حیران کرنے والی پاکستان کی کرکٹ ٹیم!
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ حیران کرنے کی حیران کن صلاحیت رکھتی ہے اور کسی بھی وقت کوئی بھی سرپرائز دے سکتی ہے۔ہارتا ہوا میچ جیتنے اور جیتی ہوئی بازی ہارنے کا بھی حوصلہ رکھتی ہے۔یہی کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز سے سیریز جیتنے کے بعد ہواﺅں میں اڑ رہی تھی، منگل کو زمبابوے کے میدان ہرارے میں پہلا ایک روزہ انٹرنیشنل میچ ہار اور جمعرات کو بڑے سکور سے زمبابوے ٹیم کو ہرا کر ہی یہ ثابت کردیا کہ اس ٹیم کے بارے میں جو بھی کہا گیا، وہ سچ تھا، زمبابوے کا دورہ شروع کرتے وقت پہلے دو ٹی ٹوئنٹی میچ جیتے گئے تو بڑی تعریفیں ہوئیں، لیکن یہ کسی نے نہ سوچا کہ دونوں میچ پاکستان کرکٹ ٹیم کی صلاحیتوں اور زمبابوے کی سابقہ کارکردگی کے مطابق نہیں جیتے گئے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دونوں میچ پھنس کر جیتے تو مبالغہ نہ ہوگا، دوسری طرف کپتان مصباح الحق نے ہرارے روانہ ہونے سے قبل واضح طور پر کہا کہ زمبابوے کو آسان حریف کے طور پر نہیں لیں گے۔
جب میدان میں عمل کا وقت آیا تو پہلے روایت کے مطابق شہسوار میدان میں گرے اور ٹیم نے سات وکٹوں پر 244رنز بنائے ،حالانکہ ٹیم سے تین سو کی توقع تھی اور 270سے زیادہ تو ہر صورت ہونا چاہئیں تھے، یہاں بھی مصباح الحق اور محمد حفیظ نے عزت رکھی ورنہ ٹی ٹونٹی کے ہیرو احمد شہزاد اور دباﺅ کا شکار ناصر جمشید نے تو سست روی کے ساتھ وکٹیں بھی گنوا دیں، شاہد آفریدی اور دوسرے کھلاڑی بھی کچھ نہ کر سکے، حتیٰ کہ معین خان کی پسند سرفراز احمد بھی بلاوجہ رن آﺅٹ ہوئے۔
بلے بازوں کی کارکردگی اپنی جگہ، باﺅلنگ کا شعبہ تو پاکستان کرکٹ ٹیم کا بھاری تھا، عرفان، جنید، آفریدی، محمد حفیظ اور سعید اجمل فارم والے حضرات ہیں۔یہ بھی زمبابوے کے بلے بازوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو حضرات پھر حیران کرنے والی بات تو ہوئی اور سچ بھی ثابت ہوئی۔
ٹیم تنقید کی زد میں تھی کہ جمعرات کو پھر عجوبہ ہوگیا اور جو مطلوبہ سکور منگل والے روز کیا جانا تھا۔ وہ جمعرات والے میچ میں کرلیا گیا۔صرف چار وکٹوں کے نقصان پر 299رنز بنا کر زمبابوے کو دباﺅ میں لے آیا گیا، زمبابوے کے ابتدائی کھلاڑیوں میں کپتان ٹیلر اور ولیم کے ساتھ والر نے بھی بہتر کھیل پیش کیا، لیکن عرفان نے اپنے لمبے قد کا صحیح فائدہ اٹھاتے ہوئے جب ٹیلر کا وہ کیچ پکڑ لیا جو ان کی سوئپ شاٹ کے نتیجے میں چوکے کے لئے باﺅنڈری کی طرف جاتا تو کھیل کا پانسہ بالکل ہی پلٹ گیا۔ پھر باﺅلروں نے اپنی شان دکھائی، حتیٰ کہ جنید خان نے وسیم اکرم کی تربیت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور یارکروں کی مدد سے باقی کھلاڑیوں کو کھیلنے نہیں دیا، انہوں نے چار وکٹیں صرف پندرہ رنز کے عوض حاصل کیں۔اس میچ میں ایک فاسٹ باﺅلر کم کرکے عبدالرحمن کو موقع دیا گیا اور انہوں نے اس کا نتیجہ بھی دیا ۔دو کھلاڑی انہوں نے بھی آﺅٹ کئے اور یوں سعید اجمل کے برابر وکٹیں لیں، اس طرح یہ میچ نوے رنز کے بڑے فرق کے ساتھ جیتا گیا۔“ہے نا حیران کرنے والی بات“۔
