عاصی رضوی کی یاد میں
اپنے شہر، گراں سے محبت کا دعویٰ ہر کوئی کرتا ہے لیکن محبت کا ثبوت کوئی کوئی دیتا ہے۔ ڈاکٹر محمد منیر احمد سیلچ بھی اپنے شہر گجرات سے شدید محبت رکھتے ہیں اور اس کا ثبوت وہ اپنے قلم سے دیتے ہیں۔
سب سے پہلے انہوں نے ’’خفتگان خاک گجرات‘‘ کتاب لکھی۔ پھر پیر فضل گجراتی کو موضوع تحقیق بنایا اور سچی بات ہے تحقیق کا حق ادا کر دیا۔
تیسرا کارنامہ ’’گجرات کا علمی سرمایہ‘‘ اور چوتھا کارنامہ عاصی رضوی مرحوم کا پنجابی کلام مرتب کر کے انجام دیا ہے۔موخر الذکر کتاب کی ضخامت140صفحات پر مشتمل ہے اور اسے پنجابی انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر نے طباعت و اشاعت کے اعلیٰ معیار پر شائع کیا ہے۔اس کا عنوان ہے:’’سجرے پھٹ‘‘ یعنی تازہ زخم۔
فاضل مرتب ڈاکٹر سیلچ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق عاصی رضوی کا اصل نام لال محمد تھا۔وہ 16اپریل 1933ء کو اپنے آبائی گاؤں سرسالہ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔والد کا نام فضل احمد تھا، جو پیشہ کے لحاظ سے حجام تھے۔ عاصی رضوی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے حاصل کی،پھر ان کے والد انہیں پشاور لے گئے۔
وہیں رہتے ہوئے ان کا شعری سفر شروع ہوا۔پشاور ہی کے ایک معروف شاعر یونس رضوی کی رہنمائی سے عاصی رضوی کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملی۔
پہلے پہل اُردوزبان ذریعۂ اظہار بنی، پھر رفتہ رفتہ پنجابی کی طرف بھی آ گئے۔مقامی مشاعروں میں کلام پڑھتے اور داد و تحسین کے حق دار ٹھہرتے۔اِسی دور میں ان کی احمد فراز، شاد امرتسری اور رضا ہمدانی سے دوستی ہو گئی۔
عاصی رضوی نے پشاور ہی میں قراقلی ٹوپیوں کا کام سیکھ لیا تھا۔1964ء میں عاصی گجرات آ گئے اور دو سال تک زمیندار سائنس کالج کی کینٹین چلائی۔اس کے بعد قراقلی ٹوپیوں کی اپنی دکان بنا لی،جہاں وہ اپنے ہاتھ سے ٹوپیاں تیار کرتے تھے۔
1954ء میں ان کی شادی خالہ زاد عنایت بیگم سے ہوئی، جن سے چھے بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔1976ء میں ان کی صحت گرنے لگی۔ معدے کے کینسر کا عارضہ ایسا لاحق ہوا کہ جس نے 29دسمبر1979ء کو ان کی جان لے کر چھوڑی۔ وفات سے پہلے وہ اپنے آبائی گاؤں سرسالہ منتقل ہو چکے تھے، وہیں سپردِ خاک ہوئے۔اس وقت ان کی عمر48سال تھی۔
عاصی رضوی نے تنگی ترشی کی زندگی گزاری، بڑی کوشش سے 1963ء میں اپنا ایک مجموعہ کلام ’’اڈیکاں‘‘ کے عنوان سے چھپوا سکے۔ بعد میں ان کی شاعری معاصر رسائل میں شائع ہوتی رہی۔بڑی خود دار طبیعت کے مالک تھے۔ شاعروں کی دھڑے بندیوں سے عموماً دُور رہتے۔
