ندرت کا تعاقب اور جسٹس کارنیلئس

ندرت کا تعاقب اور جسٹس کارنیلئس
ندرت کا تعاقب اور جسٹس کارنیلئس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’اگر کسی کو ذرا سا بھی شک ہو کہ یہ ملک اسلام کی ایک ایسی تجربہ گاہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا جہاں کے نتائج اولاً تمام اسلامی دنیا اور پھر آگے چل کر تمام بنی نوع انسان کے کام آئیں تو ایسے شخص کو تحریک پاکستان کے اکابر کے احوال، تقاریر اور مضامین ایک دفعہ پھر ذرا غور سے پڑھ لینا چاہئیں۔‘‘ واوین کے اندر تحریر یہ جملہ کسی اور کا نہیں میرا اپنا ہے۔

یہ طویل جملہ واوین کے اندر میں نے اس لئے تحریر کیا کہ آگے کہی گئی میری بات میں قدرے زیادہ وزن ہو اور پڑھنے والے یہ بھول نہ جائیں کہ آگے کہی گئی بات اور اس ابتدائی داعیے میں گہرا ربط ہے۔

اس مذکورہ جملے سے ملتے جلتے مفاہیم آپ کو تاریخ تحریک پاکستان، سیاسیات اور مطالعہ پاکستان کے عناوین پر ملنے والی کتب میں جگہ جگہ ملیں گے۔ میں نے کوئی انوکھی بات نہیں کر دی۔
’’انوکھی بات‘‘ اس ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل اور عالم اسلام کے پہلے تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے یہ کی کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کو کہیں سے نکالا جسے یاد رکھنے کا روا دار کوئی ایک طبقہ بھی نہیں۔ حالانکہ وہ شخص اس لائق ہے کہ ہر سال زیادہ نہیں تو کم از کم دو دفعہ اس کی یاد سرکاری سطح پر اور ہر سطح پر بھرپور شان و شوکت سے منائی جانا چاہیے: ایک دفعہ اس کے یوم پیدائش پر اور دوسری دفعہ اس کے یوم وفات پر۔

کاش ہماری جامعات کے پروفیسر حضرات اور کچھ نہ کر سکیں تو اپنے تعلیمی دورانیے میں دو ایک طلبا کو اس شخص پر پی ایچ ڈی ہی کرا گزریں۔ یہ وضاحت البتہ ابھی سے کر دوں کہ جس عمل کو میں نے ’’انوکھی بات‘‘ لکھا ہے وہ میری طرف سے انوکھی بات نہیں،بلکہ 28 دسمبر 2018ء کو پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے کونسل کے ہال میں جو حرکت کی ،وہ نوے فی صد شرکا و سامعین کے نزدیک نہ صرف انوکھی بات تھی،بلکہ ان کے لئے اس میں حیرت کا سامان اس قدر زیادہ تھا کہ علمی لحاظ سے انتہائی قد کاٹھ کے افراد بھی میرے سامنے یہ اعتراف کرتے پائے گئے کہ اپنے پیشے سے براہ راست متعلق ہوتے ہوئے بھی ہم اس شخصیت کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے، جو تشکر ان کے چہرے پر مجھے ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب اور برادرم خالد رحمن کے لئے نظر آیا وہ دیکھ کر میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی کہ اگر یہ کوئی نیکی ہے تو اے ربِ ذوالجلال اس نیکی کو پورے حجم کے ساتھ اس شخص کے نامۂ اعمال میں ڈال دے جس شخص کے تشکر و امتنان کے لئے یہ تقریب بپا کی گئی ہے۔ میرا خیال ہے، ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب اوربرادرم خالد رحمن کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا؟

جسٹس اے آر کارنیلئس اعتقاداً مسیحی تھے،پیدائشی مسیحی اور اسی اعتقاد پر دنیا سے رخصت ہوئے۔ جتنا کچھ میں نے ان پر پڑھا ہے، ان کے تمام افکار کے باوجود کسی مسیحی نے انہیں ’’دائرۂ مسیحیت‘‘ سے خارج نہیں کیا۔ وہ خود اپنے لئے کیا لقب پسند کرتے تھے؟ اپنے لئے انہوں نے ’’دستوری مسلمان‘‘ کا تعارف پسند کیا ۔ زندگی بھر وہ خود کو (مسیحی ہوتے ہوئے بھی) دستوری مسلمان کہتے رہے۔

جسٹس کارنیلئس 1903ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے وقت وہ لاہور ہائی کورٹ میں جج تھے۔ آگرہ کا رہنے والا یہ غیرمسلم اگر ہندوستان میں رہتا تو وہاں بھی وہ اس ملک کا چیف جسٹس بن جاتا۔

