اورنج لائن ٹرین منصوبے میں تاخیر برداشت نہیں کرینگے ، سپریم کورٹ
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر ،آئی این پی ) سپریم کورٹ نے اورنج لائن منصوبہ کیس میں عبوری حکم جاری کردیا‘ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق منصوبے کے باعث شہری تین سال سے تکلیف برداشت کررہے ہیں‘ سہری اورنج لائن منصوبے میں اتنی تاخیر برداشت نہیں کرسکتے‘ منصوبے کا پی سی ون تبدیل کرنے کی سفارش کی گئی جو ایک طویل کام ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں اورنج لائن منصوبہ کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میٹرو اتھارٹی کا سربراہ کون ہے۔ سربراہ پراجیکٹ نے بتایا کہ میٹرو اتھارٹی کے سربراہ وزیراعلیٰ پنجاب ہیں پہلی ٹرین ممکنہ طور پر 30جولائی 2019 کو چلے گی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ منصوبہ تاخیر کا شکار کیوں ہوا۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ اورنج لائن منصوبہ 22ماہ بند رہا منصوبے کا 80 فیصد سول کام مکمل ہوچکا ہے منصوبے کے سول ورکس کی لاگت 531.68 ملین ڈالر ہے ‘ الیکٹرو مکینیکل ورکس کے لئے 922 ملین ڈالر کی فنڈنگ ہے‘ 922 سے 628 ملین ڈالر خرچ کئے جاچکے ہیں۔ نیسپاک اور چینی کمپنی سی ای سی منصوبے کے کنسلٹنٹ ہیں کنسلٹنسی کی فیس 24ملین ڈالر ہے۔ منصوبے کو ایگزیم بینک فنڈنگ کررہا ہے دیگر متعلقہ منصوبے ایل ڈی اے کو زیر نگرانی چل رہے ہیں پیکج ون‘ ٹو تھری‘ پر سول ورک 30اکتوبر کو مکمل ہوگا سول ورک کے بعد الیکٹرو مکینیکل ورک شروع ہوگا۔ ٹھیکیداروں کو رقم کی ادائیگی تقریباً ہوچکی ہے چیف جسٹس نے کہا لگتا ہے منصوبے کی رکاوٹیں ہمیں ہی دور کرنا پڑیں گی چیف جسٹس نے ٹھیکیدار کو روسٹرم پر بلایا ۔ سپریم کورٹ نے اورنج لائن ٹرین منصوبے سے متعلق عبوری حکم جاری کردیا سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق شہری اورنج لائن ٹرین منصوبے میں اتنی تاخیر برداشت نہیں کرسکتے ٹھیکیداروں کے مطابق انہیں ابھی تک ادائیگیاں نہیں کی گئیں سیکرٹری خزانہ کے مطابق ادائیگیاں کردی گئی ہیں منصوبے کا پی سی ون تبدیل کرنے کی سفارش کی گئی جو ایک طویل کام ہے منصوبے کے باعث شہری تین سال سے تکلیف برداشت کررہے ہیں۔دریں اثنا چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) پاک پتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لے لیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے سماعت ہوگی۔سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب، آر پی او اور ڈی پی او رضوان گوندل کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔عدالت نے انکوائری آفیسر کو بھی رپورٹ کے ہمراہ پیش ہونے کا حکم دیا۔میموگیٹ کیس میں سپریم کورٹ نے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کو ٹاسک دے دیا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں میمو کمیشن کیس کی سماعت ہوئی تو اس موقع پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) نے حسین حقانی سے متعلق پیش رفت رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ حسین حقانی کے خلاف عبوری چلان ٹرائل کورٹ میں پیش کردیا گیا، ملزم اشتہاری ہے اور امریکا میں رہائش پذیر ہے جس کا پاکستانی پاسپورٹ بلاک کرنے کا عمل جاری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹرپول نے حسین حقانی کی امریکا میں موجودگی کی تصدیق کی ہے تاہم ریڈ وارنٹ جاری کرنے کے لیے متعدد درخواستیں تاحال زیر التواء ہیں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب کے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے ملزموں کی واپسی کے معاہدے ہیں اور عدالتی معاون احمر بلال صوفی کے مطابق نیب حسین حقانی کو وطن واپس لاسکتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ چیئرمین نیب ملزم کی واپسی کے لیے وارنٹ جاری کرسکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیب حسین حقانی کو وطن واپس لائے جب کہ عدالت نے نیب کو حسین حقانی کی وطن واپسی کا ٹاسک دے دیا۔سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی کہ پاکستان کے بیرونی ممالک سے باہمی معاہدے نا ہونے سے مشکلات ہیں۔اعلیٰ عدالت نے بیرون ملک ملزموں کی وطن واپسی کے لیے قانون سازی کی سفارش کی اور ہدایت کی کہ پارلیمنٹ ایک ماہ میں دیگر ملکوں سے معاہدوں کے لیے قانون سازی کرے۔دریں اثنا سپریم کورٹ نے پنجاب پروونشل کوآپرٹیوبینک کا 10 سالہ آڈٹ کرانے کاحکم دے دیا،عدالت نے رجسٹرار پنجاب پروونشل کوآپریٹوبینک کونیادفتردینے کی ہدایت اورکرن خورشید کے تبادلے سے بھی روک دیا چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بادی النظرمیں بدعنوان عناصر نے ریکارڈ کوآگ لگوائی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے ہاوسنگ سوسائٹیزفرانزک آڈٹ سے متعلق ازخودنوٹس کی سماعت کی، سپریم کورٹ نے پنجاب پروونشل کوآپرٹیوبینک کا 10 سالہ آڈٹ کرانے کاحکم دے دیا،عدالت نے رجسٹرار پنجاب پروونشل کوآپریٹوبینک کونیادفتردینے کی ہدایت کردی اورکرن خورشید کے تبادلے سے بھی روک دیا،رجسٹرارپنجاب پرونشل کوآپریٹوبینک آڈٹ جاری رکھیں۔