اللہ کا انعام

اللہ کا انعام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تاحدِ نگاہ گندم کے سنہری کھیت بہت بھلے لگ رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سونا بکھرا پڑا ہو۔ یہ ”سونا“ ایسے ہی تو حاصل نہیں ہوتا، کسانوں کی پورے سال کی خون پیسنے کی محنت ہوتی ہے۔ اب اس محنت کو وصول کرنے کا وقت آچکا تھا۔ فصل پک کر تیار ہو چکی تھی۔ کٹائی ہو ناباقی تھی۔ کسانوں میں کریم دین اور اس کا بیٹا ساجد بھی تھا جو کہہ رہا تھا:”ابا! شکر الحمدللہ! فصل پک چکی ہے۔ اس بار میرا اندازہ ہے کہ فصل ماشاء اللہ زیادہ ہوگی۔ ہمارا وہ قرض بھی اتر جائے گا جو ہم نے چوہدری سے لیا ہوا ہے“
”ہاں بیٹا تم نے بھی دن رات محنت کی ہے۔کریم دین نے کہا۔
ویسے تو کریم دین ہر سال گندم ٖاُگاتا تھا لیکن اس سال کا بیٹا اس کے ساتھ تھا، کیوں کہ وہ بوڑھا ہوچکا تھا۔ اب اس سے زیادہ محنت نہ ہوتی تھی، اس لیے ساجد نے اس کی مدد کی۔ اب فصل پک چکی تھی اور کٹائی کی منتظر تھی۔ ساجد کے ساتھ والے کھیت کی جو اس کے پڑوسی جلال کا تھا، کٹائی ہو رہی تھی۔ اس کے بعد ساجد کے کھیت کی باری تھی۔ ساجد روزانہ شام کو کھتیوں میں جاتا تھا۔ یکایک تیز آندھی چلی اور گہرے بادل چھا گئے۔ ساجد نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے:”اے میرے مولا! میں یہ نہیں کہتا کہ تو بارش نہ دے کہ میری فصل خراب ہو جائے گی، تو بارش ضرور دے لیکن.... رحمت کی بارش، جس سے کسی کا نقصان نہ ہوا اور جو لوگ بارش کو روکنے کے لیے شرک کرتے ہیں، ان کو ایسا کرنے سے بچا۔ بے شک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ تو توبہ قبول کرنے والا ہے“
دنیا میں جہاں اچھے لوگ ہیں وہیں برے لوگ بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب زمین پر گناہ حد سے بڑھ جائے تو اللہ تعالیٰ سیلاب،زلزلے، آندھی اور طوفان کے ساتھ ہمیں سزا دیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ نیک لوگوں کی بھی سنتاہے۔ ان کو بھر پور انصاف عطا فرماتا ہے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ آندھی چل کر اور بادل گرج کر خاموش ہوگئے۔ گرمی کا زور ٹوٹ گیا اور موسم سہانا ہو گیا۔
آخر وہ دن بھی آپہنچا جب ساجد کی فصل کی کٹائی ہوگئی۔ ساجد بہت خوش تھا۔ اس سال اس کو اپنے صبر کو پھل ملنے والا تھا۔ اسے یقین تھا کہ فصل بیچ کر اسے اتنے پیسے مل جائیں گے کہ وہ چوہدری کے قرض سے جان چھڑا لے گا لیکن.... جب گندم کو بوریوں میں بھرا گیا تو وہ صرف تیس بوریاں بنیں،جبکہ ساجد کا اندازہ آٹھ بوریوں تک کا تھا۔ تیس بوریوں میں سے اپنے گھر کے لیے گندم رکھ کر باقی اتنے ہی پیسے بچتے کہ اگلی فصل کے لیے پورے ہوجائیں۔ چوہدری کا قرض وہیں کاوہیں رہ جاتا۔
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ چوہدری آگیا۔”ہاں ساجد! فصل بھی ٹک چکی ہے اور مہلت کی مدت بھی ختم ہوچکی ہے۔ اب قرض لوٹانے کا وقت آگیا ہے۔ میری رقم دو، مجھے سخت ضرورت ہے۔“ چوہدری نے جھوٹ بولا۔ ”وہ چوہدری صاحب!.... بات دراصل یہ ہے کہ فصل اتنی نہیں ہوئی جتنا میرا اندازہ تھا۔ آپ چند دن کی مہلت اور دے دیں، میں آپ کا قرض لوٹا دوں گا۔“
”کیا بات کرتے ہو؟ اب اور کتنی مہلت دوں؟ پہلے ایک سال گزرچکا ہے۔ جب تم لوٹا نہیں سکتے تھے تو لیا ہی کیوں تھا؟“ چوہدری نے اپنے ساتھ آئے ہوئے کارندوں کو حکم دیا کہ گندم کی بوریاں حویلی پہنچائیں۔ ساجد نے بہت خوشامد کی کہ چوہدری ایسا نہ کرے، مگر وہ نہ مانا۔ تمام بوریاں لے گیا۔ چوہدری کے جانے کے بعد ساجد پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
جلال یہ ساری کار روائی دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کے پاس آیا اور اسے اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ ساجد گھر پہنچا تو انتہائی اداس تھا۔
باپ نے وجہ پوچھی تو ایک بار پھر ساجد کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ اس نے چوہدری کے ظلم کی پوری کہانی سنا دی۔
”تمہیں انصاف ضرور ملے گا۔ تو اپنا معاملہ اس رحیم ذات پر چھوڑ دے، جاؤ بیٹا! باہر دیکھ کر آؤ کہ کون ہے؟
دروازے پر دستک ہو رہی ہے۔“
ساجد آنسو صاف کرتے ہوئے باہر گیا توجلال اور اس کا بھائی بلال کندھوں پر گندم کی بوریاں لادے کھڑے تھے۔
”یہ کیا ہے جلال بیٹا!“ اس نے پوچھا
”چاچا! یہ گندم کی بوریاں ہیں۔ آپ کی گندم تو چوہدری لے گیا۔ ہمسائے ہونے کے ناتے ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کی ضرورتوں کا خیال رکھیں۔ اگر اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجک بتانا۔“ ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ بائیں جانب والا ان کا ہمسایہ فضل دین بھی مونگ کی ایک بوری اپنے کندھے پر لادے آگیا، اور بولا یار... اتنی محبت پاکر ساجد اور کریمو کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بے شک یہ اللہ کا انعام ہی تو تھا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -