ختم ہوا یہ سال، کھیل رہے روبہ زوال
2017 ء کا آخری سورج آج غروب ہو جائے گاہر کوئی اس سال کیا کھویا کیا پایا کی سوچ کے ساتھ نئے سال2018 ء میں داخل ہونے کی تیاری کررہا ہے۔ یہ سال اُمیدوں اور تمناؤں کی نظر ہوگیا اور عملی طور پر وہ مقاصد حاصل نہیں کئے جاسکے جو سوچ کر 2017 کی جانب قدم رکھا گیا تھا۔نیاسال کھیلوں کی ترقی کے لئے کچھ نیا ثابت ہوگا یا پھر ایک مرتبہ دوبارہ ماضی کی طرح کھیلوں کے ساتھ کھیل ہی کھیلا جائے گا۔پاکستان میں کھیل ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہے بیرون ممالک کھیلوں میں جس تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کررہے ہیں ہم اس قدر ہی پیچھے ہوتے جارہے ہیں پاکستان میں سیاست نے کھیلوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا خواب نئے سال کا سب سے پہلا اور کڑا امتحان پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ نیوزی لینڈ ہے جو پاکستان کی ٹیم کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے کیویز سر زمین پر ہمیشہ ہی پاکستان کو مشکلات درپیش رہی ہیں اور اس مرتبہ بھی پاکستان کے لئے اپنے مضبوط حریف کو شکست دینا آسان ثابت نہیں ہوگا اسی طرح سے انڈر نائنٹین کرکٹ ورلڈ کپ کا آغاز بھی جنوری فروری میں ہورہا ہے اور اس میں پاکستان ٹیم کی جیت ایک بڑا کڑا امتحان ہے جبکہ اس سال پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے دیگرٹیموں کا بھی مقابلہ کرنا ہے جن میں آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اورانگلینڈکی ٹیمیں شامل ہیں۔سب سے بڑھ کر اس سال پاکستان سپر لیگ تیسرا ایڈیشن کا میدان بھی سال کے آغاز میں ہی سجنے کو جارہا ہے جس میں اس مرتبہ چار کے بجائے پانچ ٹیمیں شرکت کررہی ہیں اور ایک ٹیم کا اضافہ پاکستان کی اس لیگ کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے اسطرح پاکستانی شائقین کو اس لیگ کے ذریعہ بہترین کانٹے دارمقابلے دیکھنے کو ملیں گے اس سال کامن ویلتھ گیمزکاانعقاد بھی ہورہا ہے غیرملکی اس بڑے ایونٹ میں جس کا انعقاد گولڈکوسٹ میں ہورہا ہے جس کا آغاز چار اپریل سے پندرہ اپریل تک ہوگا اور آسٹریلیا اس کی میزبانی کررہا ہے جس میں اٹھارہ مختلف کھیلوں میں دو سو پچھتر مقابلے ہوں گے پوری دنیا کے کھلاڑی اس میں ایکشن میں نظرآئیں گے اور پاکستان کے کھلاڑی بھی اس ایونٹ کے مختلف کھیلوں میں ایکشن میں نظر آئیں گے مختلف سٹیڈیمز میں کھیلے جانے والے ان مقابلوں کی تیاری مکمل کی جاچکی ہے اور پاکستان کے کھلاڑیوں کے لئے اس میں شرکت کرنا ایک بڑاچیلنج ہے او راب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستانی کھلاڑی ان مقابلوں میں عمدہ کھیل پیش کرتے ہیں کہ نہیں اس نئے سال ہونے والا یہ ایونٹ ایک ا یسا ایونٹ ہے جس میں پوری دنیا کے شائقین بھرپور دلچسی لیتے ہوئے نظرآئیں گے جبکہ اس سال دنیا کے سب سے مقبول کھیل فٹ بال کا ورلڈکپ بھی منعقد ہورہا ہے اوراس مرتبہ یہ ایونٹ روس میں ہورہا ہے اور اس کی تیاری مکمل کی جاچکی ہیں جس میں دنیا بھر سے بتیس ٹیمیں شرکت کررہی ہیں اور ان میں سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گااس سال اس ورلڈ کپ میں کئی نئی ٹیمیں بھی شرکت کریں گی اور پاکستان کی ٹیم اس ورلڈکپ کا حصہ تو نہیں ہے مگر اس کے باوجود پاکستانی شائقین جو فٹ بال کھیل میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اس کا شدت سے انتظار کررہے ہیں اور ان کی نظریں اس ایونٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ 2017 پاکستان میں کھیلوں کے اعتبار سے خاصا ہنگامہ خیز رہا۔