کراچی کی گندگی نے ”گندی سیاست“ کو ابھار دیدیا
کراچی کی گندگی نے ”گندی سیاست“ کو ابھار دیدیا ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر الزام تراشیاں کررہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ مون سون کی بارشوں کے بعد پورا شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے، شہر کے اسٹیک ہولڈرز کراچی کی سنگین نوعیت کی صورتحال کو حل کرنے کے بجائے گندی سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ان اسٹیک ہولڈرز میں میئر کراچی، حکومت سندھ اور تحریک انصاف شامل ہیں، جن پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔ کراچی سے مینڈیٹ حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وفاق کی مدد سے شہر کے مسائل حل کرے۔ دنیا جانتی ہے کہ کراچی کا شمار کبھی دنیا کے صاف ستھرے شہروں میں ہوتا تھا اور ملک کا دارالخلافہ بھی رہا ہے۔ روزانہ اس کی سڑکیں دھلتی تھیں اور صفائی کی بہترین نظام تھا، ٹرانسپورٹ کا مثالی نظام بھی موجود تھا، نہ جانے اس شہر کو کس کی نظر لگی کہ یہ دن بدن اپنا عروج کھوتا جارہا ہے، معمولی بارش سے جگہ جگہ سیوریج کا پانی جمع ہے، کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے مچھروں اور مکھیوں کی بہتات ہوگئی ہے، جراثیم سے وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ارباب اختیار حکمران جماعت مسائل کے حل کرنے کے بجائے باہم محاذ آرائی اور الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ میڈیا پر بھی ایک جنگ چل رہی ہے، سخت جملوں کے حملے کیے جارہے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن عوام کے اس سنگین مسئلے کی طرف کوئی شنوائی نہیں ہے، مسئلہ جوں کا توں ہے، کچھ عرصہ قبل وفاقی وزیر علی زیدی نے شہر قائد کو 15 دنوں میں گندگی سے پاک کرنے کا عندیہ دیا تھا، لیکن انہیں کامیابی نصیب نہ ہوسکی، پھر کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال نے دعویٰ کیا کہ اگر انہیں ذمہ داری دی گئی تو وہ اس شہر کو 3 ماہ میں کچرے سے پاک کردیں گے، جس پر موجودہ میئر وسیم اختر نے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ذمہ داری سونپی، مگر پتہ نہیں کہ کن وجوہات کی بناء پر 24گھنٹوں کے بعد ہی یہ ذمہ داری واپس لے لی گئی، ایسا لگ رہا ہے کہ متعلقہ ادارے عوام کے ساتھ بھیانک مذاق کررہے ہیں، معاملے کے حل کیلئے کوئی لائحہ عمل تیار نہ کیا جاسکا اور ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس شہر کا صرف ایک ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ شہر کے باسیوں کو اور کئی مشکلات و مسائل درپیش ہیں، سمندر کے نزدیک رہتے ہوئے شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، انہیں پانی کیسے فراہم کیا جائے، یہ ارباب اختیار کا کام ہے، جنوبی ایشیاء کے کبھی صاف ستھرے شہر کا درجہ پانے والے کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، جن لوگوں نے اس کے مقدر کے فیصلے کرنے ہیں وہ صرف اپنے ذاتی مقاصد کی طرف توجہ دے رہے ہیں، یہ شہر مسائل کے انبار تلے دب کر رہ گیا ہے، کسی زمانے میں یہاں کا ہوائی اڈہ اور بندرگاہ سب سے زیادہ مصروف ہوتے تھے، پوری دنیا سے سیاح یہاں آتے تھے، جہازوں کا عملہ خریداری کیلئے بازاروں میں گھومتا ہوا نظر آتا تھا، لیکن آج یہ سڑکیں ان سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں اس لیے ناکام ہیں، سڑکیں گڑہوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، ہر طرف گندگی ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں شہر کی شناخت ”گندے شہر“ کے نام سے ہورہی ہے اور آج لاہور کو کراچی کے مقابلے میں اچھے نام سے پکارا جارہا ہے۔ کیا اب بھی پنجاب،سندھ، سرحد اور بلوچستان کے لوگ اس کو منی پاکستان کہہ سکیں گے۔ اس شہر کو ہمیشہ منی پاکستان ضرور کہا گیا ہے مگر دوسرے صوبوں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