بے نظیر قتل کے سربستہ راز؟
جنرل(ر) پرویز مشرف غالباً وہ واحد اعلیٰ فوجی افسر ہیں جو اپنے اس ادارے کو مشکل میں ڈالنے سے باز نہیں آتے، غالباً وہ شعوری طور پر کوشش کررہے ہیں کہ اپنے کردہ گناہوں میں پوری فوج ہی کو ملوث کرلیا جائے تبھی تووہ ڈٹ کر کہتے ہیں کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف رہے ہیں اور فوج ان کی عزت کرے گی اور کرتی ہے، انہوں نے ملک سے باہر چلے جانے کو بھی جنرل(ر) راحیل شریف کے کھاتے میں ڈالا ہے، ان کی ایسی ہی باتوں سے اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ اب کہی ناکہی سب کو سامنے آنا چاہئے، جب سے پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن، سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا ذکر شروع ہوا تب سے جنرل(ر) پرویز مشرف اور آصف علی زرداری معہ بلاول بھٹو زرداری کے درمیان الزام تراشی کا ایک سلسلہ شروع ہوچکا ہے، بلاول اور آصف علی زرداری نے تو سابق آرمی چیف کو چیلنج بھی کردیا ہے کہ وہ ملک میں واپس آکر مقدمات کا تو سامنا کریں(یہ چیلنج سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے بھی دیا) جبکہ یہ پرویز مشرف جو کارگل کے تنازعہ میں بھی ایک بڑے فریق ہیں، واپسی کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن آنے کا نام نہیں لیتے ہمیں تو ان کے اس انٹرویو سے افسوس اور دکھ ہواجس میں انہوں نے یہ کہہ دیا کہ فوج کے بعض برگشتہ عناصر محترمہ کی شہادت کے معاملے میں ملوث ہو سکتے ہیں، یہ پرویز مشرف وہی ہیں جنہوں نے قتل عام پر مکالہرا کر کہا تھا: ’’ دیکھی عوام کی پاور‘‘ ۔۔۔اس وقت کراچی میں قتل عام ہو رہا تھا، پھر انہی پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کی سربراہی کی کوشش کی اور اب وہ خیر خواہ ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ایم، کیو، ایم میں کوئی تفریق نہ ہو اور پھر سے پرانی جماعت بن جائے، بلاول بھٹو زرداری نے کمر درد کا طعنہ دیا جو خود ان(مشرف) کی جاری کردہ ویڈیو سے درست ثابت ہوتا ہے کہ وہ اچھے بھلے چلتے پھرتے اور سمارٹ ہیں پھر ڈانس تو واقعی کرتے ہیں جو کسی کمر درد والے کے بس کی بات نہیں۔
یہ اپنی جگہ درست لیکن کچھ پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی تو تشنگی ہے، محترمہ کی ذاتی سیکیورٹی کے ذمہ دار عبدالرحمان ملک جو ترقی کرکے ایف، آئی، اے سے وزیر داخلہ کے منصب تک پہنچے خود پر اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب نہیں دیتے اور اب انہوں نے کہہ دیا ہے کہ محترمہ کا قاتل کابل میں بیٹھا ہوا ہے ملک صاحب کو ان تمام سوالات کا جواب دینا چاہئے جوان کی ذات کے بارے میں کئے جاتے ہیں کہ وہ اب بھی پیپلز پارٹی کے ایک ذمہ دار راہنما ہیں اس کا اندازہ اسی امر سے لگالیں کہ آج پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی کررہے ہیں، محترم رحمن ملک صاحب کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ خود پیپلز پارٹی کے اندر سانحہ لیاقت باغ اور محترمہ کی شہادت کے حوالے سے ان کے لئے ’’ محفوظ خانہ‘‘ نہیں ہے اور موقع ملے تو بہت سے حضرات ان سے براہ راست سوال پوچھنا چاہیں گے، ایک بات تو ہمیں بھی کھٹکتی ہے کہ جس وقت یہ سانحہ پیش آیا اس وقت جلسہ میں موجود تھے ، پھر اچانک کہاں غائب ہوگئے تھے؟ بہر حال یہ ان کی جماعت کا مسئلہ ہے، وہ جواب مانگیں اور یہ دیں اور وضاحت ہونا چاہئے۔
