج احتساب کا بہت چرچا ہے، سیاستدانوں کا احتساب ہمیشہ ہوتا آیا ہے، ایوب خان نے ایبڈو سے احتساب کا آغاز کیا، یحی خان نے مشرقی پاکستان میں مخالف سیاستدانوں کوخون میں نہلا دیا۔کچھ جان بچانے کے لئے سرحد پار کر گئے، ان کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن کو غداری کے الزام میں مغربی پاکستان کی جیل میں ڈال دیا۔جنرل ضیا الحق نے تو ظلم و ستم کی حد ہی کر دی،سیاسی لیڈروںاور کارکنوں کو کوڑے مارے گئے، انہیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا، کسی کو شاہی قلعے کی تنگ و تاریک سرنگوں میں پھینک دیا گیا اورجب کوئی بس نہ چلا تو مخالفین کوایک جہاز میں بھر کر جلا وطن کر دیا گیا۔محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔جنرل مشرف نے بھی انتقام اور احتساب کی کوئی کسر نہ چھوڑی، دو تہائی اکثریت کے حامل وزیر اعظم کو ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا اور بالاخر جدہ بھجوا دیا گیا۔آصف علی زرداری کو مسلسل جیلوں میں بند رکھا گیا، ایک کچہری سے دوسری کچہری میں گھمایا گیا، دیگر سیاستدانوں کو بھی کڑی سزائیں دی گئیں۔ان سب کا جرم یہ تھا کہ وہ منتخب حکمران تھے یا جمہوری اصولوں کے تحت سیاست کے علم بردار تھے۔ ان کی کردار کشی کا سلسلہ بھی ساتھ ہی ساتھ جاری رہا۔سوال یہ ہے کہ زمینی خداﺅں نے تو مخالفین کا نمدا کسنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی تو کیا ان آمروں اور زمینی خداﺅں اور ان کے ہم نواﺅں کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آمر تو در بدر ہیں اور یہ جمہوریت کا انتقام ہے لیکن ان کے حاشیہ نشینوں اور مدد گاروں کو کیا سزا ملی،ان کے نامہ اعمال بھی تو سامنے آنے چاہیئں اور پھر ان کے پیش نظر انہیں قرار واقعی سزا بھگتنے پر مجبور کیا جائے تاکہ جمہوریت کے انتقام کا فطری عمل مکمل ہو سکے۔اگر کسی کمزوری کی بنا پر ہم انہیں سزا نہیں دے سکتے تو کم از کم زمینی خداﺅں کے ہم نواﺅں اور مددگاروں کی ذمے داری کا تعین تو کر دیا جائے تاکہ عوام، آزاد میڈیا کے ذریعے ان کے کردار سے آگاہ ہو سکیں۔
میںنئے صوبوں کے کمشن پر الگ سے اور تفصیل سے لکھنا چاہتا ہوں ، فی الوقت یہ کہوں گا کہ اس مقصد کے لئے جو قومی کمیشن بنا ہے اس کی سربراہی ایک نیک نام، شریف النفس اور درویش صفت سیاستدان کو سونپی گئی ہے۔نئے صوبوں کی تشکیل وقت کی ضرورت ہے اور بہت پہلے یہ کام ہو جانا چاہئے تھا۔ چلیئے دیر آئد درست آید۔ اب اس معاملے کو کھٹائی میں نہیں ڈال جانا چاہئے، وفاق کی سلامتی اور احساس محرومی کے مارے عوام اور ان کے علاقوں کو لاہور، کراچی، ملتان، راولپنڈی، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد، پشاور،کراچی، سکھر ، حیدر آبادکے مساوی سہولتوں سے آراستہ کرنا آئین اور انصاف کا عین تقاضا ہے۔میں خود ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتا ہوں اور مجھے قلق ہے کہ ہمارے دیہات میں انسان اور مویشی گندے کھالوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں،جدید سہولتیںہم خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے، کیا اسلام، آئین اور اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر ہمیں اسی مساوات کا درس دیتا ہے اور کیا نئے صوبوں کی مخالفت میں پیش پیش لوگ ہمیں ہمیشہ کے لئے پسماندگی، غربت، بیماری اور جہالت کا شکاررکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عقل کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کو سیاسی دکانداری چمکانے کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔

مزید :

کالم -