مصر کی صورتحال اور ترکی
اسلامی دنیا میں شائد ترکی وہ واحد ملک ہے، جو شروع دن سے ہی مصر کی صورت حال سے مکمل باخبر اور بالواسطہ اور بلاواسطہ بین الاقوامی سطح پر مصری عوام کے لئے بھرپور آواز اٹھا رہا ہے۔ترکی کے عوام اور حکومت مصری عوام کے ساتھ ہے اور سفارتی، سیاسی اور اخلاقی سطح پر ہر ممکن مدد کررہی ہے۔
مصر میں جب سابق صدر حسنیٰ مبارک کے خلاف تبدیل اور عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور حکومت اور فوج نے عوام پر مظالم ڈھانے شروع کئے تو اس وقت بھی حکومت ترکی اور ترک عوام نے مصری حکومت اور فوج کے مصری عوام پر مظالم کی شدت مذمت کی تھی اور مصر میں جمہوری اقدار اور جمہوری طریقے سے تبدیلی پر اپنی بھرپور مدد کی تھی۔یہی نہیں ترکی نے عرب بہار کے بعد اور مصر میں انتخابات کے انعقاد کے بعد عوام کے ووٹوں سے وجود میں آنے والی محمد مرسی کی حکومت کوبھی خوش آمدید کہا تھا اور اپنی ہر ممکن مدد کا اعادہ بھی کیا۔اس طرح مشرق وسطیٰ میں عوامی تبدیلی کے بعد مصر ہو یا تیونس، لیبیا ہو، شام ہر جگہ ترکی نے عوامی خواہشات کا احترام کرنے اور جمہوریت کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کیا۔
خاص طور پر مصر میں معزول صدر محمد مرسی کی ترکی نے ہر ممکن مدد کی، انہیں ترکی کے دورے کی دعوت دی اور مصر کی معاشی، سفارتی، اخلاقی غرض ہر شعبے میں تعمیر و ترقی میں اپنی بھرپور پُرخلوص مدد اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔ عملی طور پر ترکی وزیرخارجہ اور ترک وزیراعظم نے مصر کے دورے کئے اور تباہ شدہ مصر کو دوبارہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے میں مدد کی۔
تاہم جب اچانک جنرل سیسی کو ڈکٹیٹر غاصب اور آخری فرعون قرار دیا۔ترکی نے اس کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا، امریکہ اور یورپ کے سوئے ہوئے ضمیر کو بھی جھنجھوڑا اور زور دیا کہ وہ مصر میں عوامی مظاہروں پر فوج کے مظالم کو اور مصر میں فوجی بغاوت کو بغاوت کہیں اور فوجی شب خون کی مذمت کریں۔ترک عوام اور میڈیا نے بھی مصری عوامی خواہشات کا احترام کرنے پر زور دیا۔
ترکی نے مصر اور شام کی صورت حال پر اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی)کا فوراً اجلاس بلوانے پر بھی زور دیا۔او آئی سی کے جنرل سیکرٹری اکمل الدین احسان اوغلو جو کہ نسلاً ترک ہیں ان پر بھی زور دیا کہ وہ تنظیم کا اجلاس بلوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔اکمل الدین احسان اوغلو پر ترکی میں عوام، حکومت اور میڈیا کی طرف سے شدید تنقید کی گئی ہے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب تک باقاعدہ کسی اسلامی ممبر ملک نے او آئی سی کا اجلاس بلانے کی درخواست ہی نہیں دی اور وہ تن تنہا کچھ نہیں کر سکتے۔
کتنی حیرت کی بات ہے کہ مصر،شام اور دیگر اسلامی ممالک میں آگ لگی ہوئی ہے اور او آئی سی سمیت دیگر مسلم نمائندہ عالمی ادارے خاموش ہیں۔کھل کر آگ اور خون کے کھیل کی مذمت بھی نہیں کی جا رہی ہے۔آخر کب مسلمانوں کا ضمیر جاگے گا اور آخر کب انہیں ہوش آئے گا کہ وہ اپنے ہی بھائیوں کا خون اور تباہی خاموشی سے دیکھ رہے ہیں؟ہاں دشمن بہت خوش ہے کہ تمام مسلمان ممالک کا شیرازہ بکھرتا جا رہا ہے اور ان میں اتحاد، اتفاق، تعاون اور مدد کا کوئی جذبہ اور تعاون موجود نہیں ہے، اگر اسی طرح صورت حال رہی تو ایک ایک کرکے سب اپنے وجود کو خطرے میں ڈال لیں گے اور ان کی داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
دوسری طرف جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار اور چیمپئن نام نہاد ممالک کے معیارات اپنے لئے اور دیگر کے لئے اور معیارات ہیں۔یہ کھلا تضاد ہے اور عالمی طاقتوں کے بے ضمیری اور ناانصافی کی واضح مثال ہے۔مصر میں ایک جمہوری اور عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کو وہ جمہوری اقدار پر حملہ نہیں، بلکہ جمہوریت کی بہتری کے لئے اہم اور ضروری گردانتے ہیں۔یورپ اور امریکہ اسے مصر کے لئے بہتر سمجھتے ہیں۔پُرامن مصری عوام پر فوجی ٹینکوں، گولیوں اور خطرناک ہتھیاروں سے حملہ کی نہ عالمی طاقتیں مذمت کرتی ہیں اور نہ اس کے خاتمے کے لئے اقدامات، ترک وزیراعظم نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مصر میں گڑبڑ کا ذمہ دار اسرائیل ہے اور اس بات کے ان کے پاس ٹھوس ثبوت بھی ہیں۔اس بیان پر اسرائیل نے خاموشی اور امریکہ نے چوں چراں کی ہے۔معاملہ گڑ بڑ ضرور ہے، مصری عوام کو ان کے جمہوری حق سے محروم رکھنا کہاں کا انصاف اور کہاں کی عقلمندی ہے۔
تاہم اہم سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا کب جاگے گی؟مسلم دنیا کی خاموشی ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔اللہ ہم سب کو فہم و فراست دے۔مصری عوام کے جذبے کو سلام۔ اس سلسلے میں ترکی کی طرح دیگر اسلامی ممالک کو بھی ان کے حقوق کے لئے آگے آنا چاہیے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ٭