آزاد کشمیر کی یادیں
1968ء میں جب میں بی اے کا طالب علم تھا تو میں کئی دفعہ مظفر آباد گیا۔ وہاں میرا گورنمنٹ کالج کا بی اے کا کلاس فیلو خواجہ فاروق انور رہتا تھا۔ پھر جب میں چکوال میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوا تو میں اپنی بیگم کے ہمراہ مظفرآباد گیا۔ خواجہ فاروق انور کی فیملی سے ملاقات نہ ہو سکی، کیونکہ وہ لاہور گئی ہوئی تھی۔ اس کی بیٹی کا نام شنگرف تھا۔ ہمیں یہ نام بہت پسند آیا۔ ہم نے یہ ارادہ کر لیا کہ جب اللہ نے بیٹی دی تو اس کا نام شنگرف رکھیں گے۔ کئی سال بعد بیٹی پیدا ہوئی تو اس کا نام شنگرف رکھا گیا۔ وہ بیٹی کشمیری شنگرف ہے اور یہ بیٹی پنجابی شنگرف ہے۔ وہ آج تک اپنی اس کشمیری بیٹی شنگرف سے نہیں مل سکا۔
آزاد کشمیر کا دارالخلافہ مظفر آباد ایک پیالے کی شکل میں ہے، جو ایک وادی ہے اور ہر طرف سرسبز پہاڑ ہیں۔ دومیل نامی مقام دریائے جہلم اوردریائے نیلم کا سنگم ہے۔ مری سے مظفر آباد آتے ہوئے سڑک کے کنارے تیز بہتا ہوا جہلم دریا عجب نظارہ دکھاتا ہے۔ اس کے تیز و تند پانی کے ریلے جب پتھروں سے ٹکراتے ہیں تو خوفناک آواز پید اکرتے ہیں جیسے شیر دھاڑ رہا ہو۔ ڈرائیونگ کے دوران اس آواز کی گرج سے دل دہلنا شروع کر دیتا ہے۔
سول سروس اکیڈمی والٹن لاہور میں تعینات ڈپٹی کمشنر میرے استاد محترم جناب حسن مصطفی نے جب وہ آئی جی آزاد کشمیر تھے ایک دفعہ مظفر آباد سے آتے ہوئے کوہالہ پل سے دریائے جہلم میں چھلانگ لگا دی تھی۔ان کے سٹاف نے چھلانگیں لگا کر انہیں ڈوبنے سے بچا لیا۔ ناجانے استادِ محترم نے کیوں دریا میں چھلانگ لگادی تھی؟شاید کوئی گھریلو پریشانی سے دو چار ہوگئے ہوں گے!
جب میں اسسٹنٹ کمشنر زیر تربیت (سیالکوٹ) تھا تو اپنی بیگم کے ہمراہ مظفر آباد گیا اور وہاں ہم میجر جنرل حیات محمدخان صاحب کی رہائش گاہ پر ٹھہرے۔ ان دنوں آپ حکومت آزاد کشمیر کے چیف ایگزیکٹو Chief Executive تھے۔ جنرل صاحب کی ہمشیرہ میری والدہ صاحبہ کے خالہ زاد بھائی کی بیگم تھیں۔اس لحاظ سے جنرل صاحب رشتے میں ہمارے ماموں تھے، جس دن ہم مظفر آباد سے الوداع ہونے لگے تو جنرل صاحب نے میری بیگم کے لئے اپنے سٹاف کو بازار بھیج کر بہت سی کشمیری شالیں منگوائیں اور اپنے ڈرائنگ روم میں بچھادیں اور میری بیگم سے مسکر اکر فرمانے لگے:
”آج اتوار ہے۔ بازار بند ہے لہٰذا میں نے دکان کھلو اکر آپ کے لئے یہاں دکان سجائی ہے، جو کشمیری شال پسند ہو وہ میری طرف سے بطور تحفہ لے لیں“۔بیگم نے ایک انتہائی خوبصورت کشمیری شال پسند کر کے اٹھا لی۔
میجر جنرل حیات محمدخان صاحب صبح صبح اٹھ کر نماز ادا کرنے کے بعد ڈاک نکالنا شروع کردیتے تھے اور ٹیپ ریکارڈر پر قوالی بھی سنتے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ جاتا تھا کہ دیکھوں ڈاک کیسے نکالتے ہیں۔ آپ محکمہ جات کے خطوط اور عوام کی درخواستیں بڑے غور سے پڑھتے تھے۔ اور ان پر سبز سیاہی سے دستخط کرکے اپنے ریمارکس تحریر فرماتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ آزاد کشمیر میں کافی تعمیراتی کام ہورہے ہیں۔ نئی سڑکوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ جنرل صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا:
”نیازی صاحب! آپ کی سول سروس کا چیف سیکرٹری مظفر آباد میرے ہر کام میں رکاوٹ ڈالتا تھا۔ میں جو بھی منصوبہ منظور کر کے اسے برائے تعمیل بھیجتا تھا وہ اس فائل پر ان الفاظ میں اعتراض لکھ کر مجھے بھیج دیتا تھا:
"Firm orders of the competent authority are awaited."
