فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 197

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 197
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 197

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجابی فلموں کے بے تاج بادشاہ سدھیر کہلاتے تھے۔اُس زمانے میں ایکشن فلموں کی ضرورت تھے۔ لہذا سدھیر نے جنگجو ہیرو کا لقب پایا تو یہ ان کا حق تھا۔وہ صحیح معنوں میں عوام کے پسندیدہ ہیرو تھے۔ لیکن اُس دور میں پنجابی فلمیں محض مار دھاڑ اور جنگ و جدل تک ہی محدود نہ تھیں۔ معاشرتی‘ رومانی‘ مزاحیہ ہر طرح کی فلمیں بنائی جاتی تھیں اور سبھی کامیاب ہوتی تھیں۔
سنتوش صاحب پنجابی کی رومانی میوزیکل اور معاشرتی فلموں میں کام کرتے تھے۔ ان کی کامیابی پنجابی فلموں کی بھی ایک لمبی قطار ہے جو ’’چن وے‘‘ سے شروع ہو کر خود اُن کی اور صبیحہ خانم کی بنائی ہوئی فلموں تک جا پہنچتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سنتوش کمار نے حقیقتاً پاکستان کی فلمی دنیا پر طویل عرصے تک حکمرانی کی۔ نمایاں بات یہ تھی کہ وہ کیونکہ تعلیم یافتہ اور مہذّب انسان تھے اسلئے سوشل اور سرکاری حلقوں میں بھی ان کی پذیرائی ہوتی تھی۔ ان کے مقابلے میں دوسرے فن کار جھجک یا احساس کمتری کے باعث ایسی محفلوں میں شریک نہیں ہوتے تھے اور فلمی دنیا یا سٹوڈیو کی چار دیواری تک ہی محدود رہتے تھے۔ ان تمام خوبیوں اور امتیاز کے باوجود سنتوش میں تصنّع یا بناوٹ نام کو نہ تھی۔ ہر ایک سے بے تکلیف اور خلوص کے ساتھ ملتے تھے۔ جب انتہائی عروج پر تھے اس وقت بھی ان کا وہی انداز اور برتاؤ تھا جو آخری دنوں میں بھی رہا۔ عروج و زوال سے ان پر کوئی فرق نہ پڑا۔ وہ بہت خوش لباس تھے اور بڑے سٹائلش انداز میں زندگی بسر کرنے کے عادی تھے اس کے باوجود ان کی سادگی اور سادہ دلی نمایاں نظر آتی تھی۔ غرور کا تو ان میں نام و نشان تک نہ تھا اور نہ ہی دوسروں کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کرتے تھے جس سے کسی کی سُبکی یا توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ ایسے طرح دار اور وضع دار لوگ اب کہاں۔ ان کے پاسنگ بھی کوئی دیکھنے میں نہیں آتا۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 196 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان کی سادگی کا نمونہ یہ بھی تھا کہ کوٹھی کے برآمدے میں بیٹھے شیو بنا رہے تھے۔ جھاگ سے تمام چہرہ بھرا ہوا تھا ۔فوم کا ان دنوں رواج نہ تھا۔ شیونگ کریم ہی استعمال کی جاتی تھی اور اُسے برش کی مدد سے بہت دیر تو چہرے پر رگڑنا پڑتا تھا تب کہیں جا کر اچھّی اور آسان شیو ہو سکتی تھی۔