جب تک انہیں باقاعدہ دعوت نہ دی جاتی کسی مشاعرے میں پڑھنے پر آمادہ نہ ہوتے۔اکثر اپنا کلام ترنم سے پڑھتے اور اہلِ محفل کو تڑپا دیتے تھے۔
ان کے حلقہ احباب میں چودھری افتخار احمد، شفیق قریشی، پروفیسر سیف الرحمن سیفی،ریاض مفتی، مفتی بشارت احمد ایڈووکیٹ، ڈاکٹر مشکور اور پروفیسر حامد حسن سیّد شامل تھے۔ عاصی کے شاگرد منیر صابری کنجاہی کے بقول: عاصی کی پنجابی شاعری کے مداحوں میں ایک نام درشن سنگھ آوارہ کا بھی تھا۔
آوارہ جہلم کے رہنے والے تھے، لیکن تقسیم کے دوران بھارت منتقل ہو گئے تھے۔ایک دفعہ وہ اپنے مذہبی مقامات کی یاترا کے لئے پاکستان آئے تو خاص طور پر عاصی سے ملنے گجرات آئے۔
چنانچہ ملاقات ہوئی اور آوارہ حسن ابدال جاتے ہوئے اپنے ساتھ عاصی کو بھی لے گئے۔ اِسی ملاقات کے دوران عاصی نے آوارہ کے لئے ایک شعر بھی کہا جو حسن ابدال کے ایک مشاعرے میں پڑھا اور بہت داد پائی۔شعر کچھ اِس طرح تھا:
گنگا ٹُر کے گھر وچ آ گئی جام صراحیاں بھر لو
درشن ہوراں مُڑ نئیں آونا رج رج درشن کر لو
عاصی رضوی کے زیر نظر مجموعہ (سجرے پھٹ) کے پہلے حصے میں تین نعتیں، ایک منقبت(امام عالی مقام)، 12غزلیں، 14نظمیں اور چارگیت شامل ہیں۔
دوسرے حصے میں ’’اڈیکاں‘‘ مجموعہ شامل ہے، جس میں 11 غزلیں اور44 نظمیں شامل ہیں۔ان کی غزل روایتی ہئیت کی مالک ہوتے ہوئے بھی معنوی طور پر روایتی نہیں۔
انہوں نے ذاتی زندگی کے نشیب و فراز بھی بہت دیکھے اور معاصر دُنیا کے استحصالی رویئے بھی۔نئے سرمایہ دار نظام نے مشرقی اقدار کو جیسے تلپٹ کیا،اس کا کرب ان کی شاعر میں فراواں ملتا ہے۔نمونے کے چند اشعار قارئین کی نذر کئے جاتے ہیں:
کڈھن والے پُھلاں وچوں خوشبواں کڈھ لیندے
لوڑ پوے تے لوکی کچیاں لگراں نوں وڈھ لیندے
اپنی لوڑ نوں لوکاں نے فرعون نوں سجدے کیتے
لوڑاں باہج نہ زہر کسے نے ہتھیں گھول کے پیتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جد وی اوہ راہ ولا کے لنگھیا
ہتھ کلیجے پا کے لنگھیا!
تا رُو ہُندیاں پیار ندی چوں
لکھاں غوطے کھا کے لنگھیا
اسیں وی سُگھّڑ سیانے ہو گئے
ویلا سبق پڑھا کے لنگھیا
پنجر جُوہ چوں نہر دا پانی
کنیاں جُھگیاں ڈھا کے لنگھیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھانویں میں نہیں مکھیں ڈِٹھا کاروبار کسے دا
سوچاں د ے وچ پا گیا مینوں ہار سنگھار کسے دا
ماپے وی ظالم ہُندے نیں کہنا پے گیا مینوں
ڈولی چڑھدیاں ویکھ کے عاصی رنگ وسار کسے دا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قطعہ:
دُھپے بیٹھیاں چربی پگھلے
چھانویں جُثہ ٹھر جاندا ائے
بُھکھ تے ننگ دے موسم اندر
جیوند یاں بندہ مر جاندا اے