بٹوارے کے نتیجے میں وہ مشرقی پنجاب کی ہائی کورٹ میں جا سکتے تھے۔ انہیں اصلاً وہیں جانا چاہئے تھا کہ ان کی جنم بھومی آگرہ تھی اور آگرہ؟ جس کی شناخت کل عالم میں تاج محل سے ممکن ہے اور تاج محل؟ قارئین کرام تاج محل کے بیان کے لئے ہزاروں لوگوں نے ان تھک جانفشانی کی اور خوب توجہ حاصل کی۔ میں نے دیکھا تو نہیں، لیکن جتنا پڑھا ہے، اس سے اندازہ کرنا کچھ دشوار نہیں کہ تاج محل واقعی عجائباتِ عالم میں سے ایک عجوبہ ہے۔

لیکن جس خوبصورت انداز میں اور انتہائی اختصار کے ساتھ امریکی صدر بل کلنٹن نے تاج محل کا بیان تاریخ میں رقم کیا ہے، میرے نزدیک اس پر اضافہ ممکن ہی نہیں۔ بل کلنٹن اس عجوبۂ عالم کو دیکھ کر یوں گویا ہوا: ’’دنیا میں صرف دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ خوش قسمت جنہوں نے تاج محل دیکھا ہے اور دوسرے وہ بدقسمت جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا۔

خوش قسمتی سے میرا تعلق پہلی قسم کے افراد میں ہوتا ہے‘‘ ۔ جسٹس کارنیلئس نے تقسیم کے ہنگامے میں برتن بھانڈے اور بہت سے ٹھیکرے تو واہگہ کے اس پار چھوڑے ہی تھے کہ دوبارہ بن جائیں گے لیکن بل کلنٹن اگر سن لے کہ جسٹس کارنیلئس نے مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی تاج محل کو بھی چھوڑ دیا تھا تو وہ اس مسیحی کیتھولک لیکن دستوری مسلمان کی ذہنی حالت کے بارے میں ضرور اظہارِ تشکیک کرے گا۔ بل کلنٹن فارمولہ کے تحت جسٹس کارنیلئس ایک بدقسمت انسان تھا۔

اسی ’’بدقسمت‘‘ لیکن فی الاصل انتہائی خوش قسمت اور ایک نظرانداز انسان کی یاد میں جب مذکورہ بالا تقریب منائی گئی تو میں سمجھتا ہوں کہ کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب اور اسی کونسل کے سیکرٹری جناب ڈاکٹر اکرام الحق نے اللہ کا قرب حاصل کر لیا ہو گا۔ بہت سے قارئین ابھی متعجب ہوں گے کہ جسٹس کارنیلئس میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ آج کے کالم میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں تو جسٹس کارنیلئس کے افکار میں سے چند جملے ملاحظہ ہوں: ’’آپ نے قرآن مجید کو موجودہ زندگی سے ہم آہنگ کرنا ہے۔

اگر آپ اسے ایک مردہ آثارِقدیمہ کے مضمون کے طور پر پڑھتے رہیں گے تو آپ کہیں نہیں پہنچ سکیں گے۔ ۔۔۔ اس لئے پورے خلوص سے میرا مشورہ یہ ہے کہ یہ دین طلبہ تک پہنچانے کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔ یہ ایک بہت عظیم اور طاقتور دین ہے۔ یہ ایک ایسا دین ہے جو کسی کی مدد کے بغیر طویل عرصے تک قائم رہا۔ اس کا حق بنتا ہے کہ اسے نوجوان طبقے کے سامنے پیش کیا جائے،جو آئندہ ملک کی قیادت سنبھالنے والا ہے‘‘۔
شاید اب قارئین کرام کے لئے یہ سمجھنا دشوار نہیں ہو گا کہ جسٹس کارنیلئس کے ایک طرف خوش قسمتی کا پرشکوہ اورپوری جبروت کے ساتھ کھڑاتاج محل تھا،وہی ساحر لدھیانوی کے حاسدانہ کلام کا نشانہ تاج محل، وہی تاج محل جس کے سائے میں کارنیلئس نے ممکن ہے، پتنگیں اڑائی ہوں۔ ممکن ہے، گولیاں بنٹے بھی کھیلے ہوں۔ وہ دیکھو! تاریخ کے اوارق ذرا الٹ کر پلٹو۔ ذرا 1918ء یا شاید 1919ء میں سے کوئی صفحہ سامنے لاؤ۔

