خلائی مخلوق کے متعلق روسی تحقیق

خلائی مخلوق کے متعلق روسی تحقیق
خلائی مخلوق کے متعلق روسی تحقیق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ بہت دلچسپ با ت ہے کہ جن بھوت اور اجنبی مخلوقات کے متعلق عام لوگوں کے تجربات اور مشاہدات کی تصدیق اب سائنس بھی کررہی ہے۔ جنات اور بھوتوں وغیرہ کی طرف سے لوگوں کو تنگ کئے جانے کو سائنسی فکر رکھنے والے لوگ محض لوگوں کا واہمہ ، ہسٹریائی کیفیت اور مختلف بیماریوں کا نام دے دیتے ہیں، لیکن اس بات کی تعبیر نہیں کرپاتے کہ ایک بیمار اور کمزور و لاغر انسان میں ایک دم ایسی طاقت کہاں سے آجاتی ہے کہ آٹھ دس طاقتور افراد بھی اس پر قا بو نہیں پا سکتے ؟یہ کیسے ممکن ہو جاتا ہے کہ ایک لیٹاہوا انسان یا گھر کی مختلف اشیاء فضا میں کئی کئی گز اونچی معلق ہوجاتی ہیں۔ کسی کے لگائے بغیر مختلف اشیاء کو آگ لگ جاتی ہے۔ گھر کی چھت پریا گھر کے ارد گرد کوئی بھی نہیں ہوتا، لیکن گھر میں پتھر گر رہے ہوتے ہیں؟پاکستان کے عظیم جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے چند روز قبل روزنامہ جنگ کے اپنے کالم میں اپنے دوست محسن بھوپالی کا ایک شعردرج کیا ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’مَیں ہر افسانے کو پوری توجہ سے سنتا ہوں، اس لئے کہ اکثر حقیقت کے بھی بہت سے افسانے بن جایا کرتے ہیں‘‘۔ ہم اپنے ڈر اور خوف کی جبلت کو مہمیز دینے اور بچوں کو ڈرانے کے لئے جن اور بھوت کا نام استعمال کرتے چلے آئے ہیں ، انہیں مافوق الفطرت قوتوں کا نام دیتے ہیں، لیکن ان کے متعلق کبھی سائنسی انداز میں تحقیق کی کوشش کسی سطح پر نہیں کرسکے، جبکہ ذہین اور مستعد قوموں نے دوسرے سیاروں سے آنے والی اڑن طشتریوں اورخلائی مخلوق کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد ان کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ تحقیق کی اور اس مخلوق سے روابط قائم کئے۔
ہم جانتے ہیں کہ سب سے پہلے سوویت یونین نے گزشتہ صدی کے پانچویں عشرے میں خلا ء کے راز جاننے کے لئے اپنے راکٹ خلاء میں بھیجنے شروع کئے۔ اس وقت سوویت یونین کی طرف سے تسخیر کائنات کے کاموں میں اس مہم میں پیش رفت اوراس وقت اپنے خلائی پروگراموں میں امریکہ پر بالادستی یقیناًروس کی اڑن طشتریوں اور خلائی مخلوق سے متعلق تحقیق اور بہت سے رازوں سے آگاہی کی وجہ سے تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعدجہاں اس کے خلائی اور دفاعی پروگراموں کو ضعف پہنچا، وہاں اس کے بہت سے راز بھی اہل مغرب کے ہاتھ لگے۔اسی طرح کے اہم رازوں میں سے خلائی مخلوق کی مختلف نسلوں سے متعلق تیار کی گئی وہ کتاب بھی ہے جو Alien Races یا خلائی مخلوق کی نسلیں کے نام سے پہلی بار1946ء میں شائع کی گئی، اس کے بعد مختلف وقفوں سے 1988ء تک تازہ حقائق شامل کرکے شائع کی جاتی رہی۔یہ کتاب صرف روسی حکومت کے چوٹی کے حکام ، مسلح افواج کے سربراہوں ، چند اہم سفارت کاروں اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ عہدے داروں کو دی جا ی تھی یا چند سائنسدانوں کی اس تک رسائی تھی، کتاب کے آغا ز میں اس بات کی سخت ممانعت کی گئی تھی کہ یہ کتاب متعلقہ شخض کے علاوہ کسی بھی دوسرے شخص کو نہیں دکھائی جانی چاہئے۔
