رہا کئے گئے پانچوں ملزم ایجنسیوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ایک ماہ قبل تحویل میں لئے :سینئر صحافی شکیل انجم کا دعویٰ

رہا کئے گئے پانچوں ملزم ایجنسیوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ایک ماہ قبل ...
 رہا کئے گئے پانچوں ملزم ایجنسیوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ایک ماہ قبل تحویل میں لئے :سینئر صحافی شکیل انجم کا دعویٰ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (آئی این پی) سینئر صحافی و صدر نیشنل پریس کلب اسلام آباد شکیل انجم نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کے جو 5ملزم رہا کئے یہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ایک ماہ قبل خفیہ ایجنسیوں نے اپنی تحویل میں لے لئے تھے،تحقیقات کو گمراہ کرنے کیلئے ایسے لوگ بیچ میں ڈالے گئے جن کا قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا،بے نظیر بھٹو کی شہادت پر اس لئے کتاب لکھی کیونکہ اس قتل کی تحقیقات کو جان بوجھ کر الجھایا گیا، مشرف صاحب نے اس سانحے کے فوراً بعد ایک میٹنگ بلائی، جس میں تمام ایجنسیز کے سربراہ شامل تھے لیکن جاوید اقبال چیمہ کو شامل نہیں ہونے دیاوہ باہر ہی موجود رہے، اس میٹنگ کے بعد منصوبہ بندی کے ساتھ ایک نیا تنازع پیداکیا گیا کہ بے نظیر کی شہادت گولی سے نہیں گاڑی کا لیور لگنے سے ہوئی۔

نجی ٹی وی پروگرام میں بے نظیر قتل کیس کے فیصلے پر اپنا تجزیہ دیتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت گاڑی کا لیور لگنے سے ہوئی، گولی لگنے سے ہوئی یا جس وجہ سے بھی ہوئی مگر شہادت تو ہو گئی،مگر یہ تنازع جان بوجھ کر پیدا کیا گیا تا کہ لوگوں کو گمراہ کیا جا سکے۔ شکیل انجم نے کہا کہ میں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت پر اس لئے کتاب لکھی کیونکہ اس قتل کی تحقیقات کو جان بوجھ کر الجھایا گیا،پرویز مشرف جو اس وقت صدر پاکستان تھے انہوں نے اس سانحے کے فوراً بعد ایک میٹنگ بلائی، جس میں تمام ایجنسیز کے سربراہ شامل تھے مگر جاوید صاحب کو شامل نہیں ہونے دیا گیا تھا وہ باہر ہی موجود رہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میٹنگ کے بعد پلاننگ کے ساتھ ایک نیا تنازع پیدا کیاگیا کہ بے نظیر کی شہادت گولی سے نہیں گاڑی کا لیور لگنے سے ہوئی۔ شکیل انکم نے انکشاف کیا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کے جو 5ملزم رہا کئے یہ پانچوں بے نظیر کی شہادت سے ایک ماہ قبل خفیہ ایجنسیوں نے اپنی تحویل میں لے لئے تھے،2 لوگوں کو ڈیرہ اسماعیل خان، ایک کو مانسہرہ اور باقی لوگوں کو مختلف علاقوں سے تحویل میں لیا گیا تھا اور انہی کو مرکزی قاتل بنا کر پیش کیا گیا، انہوں نے باقاعدہ طور پر تحقیقات کو گمراہ کرنے کیلئے ایسے لوگ بیچ میں ڈالے گئے جن کا قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ندیم اعجاز نے سعود عزیز سے کہا اور سعود عزیز نے ایس ایس پی خرم شہزاد کو حکم دیا کہ کرائم سین دھو دیا جائے،بعد میں کسی کی یقین دہانی پر سعود عزیز نے سارا ملبہ اپنے اوپر لے لیا اور وہاں تحقیقات کا راستہ روک دیا گیا،نہیں تو ممکن ہے بات آگے چلتی تو کسی نہ کسی طرح اصلی مجرم تک پہنچ جاتی۔

مزید :

اسلام آباد -