گذشتہ کئی برسوں کی طرح اس سال بھی کرکٹ کا کھیل چھایا رہا۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی چیمپئنز ٹرافی کی جیت تھی۔سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے فائنل میں روایتی حریف انڈیا کو آؤٹ کلاس کر دیا۔پاکستان نے مصباح الحق کی قیادت میں ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر پہلی بار ٹیسٹ سیریز جیتی۔ اس جیت کے ساتھ ہی مصباح الحق اور یونس خان کے بین الاقوامی کریئر اپنے اختتام کو پہنچے۔مصباح الحق پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچ جیتنے والے کپتان ہیں۔ جبکہ یونس خان کو ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ شاہد آفریدی اور سعید اجمل نے بھی باضابطہ طور پر بین الاقوامی کرکٹ کو الوداع کہہ دیا۔پاکستان کو سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے دونوں ٹیسٹ میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان متحدہ عرب امارات میں ٹیسٹ سیریز ہارا۔پاکستان کے حسن علی اپنی شاندار کارکردگی کے سبب آئی سی سی کی ون ڈے رینکنگ میں نمبر ایک بولر کے طور پر سامنے آئے۔پاکستان نے اس سال پی ایس ایل فائنل اور انٹرنیشنل الیون کے میچوں کی میزبانی بھی کی جس کے بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کی جانب اہم قدم ہے۔پاکستان سپر لیگ کے دوران سپاٹ فکسنگ سکینڈل سامنے آیا جس میں ملوث کرکٹرز شرجیل خان اور خالد لطیف پر پانچ پانچ سال کی پابندی عائد کر دی گئی۔سال 2017میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کارکردگی ٹیسٹ میچز میں زیادہ بہتر نہ رہی تاہم ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میچز میں ٹیم نے بہترین پرفارمنس کا مظاہرہ کیا ۔پاکستان کی ٹیم نے رواں سال مجموعی طور پر چھ ٹیسٹ میچز کھیلے جس میں دو میں فتح حاصل کی اور چار میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ،سال 2017میں پاکستان کی ٹیم نے مختلف ٹیموں کے خلاف مجموعی طور پر 18ون ڈے میچز کھیلے جس میں سے 12میں کامیابی حاصل کی اور چھ میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ٹی ٹونٹی میچز میں پاکستان کی کارکردگی بہتر رہی ۔ٹیم نے مجموعی طور پر مختلف ٹیموں کے خلاف 10میچز کھیلے جس میں 8میں فتح حاصل کی اور دو میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی ٹیم 34پوائنٹس کے ساتھ انٹرنیشنل رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہے ۔ون ڈے رینکنگ میں پاکستان ٹیم کا 46پوائنٹس کے ساتھ چھٹا نمبر ہے ۔ٹی ٹونٹی میچز میں رینکنگ کے حساب سے پاکستان کا پہلا نمبر ہے ۔آئی سی سی ویمن چیمپئن شپ میں پاکستان ویمن ٹیم کرکٹ ٹیم کا ساتواں نمبر ہے ۔ اس سال اگر بات کی جائے تو پاکستان کے لےء گزشتہ سال بھی ہاکی کے لےء اچھا ثابت نہیں ہوا اور اس سال بھی پاکستان کی ہاکی ٹیم نے میچز تو کھیلنے ہیں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی ہاکی ٹیم جس کیلئے گزشتہ سال بھی اچھا ثابت نہیں ہوا اس سال بھی جو نظر آرہا ہے اس کودیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس سال پاکستان کی ہاکی ٹیم کو کامیابی حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہوگی اور اس کیلےء فیڈریشن کو اپنا کردار ادا کرنیکی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر اگر پاکستان ہاکی فیڈریشن سے اس سال سیاست سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر ہی اس کی حالت کچھ بہتر ہوسکتی ہے ورنہ اس کی ترقی کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے پاکستان ہاکی ٹیم مسلسل تنزلی کاشکار ہے اور اس کی ترقی کے لےء سب کو مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔جبکہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی غیرمستقل پالیسی کے سبب ٹیم منیجمنٹ میں ردوبدل کا سلسلہ پورے سال جاری رہا۔