پاکستان کی فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو بھارت کے ساتھ کھلی تجارت میں فائدہ ہو گا

پاکستان کی فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو بھارت کے ساتھ کھلی تجارت میں فائدہ ہو گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی(اے پی اے ) بھارتی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کی فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو بھارت کے ساتھ کھلی تجارت میں نقصان نہیں بلکہ فائدہ پہنچے گا۔پاکستانی عوام کو بین الاقوامی معیار کی حامل کم قیمت ادویات میسر ہوں گی، مارکیٹ بند رکھنے کی پالیسی کے بجائے موثر ڈرگ ریگلولیشنز اور مکینزم کے ذریعے پاکستان اپنی مارکیٹ کو غیرملکی مصنوعات کی یلغار سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ ادویات کے شعبے میں تجارت پر پاکستانی فارما سیوٹیکلز انڈسٹری کی جانب سے دو بنیادی خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں جن میں بھارتی غیرمعیاری مصنوعات کی پاکستان میں ڈمپنگ اور بھارتی صنعت کے اسکیل اور خام مال کی مقامی ذرائع سے دستیابی شامل ہیں۔ پاکستانی صنعت کا خدشہ ہے کہ بھارتی فارما سیوٹیکل کمپنیاں اپنی قیمت اور لاگت کے بل پر پاکستان کی مارکیٹ پر غلبہ حاصل کرسکتی ہیں جس سے مقامی سطح پر کی جانیوالی بھاری سرمایہ کاری متاثر ہوگی، ساتھ ہی لاکھوں لوگوں کا روزگار بھی خطرے میں پڑ جائیگا۔پاکستانی انڈسٹری کے تحفظات کا جائزہ لیتے ہوئے انڈیا پاکستان ٹریڈ پراجیکٹ پر کام کرنے والے بھارتی تحقیقی ادارے ”انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز“ (آئی سی آر آئی آر) نے چندروز قبل جاری کی جانیوالی رپورٹ میں ادویات کے شعبے میں تجارت کو دونوں ملکوں کی تجارت میں فروغ کیلیے ”عمل انگیز“ قرار دیا ہے۔ بھارتی ماہرین ڈاکٹر منوج پنت اور دیویانی پانڈے کی رپورٹ میں پاکستانی انڈسٹری کی جانب سے اٹھائے جانیوالے دونوں خدشات کو بے جا قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی فارم انڈسٹری کو ایک جیسے چیلنجز یعنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بھرمار کا سامنا تھا جس کے لیے بھارت نے 1997میں ڈی ریگولیشن کی پالیسی اختیار کی جس کے نتیجے میں مقامی کمپنیوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں سے مسابقت آسان ہوگئی ۔
اور آج بھارتی فارما انڈسٹری پر مقامی کمپنیوں کا غلبہ ہے اس کے برعکس پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو 2012میں متحرک کیا گیا فارم انڈسٹری حکومت کے کنٹرول میں رہی پاکستانی کمپنیاں اس وقت بھی ترقی کررہی ہیں اور مارکیٹ شیئر کے لحاظ سے نصف مقامی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے پاکستانی صنعت کاسٹ سیونگ بھارتی مصنوعات کی درآمد کے ذریعے مارکیٹ شیئر میں اضافہ کرسکتی ہیں۔بھارتی ماہرین کے مطابق حساس آئٹمز اور کوالٹی پر اٹھائے جانیوالے تحفظات کا بھی حل موجود ہے فارما سیوٹیکل سیکٹر کو تحفظ فراہم کرنے کیلیے بھارت کی حساس فہرست میں 6 فارما سیوٹیکل پراڈکٹ شامل ہیں جبکہ بھارت کیلیے پاکستان کی منفی فہرست میں 49اور حساس فہرست میں 24مصنوعات شامل ہیں ان مصنوعات میں آیورویدک، یونانی، ہومیوپیتھک، سدھا اور بائیوکیمک سسٹم میڈیکمینٹس بھی شامل ہیں بھارتی ماہرین کے مطابق یہ مصنوعات کا استعمال خطے میں یکساں کلچر کے طور پر رائج ہے ان ادویات کو دونوں ملکوں کی حساس فہرستوں میں سے خارج کردیا جائے تو یہ مصنوعات بنانے والی پاکستانی کمپنیوں کو بھارت کی شکل میں ایک وسیع مارکیٹ مل جائیگی ان شعبوں میں پاکستان کیلیے بھارت میں زیادہ امکانات ہیں۔پاکستانی انڈسٹری ادویہ سازی کے شعبے میں بھارتی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سے استفادہ کرسکتی ہے پاکستانی صنعت ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ اشتراک عمل اور انٹی گریشن کی پابندہے بھارتی کمپنیوں کے ساتھ تجارت کے ذریعے پاکستانی انڈسٹری کا دنیا کی دیگر کمپنیوں پر انحصار کم ہوگا جس کا فائدہ پاکستانی صارف کو بھی پہنچے گا۔ ماہرین کے مطابق بھارتی مصنوعات پر معیار کے حوالے سے تحفظات بھی بے جا ہیں اس مسئلے کا موثر حل بھی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اشتراک سے حاصل کیا جاسکتا ہے جس کیلیے گڈ مینوفیکچرنگ پریکٹس کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے نہ صرف بھارت سے مصنوعات کی درآمد بلکہ ملکی سطح پر مصنوعات کی تیاری کیلیے بھی جی ایم پی کے اصولوں کو نافذ کرکے بھی اعلیٰ معیار کی مصنوعات کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حساس فہرست 80فیصد آئٹمز بلک اور انٹرمیڈیٹ ڈرگ شامل ہیں پاکستانی صنعت بہت کمپی ٹیٹیو ہے تاہم بھارت کو خام مال میں سبقت حاصل ہے خام مال پر زائد ڈیوٹی ہونے سے تیار مصنوعات پر ڈیوٹی پروٹیکشن کم ہوگی اس لیے پاکستان کو اپنی صنعت کے صحیح معنوں میں تحفظ کیلیے بلک اور انٹرمیڈیٹ ڈرگز کو حساس فہرست سے خارج کرنا ہوگا۔رپورٹ کے مطابق بھارت سے ادویات کے شعبے میں تجارت پاکستان میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کریگی جس کیلیے دونوں ملکوں کو میوچل ریکاگنیشن ایگری منٹ(ایم آر ایز) طے کرنا ہوں گے جن کے ذریعے دونوں ملکوں کی صنعتوں کو ہارمونائز کیا جاسکے۔ رپورٹ میں دونوں ملکوں کے فارما سیکٹر کے درمیان ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے شعبوں میں تعاون کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سال کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان ادویات کے شعبے میں تجارت کے حوالے سے روایت کے برعکس تبدیلی واقع ہوئی پاکستان کو بھارتی ایکسپورٹ 2011 میں 21.59ملین ڈالر تھی جبکہ 2012 میں بھارتی ایکسپورٹ کم ہوکر 16.99 ملین ڈالر پر آگئی اس کے مقابلے میں پاکستانی برآمدات جو 2011 تک محض 0.006ملین ڈالر تھیں 2012میں بڑھ کر 0.072 ملین ڈالر ہو گئی۔

مزید :

کامرس -