عمران خان ناکام کیوں ہوئے؟
بھارتی ریاست آندھیرا پردیش میں وائی۔ ایس ریڈی نام کے ایک معروف ڈاکٹر اور ماہر سرجن تھے۔ ان کی صوبہ بھر میں شہرت تھی۔ وہ امرا کے طبقے سے بلاشبہ ٹھیک ٹھاک فیس لیتے۔ لیکن غریبوں کا علاج اور آپریشن تک مفت کرتے تھے۔ دوران پریکٹس انہوں نے محسوس کیا۔ کہ میرے صوبے کے لوگ غربت اور افلاس میں دھنسے ہوئے ہیں۔ محض مفت علاج یا اپریشن مسئلے کا حل نہیں۔ اس کی بجائے اگر سیاست کو عبادت سمجھ کر اختیار کیا جائے۔ تو اس کا میدان نسبتاً وسیع تر ہے۔ اس سے آہستہ ہی سہی تاہم بنی نوع انسان کے مسائل کو حل کرنے میں مددمل سکتی ہے۔ یہ سوچ کر انہوں نے کانگرس کو جائن کیا۔ اور سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا۔ چاردفعہ لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ ایوان کے اندر غریب طبقات کیلئے قانون سازی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔
پھر 6دفعہ ریاستی انتخاب لڑا اور ہربار پہلے سے زیادہ اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ بطور اپوزیشن لیڈر 2003ء میں انہوں نے 1400کلومیٹر پیدل چل کر غریب ترین بستیوں میں کسانوں اور مزدورں کی غربت اور حالت زار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان مناظرنے ان کو پہلے سے کہیں زیادہ درد مند اور حساس انسان بنادیا۔ 2004ء کے انتخابات میں وہ اور ان کی پارٹی بھاری اکثریت سے جیتے اور وہ آندھرا پردیشن کے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔ 5سال کی حکمرانی میں انہوں نے جنتا سے تمام وعدے پورے کئے۔ انہوں نے سب سے پہلے صوبہ میں پینے کیلئے، کھیتوں کو سیراب کرنے اور بجلی پیدا کرنے کیلئے وافر پانی کا مسئلہ حل کیا۔ ایک کھرب 60ارب روپے آبپاشی سکیموں پر خرچ کئے۔ وہ آندھرا کے 2بڑے دریاؤں گود اوری اور کرشنا کو ملانے پر کام کر رہے تھے۔ اور 70نئے آبی ذخائر تعمیر کر رہے تھے۔ کسانوں کو روزانہ 7گھنٹے ٹیوب ویل چلانے کیلئے بجلی مفت مہیا کی۔ انہوں نے صوبے میں ایک سال میں ایک کروڑ 78لاکھ ٹن چاول پیدا کرکے ریکارڈ قائم کیا۔ جسے بڑھانے کا عزم تھا۔ انہوں نے غریبوں کو کھانے کیلئے مخصوص مقدار میں چاول صرف2روپے کلو کے حساب سے فراہم کئے۔
اس کے علاوہ انہوں نے غریب اور نادار لوگوں کے لئے ہیلتھ انشورنس سکیم شروع کی۔ غریب عورتوں کے لئے صرف 3فیصد سود پر آسان قرضے فراہم کئے۔ غریبوں کو کم قیمت پر گھر بناکردیئے۔ اقلیتوں کے لئے فنانس کارپوریشن بنائی۔ مسلمان اقلیت کی خواہش کے مطابق ان کے لئے ملازمتوں میں کوٹہ مخصوص کرایا۔ مسلمان محسوس کرتے تھے کہ 60سال میں وائی ایس۔ ریڈی پہلے لیڈر ہیں۔ جنہوں نے انہیں ریلیف دینے میں ٹھوس قدم اٹھایا۔ 2009ء میں الیکشن ہوئے تو ریڈی پہلے سے زیادہ بھاری اکثریت سے ریاست کے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔ وہ چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ انہیں ایک دورا افتادہ پہاڑی علاقے میں خوراک کی کمی کا احساس ہوا۔ وہ مسائل کیلئے صرف سرکاری حکام پر انحصار نہیں کرتے تھے۔ موسم کی خرابی اور بارش کے باوجود ایک پرانے ہیلی کاپٹر پر 3افسروں کیساتھ سوار ہوکر روانہ ہوگئے۔ ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا۔ شہروں اور دیہات کے لوگ دعائیں کرتے سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے۔ بھارت کی تاریخ میں ہیلی کاپٹر کیلئے سب سے بڑی تلاش ہوئی۔ بالآخر ہیلی کاپٹر کا ملبہ ایک پہاڑی کی چوٹی پر اور جلی ہوئی لاشیں جنگل میں مل گئیں۔ لاکھوں کروڑوں عوام ماتم کرتے نظر آتے۔ ہائے ہمارا ان داتا ہائے ہمارا باپ ہم سے جدا ہوگیا۔ 24گھنٹے میں 99لوگ دل کا دورہ پڑنے سے جان سے گئے۔ اور 22اس خبر کا صدمہ برداشت نہ کرسکے اور خود کشی کرلی۔ وائی ایس ریڈی کے دادا ہندو تھے۔ انہوں نے عیسائیت اختیار کی۔ خود ریڈی بھی راسخ العقیدہ عیسائی تھے۔ باقاعدگی سے سنڈے کو چرچ جاتے اور متعدد بار یروشلم جاکر مقدس مقامات کی زیارت کرچکے تھے۔ لیکن ان کے لئے جانیں قربان کرنے والوں میں ہندوؤں اور دوسرے فرقوں کی اکثریت تھی۔
عمران خان کھیل کے میدان کا ہیرو تھا۔ اس نے کرکٹ میں ورلڈ کپ جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا۔ اس نے والدہ مرحومہ کی یاد میں جو کینسر کے موذی مرض کا نشانہ بنی تھیں شوکت خانم میموریل ہسپتال تعمیر کرکے عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔ جہاں غریبوں اور نادرا مریضوں کا انتہائی مہنگا علاج مفت ہوتاہے۔ تعلیم کے میدان میں خدمات کا الگ باب ہے۔ عمران خان نے اپنے عظیم منصوبوں کیلئے چندے کی مہم چلائی۔ جو اب تک جاری ہے۔ لوگ اپنی خوشی سے ان کو چندہ دیتے ہیں۔ ان پر بے پناہ اعتماد ہے۔ آج تک ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگا۔ عمران خان نے بھی وائی۔ ایس ریڈی کی طرح محسوس کیا کہ انسانی خدمت کیلئے یہ ادارے محدود اور ناکافی ہیں اگر سیاست کو فی الواقعہ بطور عبادت اختیار کیا جائے تو غریب انسانوں اور پسے ہوئے طبقات کے دکھوں کو بہتر طور پر کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ سوچ کر سیاست کے خارزار میں قدم رکھنے کا فیصلہ کرلیا وائی ایس ریڈی نے تو کانگرس کوجوائن کرلیا تھا۔ مگر عمران خان نے کسی سیاسی پارٹی کو اس قابل نہ سمجھا کہ وہ اس میں شامل ہوجاتے ان کو نیا جادہ تراشنے کا کٹھن کام کرنا پڑا انہوں نے تحریک انصاف کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی انہیں اس راہ میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر ہمت نہیں ہاری قدرت نے اس شخص کو بے پناہ خوداعتمادی اور قوت ارادی کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ وہ طلباء و طالبات اور نوجوان طبقے میں تو پہلے ہی مقبول تھے۔ 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور کے عظیم الشان تاریخی اجتماع نے کایا ہی پلٹ دی نوجوانوں کے علاوہ اپرمڈل کلاس کا وہ طبقہ جو سیاست یا انتخابی سیاست میں کوئی دلچسپی نہ رکھتا تھا وہ لوگ بال بچوں سمیت جلسے میں شریک تھے۔ عمران نے جلسوں کو موسیقی رقص و سرود کی رونق سے ایک نیا رنگ بخشا تھا لوگ جوق درجوق تحریک انصاف میں شامل ہوتے گئے پارٹی کا گراف آسمان کو چھونے لگا دوسری جماعتوں کے بڑے بڑے (Electable)ستون تحریک انصاف میں داخلے کی درخواستیں لئے کھڑے تھے۔