سنتوش صاحب نے شیونگ ریزر سنبھال کر شیو کا آغاز کیا اور ہم سے کہا ’’مولانا آپ دونوں اس وقت کہاں اور کیسے؟ یہ تو شرفا کی ملاقات کا وقت نہیں ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’سنتوش صاحب یہ بزنس وزٹ ہے یعنی کاروباری ملاقات۔‘‘
بولے ’’اتنی ا نگریزی تو میں بھی سمجھتا ہوں کیا ہوا جو عثمانیہ یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہوں۔‘‘
’’وہ تو اردو میڈیم یونیورسٹی تھی جس کا اصل نام جامعہ عثمانیہ ہے، سنا ہے وہاں مولوی پڑھا کرتے تھے‘‘۔ ہم نے چھیڑا۔
سنتوش صاحب خوش دلی سے قہقہہ مار کر ہنسے ،پھر کہا ’’مولانا یہ بات کسی پڑھے لکھے کے سامنے نہ کہہ دینا۔ بڑی شرمندگی ہوگی۔‘‘
ہم نے کہا ’’اسی لئے آپ کے سامنے کہی ہے‘‘
سنتوش صاحب پھر ہنسنے لگے۔ ’’یہ فقرہ بازی کا میچ کب تک جاری رہے گا؟ بھائی مطلب کی بات کیجئے مجھے جانے کی جلدی ہے۔‘‘
طارق صاحب نے کہا ’’سنتوش صاحب‘ آپ کو آفاقی صاحب کی فلم کی کہانی کا علم تو ہے نا؟‘‘
بولے ’’علم تو ہے مگر تفصیل سے نہیں سنی‘‘
’’اب یہ فلم ہم دونوں مل کر بنا رہے ہیں‘‘ طارق نے بتایا۔
’’بہت خوب اللہ رحم کرے فلمی دنیا پر۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’اس میں ایک مہمان اداکار کا کردار آپ کیلئے ہے۔‘‘
’’سبحان اللہ بھئی اچھّی ذاتی فلم بنا رہے ہو۔ بسم اللہ ہی غلط کر دی۔ مجھے مہمان داری کا شوق نہیں ہے۔ کوئی اور ڈھونڈ لیجئے۔‘‘
ہم نے کہا ’’خیر یہ بحث تو بعد میں ہو جائے گی اس وقت آپ جلدی میں ہیں۔ مختصر یہ کہ اس کہانی میں مرکزی کردار صبیحہ بھابھی کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔‘‘
’’صبیحہ نے تو فلموں میں کام کرنا ہی چھوڑ رکھا ہے۔‘‘
’’دیکھیں، سنتوش صاحب اگر انہوں نے کام نہیں کیا تو یہ فلم ہی نہیں بنے گی۔‘‘
’’یہ دھمکی ہے؟‘‘
’’جی نہیں حقیقت ہے اور آپ کو ہماری سفارش کرنی پڑے گی۔‘‘
بولے ’’دیکھئے مولانا وہ میری بیوی ضرور ہے اور ایک تابعدار بیوی ہے۔ مگر گھر کی حد تک۔ اس کی اداکاری میں میرا کوئی دخل نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس معاملے میں کسی کی سنتی ہے۔‘‘
’’ہم تو سفارش کے لئے کہہ رہے ہیں۔ حکم دینے کے لئے تو نہیں کہا۔‘‘
’’مشکل ہے مولانا بلکہ ناممکن ہے‘‘
ہم نے کہا ’’آج پتا چل گیا کہ آپ کا کتنا رعب ہے!‘‘
وہ ہنسنے لگے’’ دانہ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان تِلوں میں تیل نہیں ہے۔ ایسا کریں کہ آپ خود ہی صبیحہ سے بات کرلیں۔‘‘
طارق صاحب بولے ’’سنتوش صاحب! آپ اس معاملے میں بالکل غیر جانبدار ہیں بلکہ ہو سکے تو ہماری وکالت بھی کر دیں۔ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ ‘‘
’’معلوم ہوتا ہے کہ بھیک مانگنے آئے ہو۔‘‘
ہم نے کہا ’’بھیک ہی سمجھ کر ہماری جھولی میں ڈال دیجئے۔‘‘
