آغا طالش کی نجی زندگی اور شریف کنجاہی کی کایا پلٹ

آغا طالش کی نجی زندگی اور شریف کنجاہی کی کایا پلٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                                                                جناب شاہد علی خان کو داد دینی چاہئے کہ وہ ورثے میں ملنے والے ادبی جریدے ماہنامہ ”الحمرا“ کو برسوں سے باقاعدگی سے شائع کر رہے ہیں۔ 144 صفحات پر مشتمل اس میگزین کا امتیاز یہ ہے کہ اس کا زیادہ نثری مواد آپ بیتیوں، سفر ناموں اور خاکوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ماہ رواں کے شمارے میں دو تحریریں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ایک، آغا طالش کا خاکہ جو پروفیسر عقیل احمد روبی نے لکھا ہے، دوسری، قاضی جاوید کا مضمون جس میں انہوں نے شریف کنجاہی مرحوم کی یادیں تازہ کی ہیں۔ آغا طالش ہماری فلمی دنیا کے ماتھے کا جُھومر تھے۔ زمانہ ان کے فن کا آج بھی معترف ہے۔ جس فلم میں اداکاری کرتے، اس کی کامیابی یقینی ہوتی تھی۔ عام طور پر جو لوگ شہرت کی بلندیوں پر پہنچتے ہیں، ان کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں تجسس ہوتا ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں کیسے ہوں گے؟ عقیل روبی کو کافی عرصے تک آغا طالش سے قربت میسر رہی، اس لئے اُنہوں نے آغا کی نجی زندگی کی جو جھلکیاں پیش کی ہیں، وہ ان کے براہ راست مشاہدات پر مبنی ہیں۔
روبی لکھتے ہیں کہ آغا طالش کا اصل نام علی عباس تھا اور وہ لدھیانہ کی آغا فیملی سے متعلق تھے۔ اداکاری کا شوق انہیں بمبئی لے گیا، جہاں وہ کرشن چندر کے پاس ٹھہرے۔ فلمی دنیا میں داخلے کے متمنی کئی لوگ پہلے سے وہاں مقیم تھے۔ کرشن کی بیوی روز لڑتی، کہتی نکالو ان بدمعاشوں کو، مفت میں روٹیاں توڑتے ہیں۔ آغا نے کرشن چندر کی فلم کمپنی کی طرف سے بننے والی پہلی فلم ”سرائے کے باہر“ میں بطور پروڈکشن منیجر کام کیا۔ فلم کی تکمیل کے دوران ایک عیسائی لڑکی آغا پر لٹو ہوگئی۔ علی سردار جعفری راستے میں آگئے۔ آغا کی علی سردار سے ہاتھا پائی ہوگئی۔ غسل خانے کا دروازہ بند کر کے آغا نے رقیب رو سیاہ کو بے حد مارا۔ کرشن چندر بہت خفا ہوئے، بالآخر آغا نے علی سردار کو گلے لگا کر صلح کر لی۔
روبی لکھتے ہیں کہ تقسیم کے دوران کرشن چندر نے اصرار کر کے آغا طالش کو پاکستان بھیج دیا۔ سیف الدین سیف کی فلم سات لاکھ میں ”یارو مجھے معاف کرو مَیں نشے میں ہوں“.... پر یوں لڑکھڑائے کہ تماشائیوں کے دلوں میں مستقل جگہ بنالی۔ آغا کا معدہ حیرت انگیز تھا، لکڑی پتھر سب کچھ ہضم کر جاتا۔ لندن کے یخ بستہ موسم میں، جبکہ درجہ حرارت نقطہءانجماد سے پانچ دس درجے نیچے تھا، ویٹر کو برف لانے کو کہا۔ وہ برف کی کیوبز پلیٹ میں سجا کر لے آیا تو سامنے بیٹھی ایک انگریز خاتون کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ آغا نے برف کی ڈلی منہ میں ڈالی تو وہ ایک چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی۔ اسی طرح وہ تیز اور تلخ کڑوا کنگ سٹارک مارکہ سگریٹ ان دنوں بھی پیتے تھے، جب لاہور میں بالکل ناپید ہو چکا تھا۔ اسی طرح سبزی پکانے کا ان کا ایک اپنا ہی انداز تھا۔ گوبھی کا پھول پورے کا پورا دیگچی میں رکھتے، اس کے گردا گرد نمک مرچ ہلدی اور دھنیے کا دائرہ بنا دیتے اور اسے ڈھکنے سے ڈھانپ دیتے۔ کچھ دیر بعد ڈھکنا اٹھاتے تو سارے مصالحہ جات گوبھی میں جذب ہو چُکے ہوتے۔
عقیل روبی بتاتے ہیں، ایک دن مَیں اور آغا ایورنیو سٹوڈیو میں داخل ہوئے، جوں ہی ہم علی (فلموں کے ایڈیٹر) کے کمرے کے سامنے سے گزرے، آغا نے اپنی رفتار تیز کر دی اور مجھ سے کافی آگے نکل گئے۔ اچانک علی اپنے کمرے سے باہر نکلا اور آغا پر اندھا دھند فلم کے ڈبوں کی بارش کر دی۔ ساتھ ماں بہن کی گالیاں بھی دینے لگا۔ لوگ دفتروں سے فوراً باہر نکل آئے۔ آغا اس ہجوم کے پیچھے کہیں چھپ گئے۔ علی کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اور آنکھیں سُرخ۔ بار بار کہہ رہا تھا، کتھے وے آغا طالش، میں اوہنوں جیوندیاں نہیں چھڈنا۔ لوگوں نے علی کو ٹھنڈا کیا اور وجہ پوچھی۔ علی نے جھنجھلا کر کہا، ہونا کیہ سی، ایس کتے دے پُتر نے رات مینوں مروا دتا سی۔ اوہ تے اللہ دا شکر اے کہ تھانیدار میرا واقف سی، نہیں تے مَیں حدود دے مقدمے وچ اندر ہو جانا سی۔
 اصل کہانی یہ تھی کہ ایک رات پہلے علی سٹوڈیو سے شراب پی کر نکلا۔ آغا اپنی جیپ میں گھر جا رہے تھے۔ علی سے کہنے لگے: ”چلو مَیں تمہیں گھر چھوڑ دوں“۔ علی ڈرا کہ کہیں آغا اس سے کوئی ہاتھ نہ کر جائیں۔ آغا نے اسے بڑی محبت سے سمجھایا: یار تم نے پی رکھی ہے۔ تمہیں کوئی پولیس والا نہ ٹکر جائے، چلو مَیں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں“۔ علی آغا کی باتوں میں آگیا اور جیپ میں بیٹھ گیا۔ علی کے گھر کے کچھ فاصلے پر تھانہ تھا۔ جب جیپ علی کے گھر کے قریب پہنچی تو علی نے لاکھ کہا کہ میرا گھر آگیا ہے، مگر آغا نے جیپ نہیں روکی اور جیپ کوسیدھا تھانے کے اندر لے گئے اور دھکا دے کر علی کو جیپ سے نیچے گرا دیا اور زور زور سے چلانے لگے، اُترو، سالے شراب پی کر گھر کا راستہ ہی بھول جاتے ہیں۔ پھر تھانیدار سے کہنے لگے، اسے اندر کروجی پتا نہیں کون ہے، سڑک پر کھڑا اول فول بک رہا تھا۔ یہ بات کہی اور جیپ سٹارٹ کر کے یہ جا، وہ جا۔ دوسرے دن وہ ایورنیو یہ دیکھنے گئے تھے کہ علی کا ردعمل کیا ہے۔ جب علی کا غصہ ذرا ٹھنڈا ہوا تو آغا ہجوم کے پیچھے سے نکل کر علی کے سامنے آگئے اور ہاتھ جوڑ کر کہا: یار مینوں معاف کر دے یا مینوں تھانے لے جا۔ علی مسکرایا اور غصہ بھول کر آغا طالش کو گلے لگا لیا۔
 آغا طالش جانوروں، پرندوں سے بے حد اُنس رکھتے تھے۔ ایک بار ایک چیل زخمی حالت میں ان کے پیروں میں آگری۔ آغا نے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے چیل کے ٹوٹے پَر، پر رکھ کر مکمل سرجری کی۔ ہفتہ بھر میں وہ اُڑنے کے قابل ہوگئی۔ کُتے اور بلیوں سے بھی بڑی رغبت تھی۔ یہ دونوں جانور آغا کے لب و لہجہ کو بخوبی سمجھتے تھے۔ ایک بار ایک بلی ایک بچہ جن کر مر گئی۔ ان ہی دنوں ایک کتیا نے بچے دئیے تھے۔ جس کا ڈیرہ امن پارک میں تھا۔ امن پارک ایونیو سٹوڈیو کا ایک گوشہ تھا۔ آغا بلی کا وہ بچہ اُٹھا کر اس کتیا کے پاس لے گئے اور اس سے کہنے لگے، اس کی ماں مر گئی ہے۔ اسے دودھ پلاو¿۔ اگر کوئی حرامزدگی کی تو ٹانگیں توڑ دوں گا“۔ کُتیا نے کوئی چُوں و چراں نہیں کی۔ بلی کا بچہ کتیا کے دودھ پر جوان ہُوا۔
شاہ نور سٹوڈیو کی ایک کتیا آغا طالش سے بہت مانوس تھی، جہاں انہیں دیکھتی دوڑ کر چلی آتی تھی۔ ایک دن آغا امن پارک میں بیٹھے تھے۔ وہ آئی اور ایک ایک کر کے اپنے پانچوں بچے آغا کے قدموں میں رکھ کر خود کہیں غائب ہوگئی۔ دوسرے دن پتا چلا کہ کارپوریشن والوں نے اسے زہر دے دیا ہے۔ آغا طالش کتیا کی چھٹی حس پر بہت حیران ہوئے کہ اسے اپنی موت کا دو دن پہلے پتا چل گیا اور بچے مجھے سونپ گئی۔
آغا طالش نے بچوں کو بڑی حفاظت سے رکھا اور دوستوں سے کہنے لگے: میری سہیلی مجھے بہت بڑی ذمہ داری سونپ گئی ہے، نبھانا پڑے گی۔ چنانچہ ان پانچ بچوں کو ماں بن کر پالا۔ چھوٹے چھوٹے فیڈرز منگوائے۔ باقاعدہ انہیں دودھ پلاتے۔ آہستہ آہستہ وہ پانچوں بڑے ہوگئے اور آغا طالش کو دعائیں دیتے ہوئے امن پارک سے چلے گئے۔
آغا طالش کا بڑھاپے میں ان کی اہلیہ بھابھی نسرین نے بہت خیال رکھا۔ ایک روز صبح کی نماز سے فارغ ہوئیں۔ دعا مانگی اور سوئے ہوئے آغا طالش کو پیار سے دیکھا اور کلمے پڑھ کر ان کے چہرے پر پھونک ماری تو آغا نیند سے بیدار ہو کر کہنے لگے۔ یہ کیا کر رہی ہو، ”پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا“۔ بھابھی نے ایک پھونک اور ماری کہا، آمین!