مئی 2013ء کے جنرل الیکشن تک پوزیشن یہ تھی کہ بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے اقتدار کے پانچ سال تو پورے کرلئے مگر بدنامیاں اتنی سمیٹ لیں کہ اس کا مستقبل مخدوش ہوگیا۔ لگتا تھا کہ مقابلہ (ن) لیگ اور تحریک انصاف میں برابر کا ہے۔ بلکہ عمران خان سمیت کچھ حلقوں کی خوش فہمی اسے اپرہینڈ دینے لگیں۔ مگر ایک تو تحریک کی تنظیم سازی میں گڑ بڑ ہوئی، غلط لوگوں کو ٹکٹ دیئے گئے۔ اور بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹ نہ تھے۔ دھاندلی کے الزامات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تحریک انصاف مقابلے میں پہلے نمبر پر نہ آسکی۔ ووٹوں کے اعتبار سے دوسرے اور نمائندگی کے لحاظ سے تیسری بڑی پارٹی کے طورپر نمایاں ہوئی۔
سب سے کم عمر سیاسی جماعت کے حوالے سے یہ کامیابی کوئی معمولی کامیابی نہ تھی قومی اسمبلی میں موثر نمائندگی سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اپوزیشن لیڈر کا اعزاز اور خیبر پختونخوا صوبے میں حکومت بنانے میں کامران گویا عمران خان کو اپنے ایجنڈے کے نفاذ کیلئے بہترین فورم مل گئے۔ وہ پارلیمنٹ میں عوامی فلاح و بہبود کی قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ان کی پارٹی مفاد پرست طبقات غریب عوام کے حق میں قانون سازی کی راہ میں مزاحم ہوتے تو عوام میں بدنام ہوتے ملک کا مستعد میڈیا اپنے الفاظ اور تبصروں سے انکی چمڑی ادھیڑدیتا اور سارا کریڈت تحریک انصاف کو ملتا اسی طرح صوبہ پنجاب میں ایک موثر اپوزیشن کے طور پر انہی لائنوں پر زبردست کام ہوسکتا تھا جہاں تک صوبہ خیبر پختون خوا کا تعلق ہے وہاں تو بادشاہی اپنی تھی سارے حسین خوابوں کی تعبیر کیلئے بہترین تجربہ گاہ میسر تھی۔ یہ یادرہے کہ عمل کی ایک رتی، ٹنوں خالی وعظ اور زبانی دعووں پر بھاری ہوتی ہے۔ مثلاً وائی۔ ایس ریڈی کے آندھراپردیش کی طرح نہ صرف کے پی کے بلکہ پاکستان کیلئے پانی کا بندوبست کرتے۔ وہ کالا باغ ڈیم کے منصوبے پر عمل کا تردو کرتے اس کیلئے حالات پہلے ہی بہت سازگار ہیں۔ صوبہ سرحد سے ہی بھارت کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے اور بھارت کے ایما پر اس ڈیم کی مخالفت کرنے والے شکست کھا کر اوندھے پڑے ہیں۔ عبدالمالک بلوچ کے بلوچستان کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ بلاول اور زرداری کو راضی کرنا مشکل نہیں ہے بھٹو صاحب کے عہد میں ڈیم پر سب سے زیادہ کام ہوا اور محترمہ بے نظیر اسکے حق میں تھیں اس سے نہ صرف لاکھوں ایکڑ زمین سیراب ہوتی لوڈشیڈنگ سے جان چھوٹتی اور پن بجلی ڈیڑھ روپے فی یونٹ میسر آتی۔ تو صنعت وزراعت کے فروغ سے ملک خوشحال ہوتا کالا باغ ڈیم عمران خان جیسے مرد میدان کا منتظر تھا عمران خان اپنی زیرنگرانی صوبے میں غریبوں کیلئے وہ اصلاحات لاتے جن کا نمونہ ہم وائی۔ ایس ریڈی کے آندھرا پردیش میں دیکھ چکے ہیں مگر عمران خان کی جس بشری کمزوری نے سارا کام بگاڑدیاوہ ہوس اقتدار ہے ایک ڈاکٹر کی خدمت بجالا کر اس سے وزرات عظمیٰ کا انعام طلب کرتے ہیں۔ کبھی لندن پلان کی خفیہ گھناؤنی سازشوں میں شریک ہوتے ہیں کبھی تھرڈ امپائر کی انگلی اٹھنے کی خوش خبری سناکر پاکستان کے محب وطن اور ہردلعزیز ادارے کو بدنام کرتے ہیں۔ کاش انہوں نے وائی ایس ریڈی کی کتاب زندگی کاایک ورق ہی پڑھا ہوتا۔ تو وزرات عظمیٰ نام کی ’’شاہ پری‘‘ بدیع الجمال اس سیف الملوک کی تلاش میں ’’بنی گالہ‘‘ کے چکر کاٹ رہی ہوتی۔