’’کیا مطلب اپنی بیوی آپ کی جھولی میں ڈال دوں۔ کوئی عقل کی بات کیجئے۔‘‘
’’اچھا اب آپ ہمیں بیگم صاحبہ سے ملا دیجئے۔ آپ کا کام ختم ہوگیا۔‘‘
’’یار بڑے بے دید لوگ ہو۔ خیر‘ صبیحہ سے بات کر کے دیکھ لو‘‘ وہ اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ اس دوران میں انہوں نے شیو مکّمل کر لیا تھا۔ ہم تو ان کی تیزی اور پھرتی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ سیفٹی ریزر ایک طرف سے جو پھیرا تو دوسری طرف تک لے گئے۔ دوچار ہاتھ میں شیو مکمل ہوگیا۔ ہم تو کافی د یر تک ریزر گھستے رہتے تھے اس لئے ا ن کی اس مہارت پر حیران رہ گئے۔ ان سے اظہار کیا تو بولے
’’مولانا مجھ میں اور آپ میں بہت فرق ہے۔‘‘
’’یعنی آپ اداکار ہیں اور ہم رائٹر!‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’جی نہیں میرا چہرہ گول اور پُرگوشت ہے ریزر بہت آسانی سے رواں ہو جاتا ہے۔ آپ کا چہرہ دبلا پتلا ہے۔ ریزر کو شیو کرنے کے لئے بال تلاش بھی کرنے پڑتے ہیں۔ بس یہی فرق ہے۔ آپ ٹھہریں میں صبیحہ کو بھیجتا ہوں۔‘‘
ہم نے کہا ’’سنتوش صاحب باادب باملاحظہ ہوشیار‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ ہم اس وقت پروڈیوسر بن کر آئے ہیں ہماری عزّت کیجئے۔ اس طرح برآمدے میں بیٹھ کر بزنس ٹاک نہیں ہو سکتی۔ ‘‘
’’کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ ہر ایک کو عزّت راس نہیں آتی۔ اسی لئے بعض لوگ زبردستی عزّت کراتے ہیں۔ اچھّا خیر آپ اندر ڈرائنگ روم میں تشریف لے آئیے۔‘‘
’’شکریہ! ‘‘ہم دونوں ان کے ساتھ چل پڑے۔
انہوں نے عزیز کو آواز دی۔ عزیز ان کا قابل اعتماد گھریلو ملازم تھا۔ جس زمانے میں نوکروں کی ریل پیل تھی اس وقت بھی عزیز ملازموں کا داروغہ تھا۔ ہر کام کے لئے عزیز کو ہی آواز دی جاتی تھی۔ آگے وہ خود ہی متعلقہ لوگوں کو پیغام پہنچا کر کام کرا لیتا تھا۔ اس زمانے میں لڑکا سا تھا۔ بوڑھا ہو کر بھی ان ہی کے گھر میں رہا۔ حالات بدل گئے۔ سنتوش صاحب دنیا میں نہ رہے مگر عزیز نے اپنی مالکہ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ آغاز میں بھی صبیحہ خانم کے ساتھ میک اپ باکس اور ناشتے دان سنبھال کر سٹوڈیو آتا تھا اور کئے گزرے دنوں میں بھی یہ فریضہ وہی سرانجام دیتا تھا۔ اب خدا جانے کہاں ہے اس لئے کہ اب تو عرصہ دراز سے صبیحہ خانم بھی نظر نہیں آئی ہیں مگر کسی زمانے میں وہ سائے کی طرح صبیحہ اور سنتوش کے ساتھ رہتا تھا۔
عزیز کسی کونے کھدرے سے نمودار ہوگیا ’’جی شاہ جی؟‘‘
’’دیکھو بیگم صاحبہ کو بتاؤ کہ غریب غربا آئے ہیں اور ان بے چاروں کیلئے کچھ کھانے پینے کا بھی بندوبست کر دو۔‘‘
’’جی بہتر ہے سر‘‘ عزیز زیر لب مسکرایا۔
’’ان سے کہنا کہ انہیں ضروری بات کرنی ہے۔ زیادہ انتظار نہ کرائیں۔‘‘ پھر وہ ہم لوگوں سے مخاطب ہوئے’’ سر آپ لوگ تشریف رکھئے مجھے غسل کی اجازت دیجئے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رخصت ہوگئے۔
صبیحہ خانم کچھ دیر بعد ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔ ان کے پیچھے پیچھے عزیز ٹرالی گھیسٹ کر لا رہا تھا جس میں چائے کا سامان تھا۔ علیک سلیک کے بعد وہ مسکرائیں ’’عزیز نے بتایا ہے کہ آپ کو کوئی ضروری بات کرنی ہے۔‘‘
’’جی تشریف رکھئے‘‘
وہ ایک صوفے پر بیٹھ گئیں۔ ’’فرمائیے‘‘
ہم دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔
وہ بولیں ’’وہ ضروری بات ایک ساتھ کرنی ہے یا باری باری۔‘‘
طارق صاحب نے کہا’’ آپ تو جانتی ہیں کہ آفاقی صاحب ایک فلم بنا رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں میں بھی اس کے مہورت میں گئی تھی کیا وہ مکمل ہوگئی؟‘‘
’’ابھی تو شروع بھی نہیں ہوئی، آپ کے بغیر کیسے مکّمل ہو سکتی ہے‘‘
’’میرے بغیر؟ ‘‘وہ مسکرائیں’’ اس فلم سے میرا کیا تعلق؟ ‘‘
’’آپ اس میں مرکزی کردار کر رہی ہیں۔ یقین کیجئے یہ آپ کی زندگی کا یادگار کردار ہوگا۔ لوگ ’’شکوہ‘‘ کو بھول جائیں گے۔ ‘‘
’’واقعی!‘‘ انہوں نے چائے کی پیالی ہمارے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ ’’مگر آپ تو جانتے ہیں کہ میں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’مگر آپ ایک نئی فلم ’’دامن‘‘ میں کام کر رہی ہیں۔‘‘
’’وہ تو گھر کی فلم ہے‘‘
ہم نے کہا ’’یہ بھی گھر کی فلم ہے ۔ہماری فلم میں آپ کو اپنے گھر جیسا ماحول ہی ملے گا۔‘‘
’’اللہ نہ کرے جو میرے گھر کا ماحول فلم کے سیٹ جیسا ہو۔‘‘ وہ شرارت سے مسکرائیں۔
’’مطلب یہ ہے کہ سب اپنے ہی لوگ نظر آئیں گے، آپ کو غیریت اور بے گانگی کا احساس نہ ہوگا۔ ‘‘
’’مگر میں تو اب کام ہی نہیں کرتی۔ آپ کوئی اور آرٹسٹ رکھ لیں۔ ‘‘
’’تو پھر ’’دامن‘‘ میں بھی کوئی اور آرٹسٹ رکھ لیں۔ ‘‘
’’اوہو۔ آپ سمجھتے کیوں نہیں؟‘‘
’’اچھا یوں کریں کہ آپ کہانی تو سن لیں پسند نہ آئے تو بے شک کام نہ کریں۔‘‘
اتنی دیر میں سنتوش صاحب بھی آگئے۔بولے ’’کہانی ضرور سنیں اور آفاقی صاحب سے سنیں۔ ان کی سنائی ہوئی کہانی پسند ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘‘
ہم نے کہا ’’سنتوش صاحب آپ نے ہماری سفارش کرنے کا وعدہ کیا تھا پورس کے ہاتھی نہ بنیں۔ ‘‘
’’میں کچھ نہیں بولتا۔ آپ لوگ جانیں آپ کا کام جانے۔ مجھے بس ایک چائے کی پیالی مل جائے۔ ‘‘سنتوش صاحب جلدی میں تھے اس لئے چائے پی کر رخصت ہوگئے۔ جاتے جاتے ہم لوگوں سے کہہ گئے ’’کئے جاؤ کوشش میرے دوستو!‘‘
طارق صاحب نے کہانی کا خلاصہ سنایا تو صبیحہ خانم کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی۔
’’کیوں بھابھی کیسی کہانی ہے؟‘‘