یعنی مجاز اتھارٹی کے حکم کا انتظار ہے تاکہ اس منصوبے پر عمل درآمد کیا جائے۔
میں نے ایک دن تنگ آکر چیف سیکرٹری کے نام یہ حکم جاری کردیا:
"Your services are no more required in public interest."
یعنی مفادِ عامہ کے پیش نظر آپ کی خدمات کی اب مزید ضرورت نہیں۔ چنانچہ میں نے اسے نوکری سے برخاست کر دیا۔
اس چیف سیکرٹری کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میجر جنرل حیات محمد خان صاحب حکومت آزاد کشمیر کے سربراہ (Cheif Executive) ہیں اور صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کے بہت قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔ میجر جنرل حیات محمد خان صاحب بہت دیانتدار تھے اور ان کے دور میں کافی تعمیراتی کام ہوئے۔وہ برخاست شدہ چیف سیکرٹری عدالتوں میں چارہ جوئی کرتا رہا، لیکن وہ سروس میں بحال نہ ہو سکا۔
میجر جنرل حیات محمد خان صاحب بڑے خوش طبع تھے۔ ایک دن میری بیگم کے پہنے ہوئے زیورات دیکھ کر مسکر اکر کہنے لگے:
”نیازی صاحب! سونے کے زیورات کی بھلا کیا پہچان ہے کہ یہ سونا خالص ہے یا اس میں سنار نے ملاوٹ کردی ہے۔ اگر آپ کسی اور سنار کو یہ زیور دکھائیں اور کہیں کہ یہ سونا خالص ہے یا نہیں تو وہ سنار بھی تو زیور بنانے والے سنار کا بھائی ہے۔ وہ کیسے کہے گا کہ اس زیور میں کھوٹ شامل ہے“۔
جب ہم آپ سے الوداع ہونے لگے تو میری پرانی کار فورڈ اسکارٹ (Ford Escort) دھکے سے سٹارٹ ہوئی۔ مظفر آباد سے سیالکوٹ تک طویل سفر کی یہی پرانی کار ہماری ساتھی تھی۔ جنرل صاحب ہمیں الوداع کرنے کے لئے کوٹھی کے باہر سڑک پر آئے۔
اسلام آباد میں جب مَیں ڈپٹی سیکرٹری وزارتِ مذہبی امور تعینات تھاتو مجھے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان نے کشمیر ہاؤس اسلام آباد بلایا اور فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں اسلامک لاء آف ٹارٹ نافذ کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے مجھے حکومت آزاد کشمیر کے لئے اسلامک لاء آف ٹارٹ (Islamic Law of Tort) کا قانون ڈرافٹ کرنے کے لیے کہا۔ چنددن بعد مجھے محکمہ قانون آزاد کشمیر کے سیکرٹری نے مظفر آباد دعوت دی۔ میں نے وہاں چند دن ٹھہر کر قانون ٹارٹ کا مسودہ بنا کر حکومت ِ آزاد کشمیر کو دے دیا۔ 2000ء کے بعد ہم مظفر آباد گئے۔ بچے بھی ساتھ تھے۔ والدہ مکرمہ بھی ساتھ تھیں۔ آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری چودھری محمد اشرف صاحب نے ہمیں سٹیٹ گیسٹ (State Guest) کا پروٹوکول دیا اور ہمیں سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ملنے بھی آئے۔ ان کے سرکاری ڈرائیور نے ہمیں ایک بلند مقام پیر چلاسی کی بھی سیر کرائی۔ یہ مقام جنت نظیرتھا۔
2005ء کے زلزلے میں آزاد کشمیر کے کئی علاقے تباہ ہوئے۔ مظفر آباد بھی مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ اب اس کی تعمیرِ نو ہوئی ہے۔ برطانیہ کے آرک بشپ آف کنٹر بری (Archbishop of Canterbury) عزت مآب روان ولیمز (Rowan Williams) بھی زلزلے کے بعد پاکستان تشریف لائے تھے۔ ان کے ہمراہ ان کی بیگم صاحبہ بھی تھیں اور برطانوی ٹیم بھی۔ آپ سے میری ملاقات گورنر ہاؤس لاہور میں ہوئی جب آپ ڈنر پر تشریف لائے تھے۔ انہوں نے مجھ سے گفتگو کے دوران آزاد کشمیر کے علاقے میں زلزلے کی تباہ کاریوں کا افسوس کیا۔ پوری دنیا کے ممالک ہمارے اس قومی حادثے میں ہمارے شریک غم تھے۔ بین الاقوامی برادری نے ہمارے زخموں کو مندمل کیا تھا۔ ان دنوں میرا بیچ میٹ کاشف مرتضیٰ آزاد کشمیر کا چیف سیکرٹری تھا۔ وہ اپنی کوٹھی کے کمرے سے جونہی باہر نکلا اسی وقت زلزلے سے وہ کمرے آن واحد میں پیوند خاک ہوگئے اور وہ معجزانہ طور پر بچ گیا۔ میرے کلاس فیلو خواجہ فاروق انور (اب آزاد کشمیر کابینہ کے رُکن) کے والد گرامی خواجہ عثمان تلاوت کرتے ہوئے مظفر آباد میں چھت گرنے سے شہید ہو گئے۔