ایک امریکی نوجوان تفریحی دورے پر یوکرائن میں تھا، جہاں پیٹرو نامی ایک روسی نوجوان سے اس کی دوستی ہو گئی، جس کا والد کسی وقت سوویت یونین کا اہم سفارت کار تھا۔ امریکی نوجوان اپنے روسی دوست پیٹرو کے ہمراہ اس کے والد سے ملنے پرتگال گیا،جہاں اس نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد رہائش اختیار کرلی تھی۔ اس کی کتابوں سے اس کے ہاتھ یہ کتاب لگ گئی، جسے اس نے انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بعد شائع کرنے کے علاوہ انٹرنیٹ پر بھی عام لوگوں کے لئے دے دیا۔اس میں مختلف سیاروں سے آنے والی مخلوقات کے نام حلیے اور ان کی اوسط عمر، صلاحیت کار، انہیں کرہ ارض پر سب سے پہلے اور آخری بار کہاں دیکھا گیا، کے متعلق معلومات دی گئی ہیں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے بعض انسانوں اور جانوروں کا خون پینے والی نسلیں بھی ہیں۔ بعض ایسی مخلوقات بھی ہیں، جنہوں نے بیس بیس دوسرے سیاروں کو اپنی کالونی بنا رکھا ہے ، بعض کا حلیہ اور صلاحیت کار بالکل ویسی ہی بتائی گئی ہے جیسی کہ ہم اپنی روائتی کہانیوں میں جن یا بھوت کی بتاتے ہیں۔ زیادہ کے قد چار فٹ سے چھ سات یا آٹھ فٹ تک ہی بتائے گئے ہیں۔ ان میں ایسی مخلوق کے متعلق بھی بتایا گیا ہے جو ہماری کہکشاں کے باہر دوسری کہکشاؤں سے آتی ہیں،یعنی ہمارے راکٹ اگر ادھر کا سفر شروع کریں تو وہاں روشنی کی رفتار سے چلتے ہوئے بھی سینکڑوں برسوں بعد پہنچیں۔
ان مخلوقات میں عموماً دو سو سے لے کر تین چار سو برس تک زندہ رہ سکنے والی مخلوقات موجود ہیں۔ ان سے تقریبا ہرمخلوق انسان کے مقابلے میں بہت ذہین اور ٹیکنالوجی میں آگے ہے۔ ان میں ایسی مخلوقات بھی ہیں جو کروڑوں میل کا فاصلہ پندرہ بیس منٹ میں طے کرکے ہماری زمین پر پہنچ جاتی ہیں۔ ان کی اڑن طشتریاں یا سفر کے ذرائع مختلف اور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ کتاب میں یہ بھی ذکر ہے کہ مختلف سیاروں سے تعلق رکھنے والی ایسی پانچ بے حد مضبوط مخلوقات کی ایک کونسل بن چکی ہے جو کرۂ ارض پر ہم انسانوں کی زندگی کا تحفظ کرنا چاہتی ہے۔ یہ مخلوقات ہمیں دوسری ظالم قسم کی مخلوقات سے تحفظ دے رہی ہیں۔ ان کے پاس دوسری مخلوقات کو تباہ کردینے والے ہتھیار بھی ہیں۔ دوسرے سیاروں پر ایسی مخلوقات مختلف مواقع پر ایک دوسرے کو تباہ کر چکی ہیں یا دوسرے سیاروں کو اپنی کالونی بنا چکی ہیں۔کتاب میں اس طرح کی تمام مخلوقات کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ ایک آدھ کی تصویر نہیں دی جا سکی۔ اس کتاب میں کل بیاسی مخلوقات کے متعلق بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک الگ ویب سائٹ میں مختلف سیاروں سے تعلق رکھنے والی ان چھ مخلوقات کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو ہماری زمین پرقبضہ کرکے ہمیں اپنا غلام بنا لینا چاہتی ہیں۔
ایک مخلوق کے مختلف مواقع پر زمین پر آ کر دو سے زیادہ امریکی صدور سے ملاقات کرنے کی دلچسپ بات بھی بتائی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مخلوق کے نمائندے سوویت یونین کی حکومت سے بھی کئی بار مل چکے ہیں؟ یہ خبر بھی دی گئی ہے کہ اس مخلوق کی طرف سے امریکہ اور روس کو محدود قسم کی ٹیکنالوجی بھی دی گئی ہے اور اس کے عوض زمین پر اپنے تجربات جاری رکھنے کا تعاون حاصل کیا گیا ہے، لیکن ان طاقتور مخلوقات کی طرف سے انسان کے ساتھ کسی سمجھوتے کی اہمیت ایسی ہی ہے، جیسی امریکہ جیسی طاقت کے کسی بھی کمزور افریقی یا ایشیائی ملک سے معاہدے کی! ان تمام مخلوقات کے شپ (اڑن طشتریاں) جن پر وہ سفر کرتی ہیں، اپنی رفتار کے لحاظ سے انسانی عقل و فہم سے بالا تر ہیں۔ ایک سیارے کی مخلوق جس کی آبادی تقریبا پچاس لاکھ ہے، اس کے پاس ایک ایسا شپ بھی ہے، جس پر بیک وقت پچیس لاکھ افراد سوار ہو سکتے ہیں۔ان میں سے اکثر مخلوقات انسانی اور اپنی نسل کی مخلوط نسل تیار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ بعض کے زمین پر آنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ بعض مخلوقات تو اپنے سیارے کے علاوہ ہماری زمین کو بھی تقریباً اپنا دوسرا گھر بنا چکی ہیں۔
ان میں بہت سی مخلوقات ایسی ہیں جو مسلسل انسانوں اور بڑے ملکوں کی حکومتوں سے رابطے میں ہیں۔ ایک مخلوق ایسی بھی ہے جس کا بڑا سا انڈے جیسا سر او ربڑی بڑی آنکھیں ہیں اور چار فٹ لمبا کمزور سا جسم ہے، لیکن ذہانت اور ٹیکنالوجی میں ہمارا ان سے کوئی مقابلہ نہیں۔ دوسرے سیاروں اور دوسری کہکشاؤں کے علاوہ خود ہماری زمین کے چاند سے آنے والی مخلوق بھی موجود ہے جو چاند پر سطح زمین سے نیچے کالونیاں بنا کر رہتی ہے۔ ایک مخلوق کا چوڑا سا مینڈک جیسا چہرہ ہے۔ کچھ سیاہ اور خوفناک سی آنکھوں والی مخلوقات ہیں۔کتاب میں سیرین مخلوق کا خصوصی ذکر ہے، جس کا صدیوں پہلے سے ہماری زمین سے رابطہ چلا آرہا ہے۔ وہ قدیم ترین مخلوق ہے اورہر طرح کے علوم وفنون میں ماہر۔ اس نے قدیم مصریوں کو علم فلکیات ، علم تعمیر، طب وغیرہ کی تربیت دی تھی۔اسی مخلوق کی مدد سے مصری اپنے اہرام تعمیر کرنے میں کامیاب ہو سکے۔سیرین کا جنوبی امریکہ کی مایا تہذیب سے بھی گہرا تعلق تھا۔ مایا تہذیب اور مصری قدیم تہذیب کے علاوہ انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں دوسرے سیاروں سے آنے والوں سے ہم بہت کچھ سیکھتے رہے ہیں۔انسان نما ایسی مخلو ق کا ذکر بھی ہے جو انڈے دیتی ہے۔ تقریباً چھپکلی کے منہ والی مخلوق بھی بہت باکمال اور ظالم قسم کی مخلوق ہے۔
کم سے کم قد والی مخلوق دو فٹ کی ہے۔ ہر مخلوق کی گلیکسی یا سیارے کا نام بھی کتاب میں بتایا گیا ہے۔ کتاب کے ماحول سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے سیاروں کی ان انتہائی طاقتور اور ترقی یافتہ مخلوقات کی موجودگی میں کرہ ارض پر ہماری موجودگی محض ان کی خوشنودی پر منحصر ہے۔ شاید وہ اسی طرح زمین پر اس کائنات کی ایک منفرد مخلوق ہونے کی بناء پر ہمارا وجود برقرار رکھنے کے حق میں ہیں جس طرح ہم انسان اس کرۂ ارض پر اپنے علاوہ دوسرے ہر قسم کے جانداروں کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ بعض مخلوقات کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ دوسرے سیاروں سے بھی خاص قسم کی معدنیات حاصل کرتی ہیں اور ہماری زمین سے بھی کچھ ایسی ہی نایاب قسم کی معدنیات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔انسان انہیں نہ خود کو اغوا کرنے سے روک سکتے ہیں اور نہ ان کی دوسری سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ انہی میں موجود انسان کی خیر خواہ قسم کی مخلوق کا ہمیں مشورہ ہے کہ ہم آپس کی جنگیں ختم کریں ، ایک دوسرے کی تباہی کی ٹیکنالوجی کے بجائے اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور زیادہ سہولتیں حاصل کرنے کی ٹیکنالوجی پر توجہ د یں، انتشار و افتراق کے بجائے ایک سمت میں چلیں۔

مزید :

کالم -