’’کہانی تو بہت اچھّی ہے اور کریکٹر بھی بہت اچھا ہے ایسے کریکٹر بار بار نہیں ملتے۔ ‘‘
’’اسی لئے تو آپ کے پاس آئے ہیں۔‘‘
کافی دیر بحث مباحثہ جاری رہا ۔طارق صاحب نے الٹی میٹم دے دیا کہ اگر آپ نے کل تک رضا مندی کا اظہار نہ کیا تو بہت بُرا ہوگا۔
’’کیا ہوگا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’کچھ بھی نہیں بس ہم یہ فلم ہی نہیں بنائیں گے۔ ‘‘
ایک بار پھر بحث اور مذاکرات شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ سنتوش صاحب واپس لوٹ آئے۔
’’ارے آپ لوگ ابھی تک گئے نہیں۔ شاید کھانا کھائے بغیر نہیں جائیں گے۔‘‘
ہم نے کہا ’’سنتوش صاحب جب تک یہ ہامی نہیں بھریں گی اس وقت تک ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ ‘‘
وہ بولے ’’صبیحہ‘‘ ان کے لئے بوریا بستر کا بندوبست کر دو۔ مہمانوں والا کمرا تو خا لی نہیں ہے نوکروں کا ایک کوارٹر خالی ہے وہاں چارپائیاں ڈلوا دو ان کیلئے۔ ‘‘پھر و ہ ہم سے مخاطب ہوئے ’’کوئی کپڑا لتّا بھی ساتھ لائے ہیں یا تن کے جوڑے میں آئے ہیں؟‘‘
’’سنتوش صاحب‘ مذاق نہ کیجئے یہ بہت سیریس بات ہے ۔ہم زندگی میں پہلی فلم بنا رہے ہیں۔ بھابھی سے پہلی بار کوئی فرمائش کی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’مگر یہ تو سوچیں کہ جب دوسرے اپنی فلموں کے لئے کہیں گے تو ہم انہیں کیا جواب دیں گے؟‘‘
’’یہی کہ ایسا کریکٹر ہوگا تو صبیحہ کام کریں گی۔‘‘
وہ صوفے پر بیٹھ گئے ۔’’انکم ٹیکس والوں سے تو جان چھوٹ گئی مگر آپ لوگوں سے چھٹتی نظر نہیں آتی۔‘‘
صبیحہ خانم نے کہا’’ ان کی کہانی اچھّی ہے اور کریکٹر تو ایک چیلنج ہے۔‘‘
’’تو پھر آپ یہ کریں گی نا؟‘‘
سنتوش صاحب نے کہا ’’اب انہیں سوچنے کا موقع تو دیں‘‘
’’کل تک سوچ لیں ورنہ۔۔۔ ‘‘
’’ورنہ کیا؟‘‘
’’ورنہ آپ کے دروازے پر بھوک ہڑتال کر دیں گے۔‘‘ ہم نے کہا
وہ ہنسنے لگے ’’آپ لوگ تو انشورنش ایجنٹ بن جائیں، بہت کامیاب رہیں گے۔‘‘
ہم ان کی کوٹھی سے باہر نکلے تو بہت پُرامید تھے۔ ہم نے کار میں سٹوڈیو جاتے ہوئے پوچھا ’’طارق صاحب۔ آپ کا کیا خیال ہے صبیحہ بھابھی راضی ہوجائیں گی۔‘‘
’’ہنڈرڈ پرسنٹ۔ وہ آرٹسٹ ہیں۔ یہ کریکٹر وہ ہرگز نہیں چھوڑیں گی۔ ‘‘
دوسر ے دن صبیحہ خانم نے فلم میں کام کرنے کی ہامی بھر لی۔ ہم دونوں کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔
ہم نے کہا ’’سنتوش صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ‘‘
’’شکریہ کس بات کا؟ ‘‘وہ بولے ’’میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا‘‘۔
ہم نے کہا ’’غنیمت ہے کہ مخالفت نہیں کی۔‘‘
اس طرح یہ مہم سر ہوگئی۔
سنتوش صاحب نے ہم سے کہا ’’مولانا مجھے کہانی کب سنا رہے ہیں؟ ‘‘
ہم نے کہا ’’جب چاہیں سن لیں۔‘‘
