قاضی آفاق۔ دوستوں کا دوست 

 قاضی آفاق۔ دوستوں کا دوست 
 قاضی آفاق۔ دوستوں کا دوست 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اس وقت ملک غیرمعمولی بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہے ہزاروں لوگ مر چکے ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر تباہی اور لوگوں کی بے بسی برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے حکومتیں اور سیاسی قیادت اس وقت سرگرم ہے اگرچہ انہوں نے کافی دیر کر دی ہے، اب عالمی برادری کی طرف سے بھی امداد پہنچنا شروع ہو گئی ہے اس غیرمعمولی تباہی پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے اس پر اہل قلم نے بہت کچھ لکھا ہے اور لکھ رہے ہیں  میں آج غم دوران کے ساتھ ساتھ ایک ذاتی غم بھی قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔


میں نے پنجاب یونیورسٹی سے پہلے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کیا اگرچہ بعد میں میرا رُخ جرنلزم کی طرف ہو گیا اور میں نے پنجاب یونیورسٹی ہی میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا لیکن یہ کہانی پھر کبھی سہی۔ اس وقت تو پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے 1973ء کے بیج کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بیج کئی لحاظ سے منفرد تھا غالباً یہ 130 کی کلاس تھی اس میں سے بہت سے لوگ اعلیٰ مناصب تک پہنچے، بلند اختر رانا صاحب پاکستان کے آڈیٹر جنرل بنے۔ یعقوب چوہدری صاحب آئی جی پولیس کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے، خوشنود اختر لاشاری صاحب وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری رہے، چوہدری تصدق،ریاض اختر، نعیم خان، خالد صدیقی اور شوکت نواز طاہر سول سروس میں اعلیٰ عہدوں پر رہے۔ ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے تعلیم و تدریس کا شعبہ منتخب کیا اور اب تک لمز میں پڑھا رہے ہیں۔ کئی کتابیں لکھیں اور دانشوری میں سکہ جمایا۔ چوہدری مقصود امریکہ میں پروفیسر رہے اور بھی بہت سے لوگ مختلف شعبوں میں کامیاب زندگی گزار رہے ہیں،قاضی آفاق حسین مرحوم (مرحوم لکھنے پر افسوس ہو رہا ہے) نے پہلے پہل پروفیسری کو منتخب کیا لیکن بعد میں سول سروس میں آ گئے اور ڈی ایم جی گروپ میں شامل ہوئے۔ پنجاب میں اہم عہدوں پر کام کیا اور آخرکار مرکز میں سیکرٹری مذہبی امور کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے۔ لاہور میں قیام پذیر تھے کچھ عرصہ پہلے انہیں دل کی تکلیف ہوئی پھر گردے متاثر ہو گئے یوں صورتحال پیچید ہ ہوتی گئی، کافی عرصہ Daylysis کراتے رہے، کئی دفعہ ہسپتال میں داخل ہوئے حتیٰ کہ ہسپتال میں صورتحال بگڑی تو وینٹی لیٹر پر چلے گئے اور یوں پچھلے ہفتے یہ دنیا چھوڑ گئے۔

قاضی آفاق کوئی عام شخصیت نہیں تھے انہوں نے تقریباً سب سے رابطہ رکھا۔ اولڈ بوائز کی سالانہ تقریبات کا اہتمام کیا۔ اگر میں کہوں کہ وہ ہماری کلاس میں سب سے ہر دلعزیز شخصیت تھے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ دوستوں کے دوست تھے،۔میں اگرچہ طبعی طور پر زیادہ سوشل نہیں ہوں تاہم انہوں نے مجھ سے بھی رابطہ رکھا، کورونا کی مصیبت سے پہلے وہ اسلام آباد میں میرے گھر کھانے پر آئے، کئی اور دوست بھی ساتھ تھے۔ میرا تقریباً ہر دو تین ماہ بعد لاہور کا پھیرا لگتا ہے تو وہاں بھی اُن سے ملاقات ہوتی رہی کوئی تین مہینے پہلے میں لاہور میں تھا تو انہوں نے جمخانہ کلب میں میرے لئے کھانے کا اہتمام کیا۔ سابق ڈی آئی جی چوہدری تصدق صاحب بھی کھانے میں شامل تھے۔ 1971ء میں ہماری کلاس کا ایک گروپ افغانستان گیا تھا اُس میں بھی دوسروں کے علاوہ قاضی صاحب اور خالد صدیقی بھی شامل تھے۔ پھر اُن سے تعلق کی ایک اور شکل بھی پیدا ہو گئی وہ یوں کہ اُن کے ایک بیٹے کی شادی ہمارے پُرانے دوست چوہدری شفیق (ریٹائرڈ ایڈیشنل سیشن جج) کی بیٹی کے ساتھ ہو گئی۔ پچھلے دنوں میں نے ”حکومت کو کچھ مشورے“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تو انہوں نے تبصرہ کیا کہ یار تم نے سرکاری افسروں کو نشانہ بنایا ہے میں نے مذاقاً کہا کہ یار اِن تجاویز کی زد  ریٹائرڈ سرکاری افسروں پر نہیں پڑتی آپ مطمئن رہیں بہرحال انہوں نے حسب معمول یہ خواہش دہرائی کہ لاہور آؤ تو ملاقات ہونی چاہئے لیکن افسوس وہ بات چیت آخری رابطہ ثابت ہوئی، میں بوجوہ اُن کے جنازے میں بھی شامل نہ ہو سکا مجھے پتہ چلا ہے کہ اُن کے جنازے میں بڑی تعداد میں سرکاری افسروں نے شرکت کی۔ انہوں نے چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ کام کیا تھا جب وہ پچھلی دفعہ وزیراعلیٰ تھے اُس وقت قاضی صاحب سیکرٹری ایجوکیشن تھے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے اُن کی بیماری کا سُن کر علاج کے لئے بڑی فراخدلانہ پیشکش کی لیکن افسوس کہ اُن کا وقت پورا ہو گیا تھا۔ کچھ مہینے پہلے جب میں امریکہ گیا تو اُن دنوں دو دوست زمان خان اور چوہدری قدرت اللہ یہ دنیا چھوڑ گئے۔ پرانے دوست ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں تنہائی کچھ بڑھتی جا رہی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -