کراچی میں مہاجر ریپبلکن آرمی کی موجودگی !
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی اپنی رپورٹ میں کراچی میں مہاجر ری پبلکن آرمی کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں کراچی بدامنی کیس فیصلے پر عملدرآمد کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے وفاقی حکومت کے کراچی کی صورتحال سے متعلق موقف کی وضاحت طلب کی تھی۔ گذشتہ روز وفاقی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ خفیہ اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ کراچی کے بدامنی سے متاثرہ علاقوں میں سرگرم جرائم پیشہ گروپوں کی صف اول اور صف دوم کی قیادت کی نشاندہی کریں اورابھی تک معلوم نہ ہوسکنے والے مہاجر ریپبلکن آرمی کے گروہ کا سراغ لگائیںتاکہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاسکے۔ رپورٹ میں لیاری میں کسی بڑی کارروائی سے گریز کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔
کراچی میں جرائم نے منظم صورت اختیار کرلی ہے جن سے نمٹنے کے لئے نہایت محتاط اور ذمہ دارانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ کراچی میں پولیس اور رینجرز کی تعداد میں اضافہ کرنے اور لیاری میں ڈبل سواری اور موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان منیر اے ملک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی وفاقی حکومت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی کو سنگین خطرات لاحق ہیں ، بے احتیاطی سے بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد دو برس کے دوران جتنا خون بہا اس کی ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیں۔ بندرگاہ سے اسلحہ اور ممنوعہ اشیاءکے 19 ہزار کنٹینرز غائب ہوئے ، انٹیلی جنس اور دوسرے ادارے کیا کررہے ہیں۔؟یہی اسلحہ بلوچستان اور وزیرستان میں استعمال ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں کراچی کے مسئلہ پر سیاست کررہی ہیں۔ عدالت میں چیف سیکرٹری سندھ اور آئی جی پولیس نے بھی اپنی رپورٹ پیش کی جس پر عدالت نے عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ کراچی میں قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے گذشتہ روز بھی گیارہ افراد قتل کئے گئے۔ کریک ڈاﺅن میں حکومت نے سیاسی کارکنوں سمیت ایک سو سے زائد افراد گرفتار کر لئے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار نے حکومت کی رپورٹ میں مہاجر ری پبلکن آرمی کے ذکر کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ مہاجر ریپبلکن آرمی کا کوئی وجود نہیں۔ نوے کی سیاست کو دہرانا پاکستان کے لئے برا ہوگا ۔ الطاف حسین نے لندن اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ جناح پور کی طرح سنگین اور گھناﺅنا شوشا ہے۔
عدالت عظمی نے کہا ہے کہ کراچی کے حالات کی خرابی کی اصل وجہ شہر میں اسلحے کا بھاری مقدار میں موجود ہونا ہے۔اسلحہ اور دوسرے جنگی سامان سے بھرے ہزاروںکنٹینرز کا غائب ہوجانا، ان کے سلسلے میں کسی کو فکر لاحق نہ ہونا اور ان کی بازیابی کے لئے کوئی سنجیدہ کوششیں نہ کیا جانا بلاشبہ ہمارے معاملات کے نازک ہوجانے کی نشاندہی کررہا ہے۔ گویا ہم آتش فشاں کے اوپر بیٹھے ہیں۔ دشمن ہمارے اندر سرنگ لگا کر داخل ہوچکا ہے۔ ہماری سلامتی اور قومی استحکام کے خلاف ہر روز نئے کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ علیحدگی پسندوں نے اپنے گروہوں کو منظم اور مسلح کر رکھا ہے، بیرونی ممالک میں ان کی طرف سے مسخ لاشوں اور لاپتہ افراد کے افسانے سنا سنا کر خوب پراپیگنڈا کیا جارہا ہے، یہ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ پاکستان کے چالیس ہزار سے زائد بے گناہ اور نہتے معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے دہشت گرد ، اور خود کش حملے کرتے ہوئے مرنے والے اگر لاپتہ ہوجاتے ہیں یا مارے جاتے ہیں تو وہ قانون نافذکرنے والے اداروں اور پاکستان کی محافظ خفیہ ایجنسیوں کو مورد الزام کس طرح ٹھہرا سکتے ہیں۔؟ پاکستان کے خلاف کھلی جنگ میں مصروف اور بیسیوںا فراد کے قاتل افراد اگر قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں تو دشمن کے ان ایجنٹوں کی ہلاکت پر واویلا کرنے والے ان کے گھناﺅنے کردار کو کیوں کر نظر انداز کررہے ہیں۔ ؟یہ معاملات سیاسی سطح پر طے کر لئے جائیں تو دہشت گرد وں کو کسی بھی طرف سے سیاسی حمایت سے محروم ہونا پڑے گا۔
وفاقی حکومت کی طرف سے خفیہ ایجنسیوں کو کراچی شہر میں کسی ممکنہ مہاجر ریپبلکن آرمی نامی گروہ کا سراغ لگانے کے لئے کہا گیا ہے۔ اس طرح کے کسی گروہ کے مجرمانہ کارروائیوں میں سرگرم ہونے کی کوئی خبرکسی طرف سے ماضی قریب میں موصول نہیں ہوئی ۔ یہ وفاقی حکومت کے ذرائع کی طرف سے ایک انکشاف ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ماضی بعید میں ایسا کوئی گروہ تیار کرنے کا کسی کا پروگرام رہا ہو۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ اس پر عملدرآمد سے گریز کیا گیا۔ اب جبکہ حکومت کی طرف سے کراچی کے مسئلہ پر کراچی میں وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا جارہا ہے۔ اگر یہ ماضی کا مسئلہ رہا بھی ہو تو اس موقع پر جب کہ کراچی کے سلسلے میں سب متعلقہ فریقوں میں امن و امان کے حوالے سے تمام معاملات پر افہام و تفہیم کی ضرورت ہے ایسے گڑے مردے نہ ہی اکھاڑے جائیں تو بہتر ہے۔ آگے بڑھنے کے لئے ایک دوسرے کے ماضی کے رویوں کو زیر بحث لانے سے بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے اور آگے بڑھنے کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ مختلف علاقوں میں بڑے بڑے تہہ خانوں کا اسلحہ سے بھر ا ہونا ہے ۔ بہتر ہے کہ سب سیاسی جماعتیں سب سے پہلے اس پہلو پر توجہ مرکوز کریں۔ حالات کی ناسازگاری کی بڑی وجہ بہت سی سیاسی قوتوں کے مسلح ونگز کا ہونا ہے۔ اسلحہ کی موجودگی میں کسی کا بھی ٹھنڈے دل ودما غ کے ساتھ قومی مفاد میں معاملات کو نمٹانا ممکن نہیں۔ لیکن شہر کو اسلحہ سے پاک کرنے کے لئے اپنے مسلح گروہوں کو غیر مسلح نہ کرنے کے بہانے تراشنے کی بھی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ قوم وملک کی بقاءکا مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان نے ہمیشہ متحد اور باوقار رہناہے، اور پاکستان کسی طرح کے بھی علحدگی پسندوں ، دہشت گردوںاور تخریب کاروں سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ سیاسی سطح پر مختلف گروہوں کو ایک میز پر لانے ، مذاکرات اور سیاسی افہام و تفہیم سے معاملات کو نمٹانے کے لئے اب تک بہت وقت ضائع ہوچکا۔ قوم نے بہت کچھ بھگت لیا، مذاکرات کا عمل اب ہر طرف سے اخلاص اور درست نیت کے ساتھ آگے بڑھایا جانا چاہئیے۔ قوم پوری طرح چوکس ہے ، وہ ہر رہنما کے طرز عمل کا بغور مشاہدہ کررہی ہے۔ سیاسی جماعتوںکے اپنے کارکن اورارکان اسمبلی بھی قومی مفاد میں صحیح سمت اختیار کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اوپر کی قیادت کے قریب رہنے کے لئے اگر وہ ان کی پالیسیوں پر مصلحتاً خاموش رہنے کا رویہ اپناتے بھی رہے ہیں تو اب قوم و ملک کی بقاءکے تقاضوں کے پیش نظر اس رویے کی مزید گنجائش نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کھل کر پارٹی کے بجائے قوم و ملک کے لئے پالیسیوں پر زور دیا جائے ، برملا اپنے جذبات کا اظہارکیا اور سیاسی قیادت کو صحیح رخ دیا جائے۔ اب تک مذاکرات اور مصلحتوں کے معاملات طول پکڑتے رہے ہیں۔ ایک قومی پلیٹ فارم پر آکر اگر کوئی گروہ اپنا رویہ درست کرنے اور قومی مفاد کے آگے سرنڈر کرنے کو تیار نہیں ، تو پھر اس کے مسلح لوگوں اور اس کے اسلحہ کے انباروں سے قوم کو مل کر نمٹنا ہہوگا۔
وفاقی حکومت نے کراچی کی صورت حال کے متعلق اپنے موقف کی وضاحت کے لئے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ بھی پیش کی ۔سوکی لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں سرگرم جرائم پیشہ گروہوں ان کے سرپرستوں اور ان کے اسلحہ کے ذخائرکا سب کو علم ہے۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو اس کام پر مزید وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ضرورت ملک سے بدامنی کو ختم کرنے اور ملکی استحکام کے لئے سیاسی سطح پر متفقہ طور پر بنیادی اور ضروری فیصلے اور ا قدامات کرنے کی ہے۔ ہر سطح پر نیک نیتی اور مسائل حل کرنے کا عزم موجود ہو تو قومی اتفاق رائے سے ملکی معاملات کو قومی مفاد میں نمٹانا قطعی مشکل نہیں۔ وفاقی حکومت کو کراچی میں کابینہ اجلاس کے وقت اور جگہ کے تعین اور متعلقہ لوگوں کو اس کی اطلاع مزید وقت ضائع کئے بغیر دینی چاہئے۔ کراچی پاکستان کا اقتصادی مرکز ہے جس میں ملک کے ہر حصے کے لوگ رہتے ہیں۔ وہاں رہنے والے تمام پرامن پاکستانیوں کو قانون اور آئین کی نظر میں برابر حقوق حاصل ہیں ، کوئی بھی ایک گروہ کسی دوسرے گروہ کو نہ کراچی سے نکال سکتا ہے نہ ختم کرسکتا ہے نہ ہراساں کرکے دبا سکتا ہے۔ اب بھتہ خوروں اور قبضہ گروپوں کا دور ختم ہوگا ، قانون اور حکومت اپنی رٹ قائم کریں گے۔ امن کے مقصد کے لئے ہر کسی کے ساتھ انصاف اور ہر کسی کی عزت اور وقار کو ملحوظ رکھا جائے گا۔اسی سے قوم وملک کا وقار بنے گا۔ بدامنی اور انتشار پیدا کرنے والے پاکستان کو کمزور کرنے سے بھی زیادہ اقوام عالم کی نظر میں ہمارے قومی وقار اور عزت کو خاک میں ملانے کے درپے ہیں۔ اب ایسے قانون شکن مجرموں کی سرکوبی کا وقت آن پہنچا ہے ۔ قوی امید ہے کہ اس سلسلے میں ملکی سیاسی قیادت اب کسی طرح کی کوتاہی کا ثبوت نہیں دے گی۔ اگرسیاسی مصلحتوں اور قومی مفاد کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے احکام اور فیصلوں کو بھی پیش نظر رکھا جائے تویہ چیزیں شہریوں کو جان ومال کا تحفظ دے کر ان میں اعتماد اور قومی تفاخر کا احساس پیدا کریں گی۔ انشاءاللہ۔ ! ٭