’’کل باری سٹوڈیوز میں میرے دفتر میں وقت رکھ لیں۔ لنچ میرے ساتھ ہی کریں۔‘‘
’’اس کی کیا ضرورت ہے‘‘ ہم نے اخلاقاً کہا۔
’’آپ کو تو نہیں مجھے تو ضرورت ہے، بھوکوں کو کھانا کھلا کر ثواب ملتا ہے۔‘‘
دوسرے دن ہم سنتوش پروڈکشنز کے دفتر میں تھے۔ لنچ کے بعد سنتوش صاحب نیم دراز ہوگئے۔ چائے سگریٹ کا دور چلا اور پھر انہوں نے کہا’’ کافی وقت ضائع کرلیا اب کہانی بھی سنا دیں۔‘‘
ہم نے طارق صاحب کی طرف دیکھا۔
’’آپ ہی سنائیں ‘‘انہوں نے مشورہ دیا۔
ہم سوچ میں پڑ گئے۔
سنتوش صاحب پوچھنے لگے ’’کہانی آپ ہی نے لکھی ہے نا؟ تو پھر سنانے میں کیا رکاوٹ ہے رائٹر لوگ کہانی زیادہ اچھّی طرح سناتے ہیں مگر ذرا تفصیل سے۔‘‘
ہم نے کہانی سنانا شروع کی ہمیں کہانی سنانے کا ڈھنگ کبھی نہیں آیا بلکہ ہم تو لکھا ہوا سکرپٹ بذات خود پڑھ کر بھی نہیں سناتے۔ ڈائریکٹر کے حوالے کر دیتے ہیں۔ وہ خود ہی پڑھ لیتا ہے یا کسی سے پڑھوا کر سن لیتا ہے۔ اس کے بعد جو تبادلہ خیالات کرنا ہو وہ ہو جاتا ہے۔
کمرے میں ہم تینوں کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔ سنتوش صاحب سے کوئی تکلّف بھی نہیں تھا۔ نہ رسمی ماحول تھا۔ پھر بھی ہم نے کہانی سناتے ہوئے غوطے کھانے شروع کر دئیے ۔کبھی کوئی سین بھول جاتے کبھی کوئی اہم واقعہ یاد نہ رہتا اور طارق صاحب لقمہ دیتے۔ سنتوش صاحب پہلے تو سیدھے بیٹھے ہوئے تھے پھر نیم دراز ہوگئے یہاں تک کہ دیوان پر لیٹ گئے۔ ہم نے طارق صاحب کی طرف دیکھا تو وہ خاموش بے تعلقی سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ادھر کہانی تھی کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتی تھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ہم کہتے سوری اس سے پہلے ہم یہ بتانا تو بھول ہی گئے۔
یہاں تک کہ سنتوش صاحب کہنے لگے ’’حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آپ نے اتنی کہانی بھی کیسے یاد رکھی۔ سبھی کیوں نہ بھول گئے۔ ‘‘
سچ تو یہ ہے کہ ہم خود بھی کہانی سناتے سناتے بور ہو چکے تھے۔ تنگ آ کر ہم نے طارق صاحب سے مدد طلب کی۔ ’’طارق صاحب آپ کیوں نہیں سنا دیتے پلیز۔ ‘‘
سنتوش صاحب نے چائے کا آرڈر دیا اور پھر بڑی سنجیدگی سے پوچھا ’’آفاقی صاحب یہ کہانی واقعی آپ نے لکھی ہے یا کسی اور سے لکھوائی ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’خود ہی لکھی ہے‘‘
بولے’’ کافی عرصے پہلے آپ نے آئیڈیا سنایا تھا تو بہت اچھّا تھا۔ اب سکرپٹ لکھنے کے بعد مفصل کہانی سنا رہے ہیں تو نیند آنے لگی ہے یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘
’’معاملہ یہ ہے کہ ہم رائٹر ہیں یعنی مصّنف داستان گو نہیں ہیں۔‘‘ وہ لاجواب ہوگئے۔

(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)