قاضی جاوید کی تحریر سے لگتا ہے کہ وہ شریف کنجاہی کے بہت قریب نہیں تھے، البتہ کئی حوالوں سے ان کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ہوگئی تھی، مثلاً برطانوی فلسفی برٹرینڈر سل سے دونوں متاثر تھے۔ شریف صاحب نے 1939ءمیں اس کی کتاب ”روڈز ٹو فریڈم“ کا ”آزادی کی راہیں“ کے عنوان سے اُردو میں ترجمہ کیا۔ قاضی صاحب نے رسل کے مضامین کی دو کتابیں ترجمہ کیں، اس کے علاوہ رسل کی زندگی اور افکار پر ایک کتاب بھی لکھی۔ قاضی صاحب اور شریف صاحب میں ایک مشترکہ دلچسپی پنجابی ادب بھی رہا ہے۔ موخر الذکر نے پہلے پہل اردو میں لکھنا شروع کیا، لیکن جلد ہی پنجابی کی طرف لوٹ آئے۔ کہا کرتے تھے، اصل چیز تو مادری زبان ہوتی ہے۔ ہم جس آسانی اور روانی سے اپنی زبان میں لکھ سکتے ہیں، بول اور سوچ سکتے ہیں، وہ کسی سیکھی ہوئی زبان میں ممکن نہیں۔
قاضی جاوید بتاتے ہیں کہ کنجاہی صاحب اپنے ذہنی سفر کے آغاز میں آزاد خیالی اور انکار پسندی کی زد میں رہے تھے، لیکن مشرقی علاقوں میں زندگی بھر یہ رویہ قائم رکھنے کی مثالیں شاذو نادر ہی ملتی ہیں۔ شاید یہاں زندگی اس بوجھ کو اٹھائے رکھنے کی اہلیت سے کسی نہ کسی طرح محروم ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ زندگی کا کوئی موڑ، کوئی حادثہ، کوئی واقعہ یا کسی دانا بزرگ کی کوئی تلقین آزاد خیالوں کو روایتی سانچوں کی طرف واپس لے آتی ہے۔ یوں انکار کے دن لد جاتے ہیں اور اقرار کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے۔ شریف صاحب کی کایا پلٹ کچھ اس طرح بھی ہوئی کہ وہ 1980ءمیں عالمی پنجابی کانگریس کے اجلاس میں شرکت کے لئے انگلستان گئے تھے۔ لندن میں ٹھہرے تو ایک دن ہائی گیٹ قبرستان میں کارل مارکس کی قبر پر چلے گئے۔ وہاں وہی ویرانی تھی جس کا ذکر شاعروں کے ہاں ملتا ہے۔ کنجاہی بہت مایوس ہوئے۔ پنجابی ہونے کے ناتے ان کی توقع غالباً یہ تھی کہ مارکس کے چاہنے والے اور ماننے والے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، لہٰذا اس کے مزار پر میلے کا سماں ہوگا۔ سینکڑوں لوگ منتیں مان رہے ہوں گے۔ سینکڑوں چڑھاوے چڑھا رہے ہوں گے۔ دیگیں پک رہی ہوں گی۔ جرمن زبان میں کوئی قوالی ہو رہی ہوگی اور کونوں میں بیٹھے ہوئے مارکسی ولی لوگوں کو تعویز دے رہے ہوں گے، مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ کنجاہی صاحب مدینہ شریف رُکے تو وہاں کا منظر ہی اور تھا۔ دنیا کے تمام حصوں سے آنے والے ہزاروں لوگ نذرانہ عقیدت پیش کرنے، التجائیں کرنے اور مرادیں پانے کے لئے وہاں رات دن جمع رہتے تھے۔
شریف صاحب کہتے تھے کہ انہوں نے مدینہ شریف اور لندن میں یہ عظیم الشان فرق دیکھا تو انکار کے تمام سوتے خشک ہو گئے۔ چنانچہ اقرار کی طرف پلٹ آئے ۔ شاعری سے توبہ کر لی۔ یوں جب وہ مدینہ سے گجرات آئے تو نہ صرف ان کا نام اہلِ ایمان کی فہرست میں درج ہو چکا تھا، بلکہ ان کا دامن شاعری کے دھبوں سے پاک ہوگیا تھا“۔
جہاں تک راقم الحروف کو یاد ہے ، مَیں نے شریف صاحب سے شاعری چھوڑ دینے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے، شاعری تو سوسائٹی سے تصادم کے نتیجے میں پھوٹتی ہے، مَیں محسوس کرتا تھا کہ میرے اندر لڑائی والی وہ بات رہ نہیں گئی اب اگر میں شاعری کروں تو وہ محض قافیہ بندی ہوگی، شاعری نہیں ہوگی! ٭

مزید :

کالم -