قومی کھیل ہاکی میں مایوسی کے سائے دراز ہوتے چلے گئے۔2017 میں پاکستانی ہاکی ٹیم نے اگرچہ ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی ضرور کیا لیکن اپنی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ دوسری ٹیموں کی جانب سے جگہ خالی کیے جانے کے نتیجے میں۔ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں پاکستانی ٹیم دس ٹیموں میں ساتویں نمبر پر آئی جبکہ ڈھاکہ میں کھیلے گئے ایشیا کپ میں انڈیا سے دو بار ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم تیسری پوزیشن ہی حاصل کرسکی۔آسٹریلوی دورے میں پاکستانی ٹیم نے اپنی تاریخ کی بدترین کارکردگی دکھاتے ہوئے میزبان ٹیم سے ایک کے مقابلے میں نو گول سے شکست کھائی۔پاکستان ہاکی فیڈریشن کی غیرمستقل پالیسی کے سبب ٹیم منیجمنٹ میں ردوبدل کا سلسلہ پورے سال جاری رہا۔حنیف خان اور خواجہ جنید کو ان کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے فرحت خان کو ہیڈ کوچ بنایا گیا لیکن دو غیر ملکی دوروں کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کے بعد انھوں نے بھی استعفیٰ دینے میں ہی عافیت سمجھی۔ہاکی کی طرح سکواش میں بھی اب پاکستان کا نام لینے والا کوئی نہیں۔ اس سال ورلڈ ٹیم سکواش چیمپئن شپ میں پاکستان نے 24 ٹیموں میں 19ویں پوزیشن حاصل کی۔فٹبال میں پاکستان پچھلے کئی برسوں سے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت سے قاصر ہے اس کی وجہ ملک میں سرکاری مداخلت اور فیڈریشن میں دھڑے بندی ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کی رکنیت معطل کر دی۔جبکہ سنوکر میں پاکستانی کھلاڑیوں نے اس سال ایک بار پھر متاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔محمد آصف اور بابر محمد سجاد نے کرغزستان میں ایشیئن 6 ریڈ بال چیمپئن شپ جیتی جبکہ نسیم اختر 18 سال سے کم عمر کھلاڑیوں کی عالمی چیمپئن شپ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔محمد وسیم پرکشش وعدے پورے نہ کیے جانے پر خاصے برہم دکھائی دیے تاہم سنوکر کے ہی کھلاڑی حمزہ اکبر انھوں نے ایشیئن ٹائٹل جیتنے کے بعد پروفیشنل سرکٹ میں قسمت آزمائی بڑی امیدوں کے ساتھ شروع کی تھی لیکن مالی مشکلات کے سبب وہ ابھی تک اپنی منزل سے دور دکھائی دیتے ہیں۔باکسنگ رنگ سے محمد وسیم کی جیت کی خبریں آتی رہیں لیکن وہ اپنوں کی جانب سے کیے گئے پرکشش وعدے پورے نہ کیے جانے پر خاصے برہم دکھائی دیے۔یہی حال پہلوان انعام بٹ کا بھی ہے جنھوں نے اس سال ورلڈ بیچ ریسلنگ چیمپئن شپ میں ایرانی پہلوان کو زیر کرکے طلائی تمغہ جیتا اور دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں بھی کامیابیاں حاصل کیں لیکن وہ بھی سرکاری سرپرستی اور ٹریننگ کی ضروری سہولتیں نہ ہونے کے شاکی ہیں۔پاکستان میں اس سال ایک نیا عہد کیا جائے کہ سب مل کر کھیلوں کی ترقی کیلئے کام کریں گے اور جو غلطیاں گزشتہ سال ہوئیں اس سے سبق سیکھتے ہوئے اب آگے بڑھیں گے کیونکہ یہ ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور اگر نئے سال بھی اس حوالے سے عملی طور پر اقدامات نہ کئے تو پھر وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اور ہم کبھی بھی کھیلوں کی ترقی کا خواب پورا نہیں کرسکیں گے۔