اسٹیبلشمنٹ حالات کا ادراک کرے
ایسے وقت میں جب امریکہ نے افغانستان میں 9/11کے بعد سے جاری جنگ کے مکمل خاتمے کے لئے دسمبر2014ءکی حتمی ڈیڈ لائن مقرر کر دی ہے۔ پاکستان میں ایک ایک بار پھر دہشت گردی کی نئی لہر نے اسٹیبلشمنٹ کی ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے جو وہ گزشتہ کئی ماہ سے عسکریت پسندوں کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے حالات کو معمول پر لانے کے لئے کر رہی تھی۔ باوجود اس کے کہ امریکی پالیسی سازوں نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاءکے لئے2014ءکے اواخر کا ٹائم فریم مقرر کر رکھا تھا۔ امریکی صدر باراک حسین اوباما کی شدید خواہش تھی کہ امریکی افواج کی اکثریت کو2013ءمیں ہی افغانستان سے نکال کر2014ءکی ڈیڈ لائن کے خاتمے تک برائے نام فوج افغانستان میں رہنے دی جائے، لیکن وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر رہے۔
امریکی اخبار ”لاس اینجلس ٹائمز“ کی رپورٹ کے مطابق 2001ءسے اب تک افغانستان میں ہلاک ہونے والے2179 امریکی فوجیوں کے اہل خانہ کو پانچ ارب ڈالر سے زائد رقم ادا کرنے کے علاوہ9ہزار سے زائد زخمی فوجیوں کے علاج معالجے پر کروڑوں ڈالرز خرچ ہو چکے ہیں۔2001ءسے اب تک نیٹو اور ایساف کے افغانستان میں 3752فوجی ہلاک (مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق) اور23500سے زائد زخمی ہوئے ہیں، جبکہ امریکی و نیٹو فورسز کے لئے کام کرنے والے کنٹریکٹرز کے1143 افراد ہلاک اور 15ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ افغان سیکیورٹی فورسز کے11886اور شمالی اتحاد کے200افراد امریکہ و نیٹو کے ساتھ دیتے ہوئے جان سے گئے۔ اس دوران نیٹو اور ایساف کے176سے زائد لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹرز بھی طالبان نے تباہ کر دیئے جن کی مالیت کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر 2014ءسے قبل ہی بیشتر امریکی فوجیوں کو افغانستان کی دلدل سے نکالنے کے خواہش مند ہیں۔ دوسری جانب امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی برطانیہ نے2013ءمیں ہی افغانستان سے اپنے 4000 فوجیوں کے انخلاء کا فیصلہ کیا ہے۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے حالیہ دورہ افغانستان سے قبل ہی برطانوی وزیر خارجہ ولیم ھیگ اس بات کا عندیہ دے چکے تھے کہ برطانیہ اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میںاپنے4000فوجی افغانستان سے واپس بلوا لے گا۔ یوں افغانستان میں موجود9500برطانوی فوجیوںکی بڑی تعداد2014ءسے قبل ہی وطن واپس آ جائے گی۔ واضح رہے کہ برطانیہ نے افغانستان میں اپنے 58ملٹری بیس اور چیک پوسٹیں ختم کر کے وہاں موجود عسکری سازو سامان بھی واپس منگوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں4000برطانوی فوجیوں کے ساتھ20ہزار سے زائد کنٹینرز بھی برطانیہ واپس پہنچ جائیں گے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران نیٹو و ایساف افواج کو طالبان کے ساتھ ساتھ افغان فورسز کی جانب سے اندرونی حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران نیٹو کے84فوجی اور 17امریکی شہری افغان نیشنل آرمی اور افغان پولیس کی جانب سے کئے گئے حملوں میں ہلاک ہو گئے۔
اِسی ہفتے افغان پولیس میں کام کرنے والی خاتون آفیسر نرگس خانم نے افغان پولیس کے مشیر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، ہلاک ہونے والا امریکی شہری امریکی وزارت داخلہ میں کام کرتا تھا جسے افغان پولیس کو تکنیکی معاونت فراہم کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ افغان فورسز کی جانب سے نیٹو افواج پر بڑھتے ہوئے حملوں کے بعد نیٹو افواج نے افغان نیشنل آرمی کی تربیت کا عمل غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا ہے جس کے بعد یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ نیٹو کے زیر تربیت افغان نیشنل آرمی و پولیس کے اہلکار نیٹو افواج کے انخلاءکے بعد اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کی اہلیت سے محروم رہ جائیں گے۔ یورپی دفاعی تجزیہ کاروں کی اکثریت اس بات پر متفق دکھائی دیتی ہے کہ افغان طالبان نے افغان نیشنل آرمی اور پولیس میں اپنا اثرو رسوخ بہت حد تک بڑھا لیا ہے اور انہی کی شہ پر امریکی و نیٹو افواج پر حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ نیٹو افواج کی جانب سے افغان نیشنل آرمی کو پروفیشنل تربیت دینے سے انکار ہونا افغانستان میں امریکہ مخالف قوتوں کے لئے مزید آسانی پیدا کرنے کا باعث ہو گا۔
مغربی میڈیا کے مطابق رشوت خور افغان پولیس تو پہلے ہی عسکریت پسندوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے تو نیٹو افواج کے انخلاءکے بعد تربیت یافتہ افغان نیشنل آرمی طالبان کے سامنے کتنی مزاحمت کر پائے گی؟ امریکہ مستقبل میں کسی اور نائن الیون سے بچنے کے لئے اس بات کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے کہ طالبان کو جس طرح بھی ممکن ہو افغانستان کے سیاسی دھارے میں شامل کیا جائے اور اس مقصد کے لئے اب تک مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ابھی بھی طالبان کے حوالے سے کسی ایک آپشن پر یکسو دکھائی نہیں دیتی۔ اگرچہ اس حوالے سے بیک ڈور ڈپلومیسی کا ڈول ڈالا جا رہا ہے لیکن پھر بھی وقفے وقفے سے فوجی آپریشن کی صدا بھی بلند کی جاتی ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ2007ءمیں لال مسجد آپریشن کے بعد خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ بہت سی قیمتی جانیں لے چکا ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک جانب بلوچستان میں بلوچ مزاحمت کاروں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر تشویش کا سامنا ہے تو دوسری جانب ملک کے شمال مغرب میں گزشتہ ایک عشرے سے جاری کشت و خون کو روکنے کا چیلنج درپیش ہے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے لئے شروع کی جنگ کے بطن سے جتنی دہشت گردی نے جنم لیا ہے اس کا تصور بھی محال ہے۔ بلوچ مزاحمت کار ہوں یا پاکستانی طالبان، دونوں اپنے اثرو رسوخ و عسکری قوت میں گزشتہ کئی سالوں میں (وجوہات کچھ بھی ہوں) بے پناہ اضافہ کر چکے ہیں۔ بلوچستان ہو یا ملک کے شمال مغرب میں واقع قبائلی علاقے دونوں جگہوں پر سٹیٹ کی عملداری بیشتر حصے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ملک کے بیشتر حصوں میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں ہونے والی نمایاں کمی ان کوششوں کا ثمر تھی جو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پس پردہ ان قوتوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کی گئیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ وہ چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے اور اس کی ذرا سی غلطی ملک کے مستقبل کو خوفناک نتائج سے دوچار کر سکتی ہے۔ ٭