دھرنوں کی سیاست: قومی المیہ

دھرنوں کی سیاست: قومی المیہ
دھرنوں کی سیاست: قومی المیہ
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حالیہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد تمام نمائندہ قوتوں اور ریاست کے تمام ستونوں نے سیاسی استحکام جمہوریت کے فروغ اور اقتصادی ترقی کے لئے جدوجہد کے ساتھ نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔افواج پاکستان کی بے مثال جرا¿ت سے دہشت گردی میں حوصلہ افزا کمی ہوئی اور قوم نے سکون کا سانس لینا شروع کیا۔حکومت کو بھی اطمینان کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کا موقع اور دوست ممالک سے بجلی ،ٹرانسپورٹ، صنعتی اور اقتصادی ترقی کے معاہدوں پر پیش رفت ہوتی نظر آ رہی ہے۔ماضی کی دو بڑی متحارب سیاسی پارٹیوں نے دانشمندی کا دامن تھامتے ہوئے صحت مند سیاست کے فروغ اور ملکی ترقی کے لئے تعاون کا فیصلہ کیا ہے اور افراتفری،سیاسی انتشار سے عاجز قوم کو سکھ کا سانس ملا۔یکایک نہ جانے کس کی نظر لگی کہ دھرنا سیاست نے آ دھرنا دیا۔

راقم الحروف کا تعلق کسی سیاسی شخصیت یا جماعت سے نہیں۔میری پارٹی پاکستان ہے اور صرف وطن عزیز کے مفاد میں لکھتا ہوں۔غرض پاکستان کے استحکام، خوشحالی اور ترقی سے ہے۔ملک کا آئین امورِ حکومت انجام دینے اور عوام اور حکمرانوں کے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے اور اس میں اصول و ضوابط اور قوانین و طریق کار موجود ہیں، جن کے ذریعے کوئی شخص اور ادارہ اپنی داد رسی کر سکتا ہے۔اگر آئینی اصول و ضوابط سے انحراف کرکے طاقت کے ذریعے فیصلوں پر مجبور کیا جائے تو معاشرہ افراتفری اور خون خرابے کا شکار ہو جائے گا۔موجودہ صورت حال آئینی طریق کار سے اغماض یا انحراف کا نتیجہ ہے۔موجودہ صورت حال کے سٹیک ہولڈر عمران خان جن کا موقف ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔وہ کسی عدالتی تحقیقات سے پہلے نوازشریف کے استعفے پر بضد ہیں؟حکومت کی تبدیلی کے بغیر دھرنانہیں چھوڑیں گے۔ نوازشریف استعفے کے مطالبہ کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔پارلیمنٹ یعنی اراکین اسمبلی نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔سول سوسائٹی ، بار کونسلز بھی عمران خان کے موقف کی مخالف ہیں۔عمران خان کا موقف اس لئے بھی درست نہیں کہ انتخابات کے وقت نگران حکومت تھی۔دھاندلی ہوئی ہے تو ذمہ دار نگران حکومت ہو سکتی ہے نا کہ موجودہ وزیراعظم۔
عمران خان کا موقف ہے کہ نوازشریف کا استعفیٰ اس لئے مانگ رہے ہیں کہ وہ تحقیقات پر اثر انداز نہ ہوں تو بالفاظ دیگر عمران خان کو عدلیہ پر بھی اعتماد نہیں کہ وہ وزیراعظم کے دباﺅ میں آ جائے گی۔ عمران خان کے مطابق یہ اسمبلی جعلی ہے،اسے توڑ دیا جائے،یعنی 30سیٹوں والی پارٹی کی بات درست مان کر 310سیٹوں کے ایوان کے ممبران کا استحقاق رکنیت ختم کر دیا جائے۔ عقل و دانش اور سیاست گردی کا یہ معیارسمجھ سے بالاتر ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری اسلام آباد میں نظام کی تبدیلی کے خلاف دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، جیسے نظام ریت کا گھروندہ ہے کہ ایک گرا کر دوسرا بنا لو۔ملکی آئین میں نظام کی تبدیلی کا طریق کار موجود ہے۔یہ زیبرا کراسنگ نہیں جو سڑکوں پر پایا جاتا ہے۔آپ کو اپنی سحر انگیز شخصیت اور پُر تاثیر خطابت پر اور اپنے موقف کی حقانیت پر اتنا بھروسہ ہے تو بیرون ملک جانے کی بجائے وطن کے کونے کونے میں عوام کو اپنے منشور کا ہمنوا بنائیں،اسمبلی میں اکثریت لے کر داخل ہوں اور ووٹ کی طاقت سے نظام کو تبدیل کر دیں۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے گزارش ہے کہ دھرنوں سے اپنی بات منوانے کے رواج کو فروغ مت دیجئے۔سیاسی دھرنوں سے بات نکلی تو بہت دور تک جائے گی۔پھر فیکٹریوں کے مزدور، یونیورسٹیوں کے طلبہ، دفاتر میں کلرک ہر جگہ دھرنے ہی دھرنے ہوں گے، اگر غیر منتخب لوگ ایک منتخب ایوان کو دھرنوں کے ذریعے ختم کرائیں گے تو کل کو شوکت خانم کو چندہ دینے والے لوگ بھی دھرنا دینے آ جائیں گے اور مائنس عمران خان حساب کتاب اور انتظام و انصرام کا مطالبہ کریں گے۔عوامی تحریک کو چندہ دینے والے لوگ مائنس طاہرالقادری انتظامیہ کے لئے دھرنا دینے آ جائیں گے۔عوامی تحریک اور تحریک انصاف سے زیادہ عوامی حمایت رکھنے والی مذہبی، سیاسی جماعتیں، مسلم لیگ، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، سنی تحریک، ایم کیو ایم، جے یو آئی کئی دیگر مذہبی تنظیمیں اپنے مسالک، اپنے نظریات کے لئے دھرنے دے سکتی ہیں اور اس طرح ملک ہروقت دھرنوں کی زد میں رہے گا ۔
اس وقت وطن عزیز سنگین خطرات سے دوچار ہے۔افواج پاکستان اندرون ملک دہشت گردی سے نبردآزما ہیں۔اسلام دشمن مسلم کش منصوبے بنا رہے ہیں اور اسلامی دنیا اور پاکستان کی جغرافیائی حدود کی از سر نو تعین کے لئے بھیانک سازشیں کررہے ہیں۔خدارا اپنے موقف میں حقیقت پسندی لایئے، غیر لچکدار رویے سے عوام یہ سوچنے پر مجبور نہ ہوں کہ یہ سب کچھ نظام کی بہتری کے لئے نہیں ،بساط لپیٹنے کے لئے ہو رہا ہے۔

مزید :

کالم -