کیا ہم پہاڑوں سے بھی اونچی عمارتیں بناسکتے ہیں؟

کیا ہم پہاڑوں سے بھی اونچی عمارتیں بناسکتے ہیں؟
 کیا ہم پہاڑوں سے بھی اونچی عمارتیں بناسکتے ہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)بلند سے بلند تر عمارتیں تعمیر کرنا ہمیشہ سے انسان کا خواب رہا ہے تاکہ وہ اونچے پہاڑوں کو بھی شکست دے سکے اور اپنی ایجاد کردہ ٹیکنالوجی کی برتری ثابت کرسکے لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔تو کیا مستقبل میں ایسا ہوسکے گا؟ کیا ہم پہاڑوں سے بھی اونچی عمارتیں بناسکیں گے؟ موجودہ ٹیکنالوجی کو مدنظر رکھا جائے تو اس کا جواب جزوی طور پر ’’ہاں‘‘ میں ملتا ہے کیونکہ شاید ہم اتنی بلند عمارتیں ضرور بنالیں جو اوسط بلندی والے کسی پہاڑ سے زیادہ اونچی ہوں لیکن ماؤنٹ ایورسٹ یا کے ٹو جیسے عظیم الشان پہاڑوں کی بلندیوں کو شکست دینا ہماری موجودہ تعمیراتی ٹیکنالوجی کے بس سے باہر ہے۔تاریخ کی بات کریں تو پتا چلتا ہے کہ غزا کا عظیم ہرم (گریٹ پیرامڈ) اپنی 146 میٹر بلندی کے ساتھ تقریباً 3900 سال تک دنیا کی بلند ترین عمارت کے درجے پر فائز رہا۔ برطانیہ میں تعمیر کیے گئے لنکن کیتھڈرل نے بالآخر 1311 عیسوی میں اپنی 160 میٹر اونچائی کے ساتھ دنیا کی بلند ترین عمارت کا اعزاز حاصل کرلیا۔انیسویں اور بیسویں عیسوی میں اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے کا رواج زور پکڑنے لگا جس نے اکیسویں صدی کی آمد پر اور بھی زیادہ شدت اختیار کرلی۔ قصہ مختصر یہ کہ اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت ’’برج خلیفہ‘‘ ہے جو دبئی میں تعمیر کی گئی ہے اور اس کی اونچائی 830 میٹر (یعنی 2722 فٹ) ہے۔ فی الحال یہ تو نہیں بتایا جاسکتا کہ برج خلیفہ کتنے سال تک دنیا کی بلند ترین عمارت رہے گا لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ اس سے بھی زیادہ طویل عمارتوں کے منصوبے بن چکے ہیں اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