حکمران بمقابلہ عوام: جیت کس کی ہوگی؟
آئی ایم ایف کا 7ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج بورڈ کی منظوری کی راہ تک رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ 12جولائی 2024ء کو سٹاف لیول معاہدہ ہو گیا تھا بورڈ سے منظوری کے بعد یہ رقم پاکستان کو ملنا شروع ہونا تھی لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ آئی ایم ایف بورڈ کا 6ستمبر کو دوسری مرتبہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے لیکن اس میں ویتنام، یوگنڈہ اور ڈنمارک سمیت 7ممالک کے معاملات زیر بحث لائے جانے ہیں لیکن پاکستان کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری ایجنڈے میں شامل نہیں ہے حالانکہ اس بیل آؤٹ پیکیج کے معاملات ایک عرصے سے گفتگو میں شامل تھے۔ شہبازشریف کی قیادت میں حکومت نے سٹاف لیول ایگریمنٹ پر دستخط کئے حالانکہ تفصیلات بارے گفتگو تو عبوری حکومت کے دور سے جاری تھی، پاکستان نے بہت سی شرائط پر پہلے ہی عملدرآمد کر دکھایا ہے۔ بجٹ 2024-25ء ایک ایسی دستاویز ہے جو اس معاہدے پر عمل درآمد کی جیتی جاگتی تصویر ہے، ہم نے اس بجٹ میں صرف آئی ایم ایف کی تجاویز بلکہ احکامات پر عملدرآمد کرکے تابع داری کا ثبوت فراہم کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف مزید شراط پر عملدرآمد کرنے پر اصرار کررہا ہے۔2ارب ڈالر کی ایکسٹرنل فنانسنگ کی شرط پوری کرنے کے لئے کوشاں ہے بلکہ پُرامید بھی ہے۔ سعودی عرب، یو اے ای اور چین سے 12ارب ڈالر کے قرض کے رول اوور کرانے کی کاوشیں بھی تیز کردی گئی ہیں۔ وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کے ذمہ سعودی عرب کا 5ارب ڈالر چین کا 4ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات کا 3ارب ڈالر واجب الادا ہے۔ ہم یہ سب کچھ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ہم نے منت ترلا شروع کر دیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہمارے قرض خواہ،جو ہمارے دوست بھی ہیں، ہمارے خیر خواہ بھی ہیں، ہماری مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ہماری درخواست قبول کرلیں گے۔ قرض رول اوور کر دیں گے، سردست ہم اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائیں گے، وقتی طور پر ہی سہی ہم مشکلات سے نکل جائیں گے۔
ہماری مشکلات عارضی نوعیت کی نہیں ہیں ہم بہت سے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور پیچیدہ قسم کے مسائل میں گھر چکے ہیں، ہماری معیشت عالمی اور داخلی قرضوں کے شکنجے میں کراہ رہی ہے، ہماری کل آمدنی کا غالب حصہ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں اٹھ جاتا ہے، دفاعی اخراجات نکالنے کے بعد کچھ بھی نہیں بچتا ہے، ہم داخلی طور پر دہشت گردی کا شکار ہیں، بلوچستان اور کے پی دہشت گردوں کی زد میں ہیں، بلوچستان میں انسرجنسی کی صورت حال ہے۔ ہمارے دفاعی ادارے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں لیکن معاملات سدھرتے نظر نہیں آ رہے، بجٹ 2024-25ء میں عوام پر ٹیکسوں کا ناقابلِ برداشت بوجھ ڈال دیا گیا ہے، عوام میں اس بوجھ کو اٹھانے کی نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی سکت، بجلی کی قیمتوں نے معاملات ناقابلِ اصلاح کر دیئے ہیں۔ بجلی کی اصل قیمت کے ساتھ محصول بجلی، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فاضل ٹیکس، مزید ٹیکس، ایف پی اے پر جی ایس ٹی، ایف پی اے پر زائد ٹیکس، ایف پی اے پر مزید ٹیکس، ایف پی اے پر انکم ٹیکس، ایف پی اے پر آر ایس ٹیکس کے علاوہ فکسڈ چارجز جیسے ٹیکسوں کی موجودگی میں معاملات ناقابل قبول ہو چکے ہیں۔ میرے سامنے ایک مکینک کی ورکشاپ کے بل کی تفصیلات ہیں اس نے پورے مہینے میں کل 51یونٹ بجلی استعمال کئے جس کی قیمت 38.590 روپے فی یونٹ کے حساب سے 1968.08روپے بنتی ہے جبکہ اسے ٹیکس ملا کر 4725روپے ادا کرنے ہیں، یعنی دگنے سے بھی زائد۔ یہ سسٹم، بجلی کا نظام چلتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ صنعتی پہیہ سست ترین ہو چکا ہے،25فیصد سے زائد چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتیں بند ہو چکی ہیں، لاکھوں کارکنان بے روزگار ہو چکے ہیں۔ باقی صنعتیں بھی جزوی طور پر فعال ہیں، اپنی استعدادِ کار سے بہت کم درجے پر فعال ہیں، بہت سے ڈیلی ویجرز روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کی لوٹ مار کھل کھلا کر عوام کے سامنے لائی جا چکی ہے۔ جماعت اسلامی ان معاملات کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ عوامی جذبات کو احتجاج کی شکل میں ڈھال رہی ہے۔ 14روزہ دھرنے کے بعد 28اگست کو کامیاب شٹرڈاؤن ہڑتال نے عوامی جذبات کو مہمیز دی ہے۔ تاجروں نے حکومتی تاجر دولت سکیم مسترد کر دی ہے۔ تاجر اس سے پہلے ”پوائنٹ آف سیلز“ کے ذریعے ٹیکس وصولیوں کی حکومتی ترکیب ناکام بنا چکے ہیں اس بات کا اعتراف وزیر خزانہ بھی کر چکے ہیں۔ اب نئی سکیم کو بھی تاجر مسترد کر چکے ہیں۔ ٹیکس وصولیوں کے اہداف کیسے پورے ہوں گے؟ ویسے ہمارا ٹیکس نظام ناانصافی اور غیر منطقی بنیادوں پر قائم ہے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بجائے پہلے سے نیٹ میں موجود ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس کا بوجھ لادا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے اب اس کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ آمدنی کے ذرائع بھی سکڑ چکے ہیں اور قدرِ زر بھی گر چکی ہے، قابل تصرف آمدنیاں گھٹ چکی ہیں، عام شہری شدید بحرانی کیفیت اور ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ معاشرتی اضطراب بڑھتا چلا جا رہا ہے اور شاید اب وہ ری ایکشن کی طرف بھی چلا جائے۔ تاجر ٹیکس دینے سے انکاری ہو چکے ہیں۔ عوام نے اگر بجلی کے بل دینے سے انکار کر دیا تو کیا ہوگا؟
حکومت آئی پی پیز کے ساتھ کچھ بھی کرنے یا کہنے سننے کی سیاسی خواہش نہیں رکھتی، وہ صرف لیت و لعل سے کام لے رہی ہے،عوامی غیض و غضب کو کم کرنے کے لئے زبانی جمع خرچ کررہی ہے، بجلی پیدا کرنے والوں کے ساتھ معاہدے ناانصافی اور بددیانتی یا نالائقی پر مبنی ہیں، معاہدوں کی شرائط طے کرتے وقت پاکستانی عوامی کے مفادات کو پشت پر ڈالا گیا تھا۔ایسا نالائقی کے باعث یا بددیانتی کی وجہ سے ہوا۔ معاہدوں میں شفافیت نہیں ہے ادائیگیاں بھی ناانصافی پر مبنی ہیں کیپیسٹی پے منٹس کے بارے میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ یہ ناجائز اور صارفین کے ساتھ زیادتی نہیں ظلم ہے صریحاًظلم ہے عوام اب اس قسم کی ادائیگیوں کا بوجھ اٹھانے کے لائق نہیں رہے ہیں، معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔
جاری حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ معاشی گرداب میں پھنسے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا ہے ہم ایک عرصے سے سنتے آئے ہیں کہ دشمن پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر نظر جمائے بیٹھا ہے۔ عالمی صہیونی حکومت مسلمانوں کو، مسلمانوں کے عسکری بازؤں بشمول عراق، مصر، شام و دیگر کو تباہ و بربادکر چکی ہے۔ فلسطینیوں کے عسکری بازو حماس کا خاتمہ بھی ہمارے سامنے ہے اب صرف اور صرف پاکستان کا بازو توڑنا مقصود ہے کیا ہم ایسی پوزیشن پر پہنچ نہیں چکے جہاں ایسا کرنا ممکن ہے؟