سندھ پر حملہ۔۔۔ لیکن کیسے؟
عید میلاد النبیﷺ اور کرسمس کی تعطیلات سمیت لانگ ویک اینڈ ختم ہوا تو پہلے ہی ورکنگ ڈے پر 28 دسمبر کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کراچی کا دورہ کیا۔یہ دورہ کئی حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل تھا، جس میں کراچی میں کاروبار کی بحالی ،بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی، لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ اور امن و امان کے قیام کے لئے بہت اہم پیشرفت ہوئی۔ حالیہ کچھ دنوں سے وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کے درمیان کراچی میں رینجرز کے اختیارات اور قیام میں توسیع کے معاملہ پر ایک ڈیڈلاک کی سی کیفیت موجود ہے، اس لئے اس کشمکش کے تناظر میں بھی وزیراعظم میاں نواز شریف کے دورہ کو بہت اہمیت دی گئی اور اس کے تمام لمحات کو خوردبینی نگاہ سے دیکھا گیا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے دورہ کراچی میں رینجرز اور آئی جی پولیس کی تعریف کی ،لیکن وزیر اعلی سندھ کا ذکر تک نہیں کیا۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ وزیراعلی سید قائم علی شاہ کو کراچی آپریشن کا کپتان کہا جاتا ہے ،لیکن وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے دورہ کراچی میں اس کپتان کا ذکر تک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ البتہ اسلام آباد واپس پہنچ کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعلی سندھ کو وفاقی دارالحکومت میں طلب ضرور کر لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ رینجرز کے اختیارات اور اس کے قیام میں توسیع کے مسئلہ پر وفاق اور سندھ حکومت میں پیدا ہونے والے اختلافات کیا رنگ لاتے ہیں اور اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ سائیں سرکار سید قائم علی شاہ کو رہ رہ کر یہ خیال نہ جانے کیوںآتا ہے کہ سندھ پر وفاق نے حملہ کر دیا ہے۔ ویسے تو سندھ میں رینجرز پچیس سال سے لگاتار تعینات ہے اور موجودہ کراچی آپریشن کو بھی دو سال سے زائدکا عرصہ گذر چکا ہے ،لیکن شاہ صاحب کو اس حملہ کا پتہ اس وقت چلا جب ڈاکٹر عاصم حسین پر وفاقی تحقیقاتی اداروں نے اپنا گھیرا تنگ کیا۔ انہوں نے جیسے تیسے کرکے نیب کے ریمانڈکے 90 دن گذرنے کا انتظار کیا ،لیکن جب یہ بات واضح ہو گئی کہ ڈاکٹر عاصم حسین کی جان ابھی اتنی آسانی سے نہیں چھوٹے گی تو شاہ صاحب کو یکا یک دوبارہ یاد آگیا کہ سندھ پر وفاق نے حملہ کردیا ہے۔ اب چونکہ رینجرز کے اختیارات اور قیام میں توسیع کے معاملہ پر وفاق اور سندھ میں اختلافات منظر عام پر آچکے ہیں، اس لئے میرے نزدیک یہ مناسب ہو گا کہ ا س بات کا جائزہ لیا جائے کہ وفاق اور صوبائی حکومت میں سے آئینی اور اخلاقی طور پر کس کا موقف زیادہ درست ہے۔
سندھ حکومت نے رینجرز کے اختیارات اور قیام میں توسیع کے معاملہ کو صوبائی اسمبلی میں لے جانے کا فیصلہ کیا ۔ اگر آئینی طور پر دیکھا جائے تو آرٹیکل 147 کے تحت وہ ایسا کرنے کا حق رکھتی ہے اور آئین کی اسی شق کے تحت سندھ حکومت نے صوبائی اسمبلی میں قرارداد پیش کی ہے۔ آج کل وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ، صوبائی مشیر برائے سیاسی امور سینیٹر مولا بخش چانڈیو اور سینئیر وزیر نثار کھوڑو سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے اکثر راہنما آئین پاکستان کے اس آرٹیکل کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں ،جس میں اٹھارویں ترمیم میں اس جملہ کا اضافہ کیا گیا ہے کہ وفاق کی جانب سے کی گئی کارروائی کو ساٹھ دن کے اندر صوبائی اسمبلی کی منظوری درکار ہو گی۔اگر معاملہ یہیں تک محدود ہو تو اس حد تک صوبائی حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا موقف درست کہا جا سکتا ہے ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آرٹیکل 147 کے ساتھ ہی اگلے دو آرٹیکل یعنی 148 اور 149 بھی آئین میں موجود ہیں ، اس لئے صرف آرٹیکل 147 کی بات کرنا غلط ہو گا، بلکہ ہمیں وسیع تناظر میں آئین پاکستان کا مجموعی طور پر مطالعہ کرنا ہو گا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 148 کی شق 3 کہتی ہے کہ ملک کے کسی بھی صوبہ کو اگر بیرونی جارحیت یا اندرونی خطرات درپیش ہوں تو وفاق اسے دور کرنے کا پابند ہو گا ،جبکہ آرٹیکل 149 کی شق 4 میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کسی بھی صوبہ میں امن و امان کو درپیش خطرات میں وفاق اپنا کردار کرے گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اگر وفاقی حکومت فیصلہ کرتی ہے کہ کراچی میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان ، قتل و غارت گری ، کرپشن اور دوسرے معاملات کو ہینڈل کرنے کے لئے اسے اپنا کردار ادا کرنا ہے تو یہ آئین پاکستان کے عین مطابق ہو گا اور یہاں سندھ حکومت یا پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا واویلا نہ صرف غلط ،بلکہ آئین سے متصادم ہے۔
سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت 2008 سے قائم ہے اور سید قائم علی شاہ کو وزارت اعلی کے منصب پر بیٹھے تقریباً آٹھ سال پورے ہونے والے ہیں۔ یہ آٹھ سال بیڈ گوورننس اور کرپشن کی لاتعداد مثالوں سے بھرپور ہیں اور جس طرح پیپلز پارٹی وفاق میں اپنے پچھلے دور میں ڈلیور کرنے میں ناکام رہی تھی، اسی طرح صوبہ سندھ میں بھی بری طرح ناکامی سے دوچار نظر آتی ہے۔ یہ ایک ایسی حکومت ہے، جس کا دارالحکومت نہ صرف اپنے صوبہ ،بلکہ اپنے ملک کی بجائے ایک دوسرے ملک متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میں ہے اور اس کی کابینہ کے علاوہ حکمران پارٹی کے اجلاس بھی وہیں ایک دوسرے ملک میں ہوتے ہیں۔ صوبہ سندھ کے معاملات کو سدھارنا آئین کے آرٹیکلز 148 اور149 کے تحت وفاق کی ذمہ داری ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب سے کراچی میں آپریشن شروع کیا گیا ہے وہاں کے معاملات میں سدھار آنا شروع ہوگیا ہے، جس کی سب سے زیادہ تعریف خود کراچی کے لوگ کرتے ہیں۔ آپریشن کی وجہ سے شہر میں قتل و غارت گری، دہشت گردی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں کمی آئی ہے، شہر کے کاروباری طبقات اب نہ صرف پہلے سے زیادہ پر اعتماد ہیں ،بلکہ اغوا برائے تاوان اور انجانی گولی کا نشانہ بننے کی بجائے اب اپنے اپنے کاروبار میں زیادہ مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کراچی شہر اور اس کے ڈھائی کروڑ عوام کا حق ادا کر دیا ہے اور آنے والے دنوں میں انہوں نے اسے اور زیادہ تیز کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ اپنے حالیہ دورہ میں بھی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے با آواز بلند اعلان کیا ہے کہ وہ اور ان کی حکومت کراچی میں بحالی امن کا مشن ادھورا نہیں چھوڑے گی۔ انہوں نے درست ہی کہا ہے کہ آج کے کراچی کا تین سال پہلے سے موازنہ کیا جائے تو ساری تصویر واضح ہو جاتی ہے ۔ میرے نزدیک کراچی آپریشن نہ صرف جاری رہنا چاہئے ،بلکہ اس میں اب مزید اور بلا تخصیصس تیزی لانی چاہئے، تاکہ شہر کا امن و امان بہتر ہو اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کار یہاں کا رخ کریں۔ بعض لوگ اکثر سندھ میں گورنر راج کی باتیں کرتے رہتے ہیں ،لیکن غالباً وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبہ میں گورنر راج کا آپشن نا قابلِ عمل ہو چکا ہے اس لئے میرے نزدیک یہ سرے سے کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔
آرٹیکل 245 کے تحت فوج یا پیرا ملٹری دستوں کی تعیناتی بھی ایک خالصتاً آئینی معاملہ ہے اس لئے اس کا حوالہ دینا بھی نا مناسب ہے۔ البتہ میں اس بات کو رد نہیں کرتا کہ آئین پاکستان کے ان تمام آرٹیکلز جن کا میں نے حوالہ دیا ہے اس میں آرٹیکل 25-A کو مدنظر رکھنے کا مطالبہ غلط نہیں ہے، جس کے تحت ان سب کا اطلاق نہ صرف سندھ ،بلکہ دوسرے صوبوں پر بھی ہو سکتا ہے ،کیونکہ یہ آرٹیکل ملک میں مساوات پیدا کرنے کے اعتبار سے اہم ہے۔میں جب اس ساری صورت حال کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتا ہوں تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ سید قائم علی شاہ کی طرف سے لگایا گیا الزام کہ وفاق نے سندھ پر حملہ کردیا ہے، نہ صرف غلط ہے ،بلکہ یہ ان کے اپنے عوام کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ کراچی کے حالات کی وجہ سے یہ وفاق کی آئینی، اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے جو وہ پورا کر رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں حالات میں بھی تیزی سے بہتری آ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سندھ میں جس طرح کی قتل و غارت گری، لا قانونیت اور کرپشن پچھلے کئی سال سے موجود ہے، ایسی صورت حال میں اگر وفاق اپنی یہ ذمہ داری پوری نہ کرتا تو پھر وہ سندھ کے عوام پر حملہ کے مترادف ہوتا۔