اب جنرل (ر) پرویز مشرف اور آصف علی زرداری+بلاول بھٹو زرداری کے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ الزام در الزام پر مبنی ہے، اس میں صرف دو باتیں وضاحت طلب ہیں جنرل پرویز مشرف الزام لگاتے ہیں، شک کا اظہار کرتے ہیں تو نکتہ یہ ہوتا ہے کہ اس شہادت سے سب سے زیادہ فائدہ کسے ہوا؟ لیکن دوسری طرف سے محترمہ کے ایک خط کا حوالہ آتا ہے، محترمہ نے مارک سیگل کو ایک ای، میل میں لکھا اور فون پر بھی کہا کہ جنرل(ر) پرویز مشرف نے ان(محترمہ) کو پاکستان نہ آنے کے لئے کہا ہے، دوسری صورت میں عدم تحفظ کی بات کی۔ محترمہ کی دسویں برسی کے موقع پر ان کی شہادت کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے، بدقسمتی ہے کہ اس ملک میں جتنے بھی ہائی پروفائل کیس ہوئے ان کی مکمل تفتیش ہو کر صحیح واقعات سامنے نہیں آئے، حالانکہ یہ سلسلہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان کی شہادت سے شروع ہوا اور اب تک کسی بھی قتل کا واضح سراغ نہیں ملا، لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کی موت سے مرتضیٰ بھٹو اور اکبر بگتی کے مبینہ قتل تک کی وضاحت نہیں ہوسکی۔
کیا متعلقہ جماعتوں پر لازم نہیں آتا کہ وہ خود ان واقعات اور امور کی تفتیش و تحقیق کرائیں کہ حقائق سامنے آسکیں، اس سلسلے میں اب ہمارے ہم پیشہ صحافت کے ان نوجوانوں پر بھی فرض عائد ہوتا ہے جو رپورٹنگ سے منسلک ہیں کہ متعلقہ سیاسی راہنماؤں سے جواب طلب کریں کہ حقیقت باہر آئے۔
جہاں تک محترمہ بے نظیر بھٹو کا تعلق ہے تو وہ ناہید خان پر بہت اعتبار کرتی تھیں، ان کے ساتھ اس حوالے سے ہمارا ایک مکالمہ یاد گار ہے جو گلزار ہاؤس گلبرگ میں ہوا، ہم نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی طرف سے بیگم ناہید خان کے بارے میں شکایات کے حوالے سے سوال کیا تو محترمہ نے اسے درست نہ جانا ویسے یہ کہا کہ ناہید خان ان کی دست راست ہیں، محترمہ کے الفاظ یہ تھے ’’میں ایک خاتون ہوں اوراس حوالے سے میری کچھ ضروریات بھی ہیں، اس لئے مجھے ایک ایسی کارکن چاہئے جو با اعتماد ہوا اور اس کی میرے بیڈ روم تک رسائی ہو‘‘ ان کے یہ الفاظ بیگم ناہید خان کے دفاع میں تھے۔
یہ ناہید خان اپنے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی کے ساتھ اس گاڑی میں تھیں جس پر حملہ ہوا اور محترمہ بے نظیر بھٹو دنیا سے رخصت ہوئیں۔ بیگم ناہید خان اور ڈاکٹر صفدر عباسی نے محترمہ کی شہادت کے حوالے سے تفتیش کرنے والوں کو اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے مگر وہ کوئی اہم بات نہ بتاسکیں انہوں نے کبھی میڈیا ٹاک میں بھی تفصیلی بات نہیں کی اور اس بارے میں عینی شاہد ہوتے ہوئے واقعات بیان نہیں کئے۔
بہت سے امور اور بہت سے راز سینوں میں دفن چلے آ رہے ہیں اور ایسے کئی سینے منوں مٹی تلے بھی جاکر سو چکے ہوئے ہیں اور یہ سب سر بستہ راز ہی رہے اور شاید آئندہ بھی رہیں، ہماری تو خواہش ہے کہ یہ سب اسرار کھل جائیں لیکن یہاں ہر روز ایک نیا اسرار سامنے آجاتا ہے۔
اب یہ بھی تو ’’کھلا راز‘‘ہے کہ محترم ڈاکٹر طاہر القادری نے دعویٰ کیا کہ وہ عمران خان اور آصف علی زرداری کو اپنے دائیں اور بائیں بٹھاسکتے ہیں، یہاں تک تو یہ بات ٹھیک ہوئی کہ آصف علی زرداری دو بار منہاج القرآن سیکرٹیریٹ جاکر ڈاکٹر طاہر القادری سے ملے اور اسی طرح عمران خان بھی گئے اور ملاقات کی لیکن یہ الگ الگ تھی آج اے،پی، سی میں دونوں جماعتوں کے وفود شریک ہوئے ڈاکٹر موصوف کے دائیں بائیں دوسرے لوگ تھے آصف علی زرداری اور عمران خان آئے ہی نہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے عرض ہے کہ شاید یہ بھی راز ہی رہے، ویسے متاثرین، مقتولین کے وارثان کو سرکاری امداد نہ مل سکی، سیاسی تنازعہ کی نذر ہوگئی، حالانکہ یہ دیت کسی صورت نہیں ہوتی۔