قائداعظم ؒ اور11 اگست 1947ء کی تقریر

قائداعظم ؒ اور11 اگست 1947ء کی تقریر
قائداعظم ؒ اور11 اگست 1947ء کی تقریر

  

ملک کے نامور محقق، دانشور اور مورخ پروفیسر شریف المجاہد فرماتے ہیں کہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی 11اگست 1947ء والی تقریر کو میثاق مدینہ کی روشنی میں پڑھیں گے، تو قائدؒ کے فرمان کی زیادہ واضح انداز میں سمجھ آئے گی۔ وہ قائداعظم اکیڈمی کراچی کے سربراہ رہے ہیں، اس لئے ان کی اس بات میں زیادہ وزن ، ثقاہت اور گہرائی پائی جاتی ہے۔ میثاق مدینہ وہ معاہدہ تھا جو رسالت مآب ؐ نے مدینہ کی اسلامی ریاست قائم کرلینے کے بعد یہودیوں سے کیا تھا ۔ سیرت کی معروف و مستند اور انعام یافتہ کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ کے صفحہ نمبر 263 کے مطابق اس میثاق سے آپ کا مقصود یہ تھا کہ ساری انسانیت امن وسلامتی کی سعادتوں اور برکتوں سے بہرہ ورہو اور اس کے ساتھ ہی مدینہ اور اس کے گردوپیش کا علاقہ ایک وفاقی وحدت میں منظم ہوجائے۔۔۔‘‘بانئ پاکستان کے ذہن میں بھی پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کا مقصد اور خاکہ تھا، اسی لئے انہوں نے دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں اقلیتوں کے حقوق کے متعلق نسبتاً زیادہ گفتگو فرمائی ۔ ان کے ذہن میں یہی گائیڈ لائن تھی۔ ان کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ قائداعظم ؒ مختلف قوموں کے ایک ساتھ اکٹھے رہنے سے جہاں ماضی میں ان کے تعلقات قائم رہے ہیں، وہاں ان میں چھوٹے بڑے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔

ہندوستان کی تقسیم کو بھی ہندوکمیونٹی نے دل سے تسلیم نہیں کیا تھا، اس لئے وہ اگر اس نوزائیدہ مملکت کے شہری بن جائیں گے تو یہاں اقلیت کی وجہ سے ان میں احساس محرومی پایا جائے گا، حالانکہ تعداد کے اعتبار سے ہماری مسیحی برادری زیادہ تھی۔ جن کو فوری طورپر تو اکثریت سے کوئی زیادہ شکایات پیدا نہیں ہوئیں، لہٰذا ہمارے ملک کے وہ دانشور خواتین وحضرات جو یہ فرماتے نہیں تھکتے کہ قائداعظم ؒ اس ملک کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، وہ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں ، وحدت اور یکجہتی کے خلاف سراسر بے بنیاد اور بغیر کسی حوالے کے ، غیر مستند باتیں کرتے ہیں۔ ہر اقلیت کو میثاق مدینہ کی روشنی میں اسلامی ریاست کے ہر شہری کے برابر حقوق دینے کا مطلب ’’سیکولرازم‘‘ کیسے ہوگیا؟ ۔۔۔سیدھی سی بات ہے کہ اگر پاکستان کو بھی سیکولر سٹیٹ بنانا تھا تو ہندوستان تو سیکولر ریاست ہونے کا اول روز سے ہی دعویدار ہے، پھر آخر اتنی قربانیاں دینے اور برعظیم پاک و ہندوکو تقسیم کرنے کا مقصد کیا تھا ۔۔۔؟بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو سیکولر سٹیٹ کاایجنڈا غیرملکی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز کی طرف سے ہی دیا گیا ہے اور گزشتہ کافی عرصے سے ہمارے میڈیا میں ایک منظم مہم کے طورپر بار بار دہرایا جارہا ہے ۔