سیکرٹری ہاسنگ خالدرامے نے بتایا کہ چارج سنبھالتے ہی بدعنوان افسروں کے تبادلے کردیئے،سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آڈٹ کا آغازکیا،خالد رامے نے کہا کہا کہ 17 اگست کورجسٹرار آفس میں آگ لگا کرتمام ریکارڈجلادیاگیا۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بادی النظرمیں بدعنوان عناصر نے ریکارڈ کوآگ لگوائی،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آشیانہ اورپیراگون سوسائٹی کاریکارڈبھی جل گیا ؟۔خالد رامے نے کہا کہ آشیانہ اورپیراگون نجی سوسائٹیاں ہیں،یہ ہمارے اختیارمیں نہیں،پنجاب کی 164 کوآپریٹوسوسائٹیزمیں سے 43 کا آڈٹ مکمل ہوچکا،آگ لگنے سے ریکارڈجل گیا،دوبارہ اکٹھاکرنے کیلئے وقت دیاجائے۔سپریم کورٹ نے سماعت 2 ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔سپریم کورٹ نے پنجاب میگا پراجیکٹس کے ٹھیکوں سے متعلق کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو طلب کرلیا۔جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان نے پنجاب میگا پراجیکٹس کے ٹھیکوں سے متعلق کیس کی سماعت کی اس موقع پر ایم ڈی میٹرو پراجیکٹ سبطین فضل حلیم عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے ایم ڈی میٹرو پراجیکٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سبطین فضل صاحب آپ کے پراجیکٹس کن مسائل کا شکار ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ اورنج لائن پراجیکٹ چین کے قرضے پر چل رہا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چین کے دیے گئے قرضے سے کتنا کام ہوچکا اور کنسلٹنٹ کون ہے جس پر سبطین فضل نے بتایا کہ نیسپاک اور سی ای سی کنسلٹنٹ ہیں اور 80 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، دونوں کمپنیاں چین کی ہیں اور پراجیکٹ مکمل ہونے میں ساڑھے 8 ماہ کا کام رہتا ہے۔ایم ڈی میٹرو پروجیکٹ نے کہا کہ 24 ملین ڈالر کنسلٹنسی چارجز ہیں جس میں سے 18.3 ملین ادا ہوچکے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں منصوبے کی بروقت تکمیل نا ہونے پر تحفظات ہیں اور غیرمعیاری کام کی شکایات ہیں جس پر سبطین فضل نے کہا کہ ایکنک کی منظوری کے بعد ایل ڈی اے کو رقم ملنی ہے۔سماعت کے دوران زیڈ کے بی کمپنی کے وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ 30 اکتوبر کی دی گئی تاریخ میں تو پراجیکٹ مکمل نہیں ہوگا، نیسپاک مزید کام کرنے کو تیار نہیں، اس وجہ سے فنڈز رک جائیں گے۔وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ عدالت نیسپاک اور چائنیز کمپنی کو کام کرنے کا حکم دے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور دوسرے ذمہ داروں کو بلوا لیتے ہیں جس پر ایم ڈی میٹرو پراجیکٹ سبطین فضل کا کہنا تھا کہ انہیں بلانے کی ضرورت نہیں، ہم مل بیٹھ کر معاملہ طے کرلیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سارے شراکت دار سپریم کورٹ میں میٹنگ کرکے آگاہ کریں۔چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے جرگہ نظام کو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دے دیا۔ جمعرات کو عدالتِ عظمیٰ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جرگہ، ونی اور سوارہ کی رسموں کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ جرگہ نظام بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو کہتے ہیں کہ قانون بنا کر پارلیمنٹ میں بھیجے کیونکہ پارلیمنٹ کے پاس قانون منظور کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ پہلے ہی جرگہ نظام کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سب سے زیادہ جرگے صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہوتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جرگہ یا پنچایت کے پاس سزائے موت اور بچیوں کو ونی کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جرگہ یا پنچایت چھوٹے چھوٹے گھریلو معاملات اور دیوانی معاملات دیکھ سکتی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس نے جماعت الدعوۃ کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ کچھ کوگ جماعت الدعوۃ کے پاس چلے جاتے ہیں، اور وہ ان افراد پر بھاری جرمانے عائد کرتے ہیں جو غیر قانونی ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرلز عدالت کو بتائیں کہ کیا صوبوں نے اس حوالے سے کوئی قانون سازی کی ہے؟سماعت کے دوران ایک مرتبہ پھر اپنی بات دہراتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر دیوانی تنازعات میں جرگوں سے رجوع کیا جاتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن فوجداری مقدمات سے متعلق جرگے کے فیصلے پاکستان کے عدالتی نظام کے دائرہ اختیار کے خلاف ہیں۔بعد ازاں عدالت کی جانب سے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