اب ذرا بیٹنگ کی بات کرلیں تو شائقین و قارئین کرام یہاں پھر حیرت والا کام ہوا، ناصر جمشید نے 32سکور تو کئے، لیکن دب کر کھیلے اور ابھی تک وہ دباﺅ سے نہیں نکلے۔ رہ گئے احمد شہزاد تو شاید ان پر کالا جادو کردیا گیا کہ نہ صرف پہلے میچ میں ناکام رہے۔دوسرے میں بھی تیزی دکھاتے ہوئے کیچ دے بیٹھے اور صرف پانچ سکور کرسکے۔مصباح الحق نے پہلے میچ میں ایک بڑی اننگ کھیلی لیکن یہاں وہ بھی ناکام ہو گئے وہ تو بھلا ہو عمر امین کا کہ اس نے اپنے سینئر محمد حفیظ کا بھرپور ساتھ دیا اور محمد حفیظ کا یہ لکی ڈے تھا۔انہوں نے سنچری جڑ دی اور 136پر ناٹ آﺅٹ رہے۔عمر امین بھی پہلے ہی انٹرنیشنل میچ میں ہاف سنچری بنانے میں کامیاب رہے اور یوں اگلے میچ کے لئے جگہ پکی کرلی۔وہ ایک اچھا فیلڈر بھی ہے اور ضرورت پڑے تو باﺅلنگ بھی کر اسکتا ہے اور اپنے آفریدی صاحب جو پہلے میچ میں فیل ہوئے تھے۔اس مرتبہ نہ صرف 32رنز بنائے ،بلکہ حفیظ کا ساتھ دیا اور سکور بھی تیز کئے ،بہرحال آﺅٹ نہیں ہوئے اور ناٹ آﺅٹ رہے۔
یوں اس کرکٹ ٹیم نے پھر حیران کیا، لیکن یہ سب بھی اطمینان بخش نہیں ہے کہ ہر میچ میں ایک دو کھلاڑی کچھ کر گزریں اور باقی کچھ نہ کریں۔احمد شہزاد نے ٹی ٹونٹی میچوں میں اچھا کھیل پیش کیا۔ایک روزہ دونوں میچوں میں ناکام ہوگئے۔یوں ان کے کھیل کا تسلسل پھر ٹوٹ گیا ۔احمد شہزاد کو بوجھ لئے بغیر اپنی غلطیوں کو دیکھنا ہوگا وہ ایک اچھا کھلاڑی ہے جو میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ کوچ اور منیجر اپنی سی کوشس نہیں کرتے ہوں گے ۔وہ یقینا کھلاڑیوں کو ان کی خامیوں خوبیوں سے آگاہ کرتے ہوں گے۔یہ تو خود کھلاڑی کا اپنا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی جگہ پکی کرنے کے لئے بھی محنت کرے اور توجہ دے کہ اپنی خامیوں کو جانچ کر بہتر کھیل پیش کرے۔
جیت بہرحال جیت ہے اور اب ناقدین تعریف کرنے لگ گئے ہیں ۔ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے اسے دو حریفوں کی جنگ نہ بنایا جائے۔اس میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے، تاہم پاکستان کرکٹ ٹیم کو غور کرکے یہ حیران کرنے والی روش بدلنا ہوگی اور اپنے کھیل میں تسلسل پیدا کرنا ہوگا ورنہ آنے والے ورلڈ کپ کے لئے ٹیم بنانا مشکل ہو جائے گا۔
زمبابوے کے دورے پر نوجوان کھلاڑیوں کو بھی موقع دیا گیا۔باﺅلر اسد علی اور انور متاثر نہیں کر سکے۔ان کی جگہ عبدالرحمن کو کھلایا گیا تو اس نے نتیجہ دے دیا، اس لئے بہتر ہے کہ نوجوانوں میں سے بھی جنید خان اور عمر امین جیسے باﺅلر اور بلے باز تلاش کرکے ان کو تجربے کی بھٹی سے گزارنا ہوگا۔
ہماری خواہش اور دعا ہے کہ پاکستان کو کرکٹ ہی کیا ہر میدان میں فتح حاصل ہو اور یہ ٹیم ایک مرتبہ پھر 1992ءکی کارکردگی دہرا کر ورلڈکپ جیت سکے، تاہم اس کے لئے یہ بھی ضرورت ہے کہ تعصب، مفادات اور پرچی سسٹم بند کرکے میرٹ کو رواج دیا جائے۔سابق کھلاڑیوں کو تجزیئے اور تنقید کا حق حاصل ہے لیکن یہ بھی بہتری کے جذبے کے تحت ہونا چاہیے۔
اب عمر اکمل ہی کے مسئلے کو لے لیں، وہ ایک نوجوان اور باہمت کھلاڑی ہے جس کے بیٹ سے رنز اگلتے ہیں ،لیکن تعصب کی عینک والے اس کے کیا پورے ”ٹبر“ کے پیچھے لگے ہوئے ہیں کہ خوش قسمتی سے اکمل برادران تین بھائی میدان میں ہیں، ان کے پیچھے نہ لگا جائے ان کو حوصلہ دیا جائے کہ اچھے( کھلاڑی چاہے کوئی بھی ہو) کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔عمر اکمل کی فٹنس کو مسئلہ بنا کر اسے لاعلاج مرض میں مبتلا کردیا گیا۔اب مختلف اہم ٹیسٹوں کے بعد ڈاکٹروں نے ان کو کلیئرکر دیا ہے تو ان کو پسند کرنے والوں نے خوشی تو منانا ہی ہے۔عمر اکمل کے حوالے سے میڈیا بھی منفی جذبات کا اظہار کررہا ہے۔اسے نہ صرف نظر انداز کیا جارہا ہے، بلکہ اس کی بیماری کے بارے میں مختلف منفی خبریں بھی چلائی جا رہی ہیں۔قومی ٹیم کے اہم کھلاڑی ہونے کے باوجود اس کی بیماری کو پراسرار کہا جا رہا ہے۔حالانکہ ایسی کوئی بات ہی نہیں، اس سے کھلاڑی کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔اپنے تعصبات اپنے تک رکھیں۔ ٭