1990ء کے فوراً بعد ماسکو سے سیدھی واشنگٹن کی فلائٹ پکڑنے والے ان نام نہاد دانشوروں کو یہ خبر بدرجہ اتم معلوم ہوگی کہ ’’خود ہندوستان میں سیکولرازم کمزور ہوا ہے اور وہاں کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی حالت زار دلتوں سے بھی بدتر ہے ‘‘۔۔۔ (روزنامہ ایکسپریس ،لاہور ، جمعرات 18دسمبر 2014ء )۔۔۔ واضح رہے کہ یہ بات کسی جنگجو مسلمان نے نہیں کہی، بلکہ یہ برصغیر پر تحقیق کرنے والے فرانسیسی سوشل سائنٹسٹ ڈاکٹر لوراں گائے کی ہندوستان یاترا کے بعد شائع شدہ رائے ہے۔ وہ تین کتب کے بیسٹ سیلر اور پاپولر مصنف ہیں۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ 67برسوں میں ہم قائداعظم ؒ کے افکار ونظریات کی روشنی میں پاکستان میں کوئی واضح نظام نافذ نہیں کرسکے۔ ہمارے ہاں آئین سے لے کر معاشی نظام تک ہرقسم کی پیوند کاری موجود ہے،جس کا مہلک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی ایک قوم نہیں بن سکے۔ آج بھی ہمیں باہر کی دنیا میں بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ ہی سمجھا جاتا ہے۔ جو مرضی ہمیں جذبات میں لا کر ہانکتا اور لے جاتا ہے۔ 1934 ء سے لے کر 1947ء تک قائداعظم ؒ کی سو سے زائد واضح تقریریں اس موضوع پر موجود ہیں۔ بالخصوص 10جنوری 1939ء کو قائداعظم ؒ نے پٹنہ میں تقریر کی۔ تیرہ سال تک وہ یہی واضح کرتے رہے۔ اس سلسلے میں ان کا ذہن ابہام اور مفاہمت سے بالکل پاک تھا۔ اس کے بعد 30اکتوبر 1947ء کو لاہور میں جو تقریرکی، اس میں بھی یہی کہا کہ ’’ہم قرآن مجید سے ہدایت اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ہمیں مجاہدبن کر اپنے اسلامی ہیروز کی تاریخ اور راستے پر چلنا چاہئے۔ ہماری روایات اور تاریخ بڑی تابناک ہے، پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور اس کے لئے ہمیں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ قائداعظم ؒ اسلام کو مکمل ضابط�ۂ حیات اور اسے ایک سنہری روایات کا امین اور روحانی فلسفہ سمجھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اسلام ہمیں سماجی ، سیاسی اور معاشی تمام شعبہ ہائے زندگی میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام ہمیں عزت نفس،یکجہتی ، توازن واعتدال اور سب کے لئے انصاف کا درس دیتا ہے۔

قائداعظم ؒ اور ان کے ساتھیوں کی ان شبانہ روز محنتوں اور جدوجہد کا ہی نتیجہ تھا کہ مسلم لیگ نے 1946ء میں مرکزی اسمبلی کی 495سیٹوں میں سے 446سیٹیں جیت لی تھیں اور کسی شک وشبہ اور اعتراض کے بغیر یہ ثابت کردیا کہ قائداعظم ؒ کی بے مثال اور دیانت دارانہ قیادت نے پاکستان جیسی نعمت سے ہمیں ہمکنار کیا ۔ پوری مسلم لیگ میں ان جیسا کوئی اور رہنما نہیں تھا۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ہم قائداعظمؒ کی 11اگست والی تقریر میں سے صرف اقلیتوں کے حقوق کی بات کیوں کرتے ہیں۔ قائد ؒ نے تو سب سے پہلے یہ فرمایا تھا کہ دستور ساز اسمبلی کی پہلی ذمہ داری اس ملک کو ایک دستور بناکر دینا ہے، جو اپنی نااہلی اور نااتفاقی کی وجہ سے ہمارے سیاستدان 9سال تک نہ بناسکے۔ بالآخر پہلا آئین ایک بیورو کریٹ نے بنایا، جس کی زندگی بہت مختصر ثابت ہوئی۔ قائداعظم ؒ نے فرمایا تھا کہ رشوت ، کرپشن اور اقرباپروری کی لعنتوں سے دور رہنا ۔ ہمارے مسلم لیگی قائدین اور دیگر سیاسی حکمرانوں نے ان تینوں لعنتوں کو اب تک سینے سے لگا رکھا ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی کی لعنتوں کی وجہ سے عام آدمی کو روزمرہ استعمال کی معمولی اشیاء بھی میسر نہیں آسکیں گی۔ مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام کی زندگی دشوار ہو جائے گی۔ ہماری حکومتوں میں موجود کابینہ کے کئی وزراء ان ’’نیک‘‘ کاموں میں بری طرح ملوث رہے ہیں اور اب بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ وہ اپنی ہر طرح کی کرپشن پر پردہ ڈالنے اور سہارا دینے کے لئے سیاست کا ’’سنہری کاروبار‘‘ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس پر مستزاد اپنے ہی خاندان کو نوازتے چلے جانے والی خاندانی جمہوریت اس ملک کے کروڑوں غریب عوام کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے:

جانے کب ہوں گے کم؟

اس دنیا کے غم ؟

مزید :

کالم -