ہاں ہاں ، یہی اگلے صفحے پر اس لڑکے کی تصویر دیکھو ! ارے پندرہ سولہ سال کا یہ لڑکا تاج محل کے سائے میں بیٹھ کر سکول کے آموختے پر کام کر رہا ہے۔ ہاں ہاں نا سمجھ ہے۔ بالک ہے۔ ابھی تھوڑی دیر بعد ’’ریلیکس‘‘ ہونے کے لئے پھر سے گولیاں بنٹے کھیلنا شروع کر دے گا۔ لیکن یہ کیا؟ ارے آپ نے صفحات الٹ پلٹ دیے۔

یہ آپ 1947ء میں کہاں آ پہنچے۔ ہاں ہاں ٹھیک ہی کیا۔ وہی بالک ، وہی نو عمر لڑکا ، ہاں ہاں ، وہی مسیح بے صلیب! پتہ نہیں کب اس نے قرآن کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھ لئے۔ پھر وہ رہا تو مسیحی ہی لیکن کہتا رہا میں دستوری مسلمان ہوں۔ پھر کون سی بل کلنٹن والی موہومہ خوش قسمتی اور کو ن سے تاج محل کے سنگ وخشت؟ پاکستان کا یہ گمنام اور نظرانداز کردہ چیف جسٹس اٹھارہ سال اپنی اسی سرکاری حیثیت کے ساتھ سرکاری شان و شوکت والے گھر کو اس لئے چھوڑ کر فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں مقیم رہا کہ بیوی کی وفات اور بیٹوں کی بیرون ملک منتقلی کے بعد اتنے بڑے گھر میں رہنے سے کام سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔
میرے نزدیک قانونی دنیا میں اسلامی شریعت کے اس سب سے بڑے داعی و مؤید و وکیل کی یاد میں جب تقریب منائی گئی تو سینئر وکلا بھی دانتوں میں انگلی دبائے بیٹھے تھے: ’’ڈاکٹر صاحب ہمیں خود پر افسوس ہو رہا ہے کہ ہم اس شخص کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘

دو ایک سفارت کار بھی ا س تقریب میں موجود تھے۔ ایک کے الفاظ کچھ یوں تھے: ’’اپنے کیریئر میں ہمیں اس قسم کی معلومات کی ضرورت رہتی ہے اور ہم ایسی بہت سی باتوں سے واقف ہوتے ہیں جو آج کی تقریب میں ہم نے سنی ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب سچی بات اگر میں کہوں تو مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ میں جسٹس کارنیلئس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا‘‘۔
کالم کے مختصر سے رقبے میں الفاظ کی زیادہ کاشتکاری ممکن نہیں ہوا کرتی۔ خود میری اپنی خواہش بھی یہی ہے کہ علم دوست قارئین کے تجسس اور تشنگی میں کچھ اضافہ ہی کرتا رہوں تاکہ ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب ، ڈاکٹر اکرام اور اپنے خالد رحمن دیگر کاموں میں نہ لگ جائیں اور تقریب کی کارروائی کو کتابی شکل دیں۔ تقریب سے وفاقی وزیر قانون جناب بیرسٹر فروغ نسیم ، جناب سینیٹر راجہ ظفرالحق صاحب، جناب امان اللہ کنرانی صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ، ڈاکٹر انیس احمد وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، جناب حامد خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، جناب خالد رحمن ایگزیکٹو پریذیڈنٹ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور ڈاکٹر اکرام الحق سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل نے خطاب کیا۔ دونوں اجلاسوں کے صدر مجلس ملک کے ممتازماہر تعلیم اور کونسل کے موجودہ علم دوست چیئرمین جناب پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب تھے۔ جناب ایس ایم ظفر صاحب سینئر ایڈووکیٹ اپنی پیرانہ سالی کے باعث تشریف نہ لا سکے۔ انہوں نے اپنا پیغام بھیجا جو وہاں پڑھ کر سنایا گیا۔
شروع میں جو جملہ رقم کیا گیا تھا اس کی معنویت شاید کچھ واضح ہو چکی ہو۔ یہ ملک جب اسلامی جمہوریہ قرار پایا تو اس تزئین گلستان میں غیرمسلم بھی شامل رہے ہیں۔

جسٹس کارنیلئس اپنی تمام زندگی اس ملک کو ایک اسلامی ریاست دیکھنے کے خواہش مند رہے۔ اپنی اسی خواہش کی تکمیل کی خاطر وہ تاج محل چھوڑ کر لاہور آئے۔ اپنی جنم بھومی چھوڑی۔ (قارئین کرام مجھے تو اس کی کوئی اور وجہ سمجھ میں نہیں آتی) قارئین کرام کیا کوئی تاج محل بھی چھوڑ سکتا ہے؟ ہاں وہ یہ بھی کرگزرے! کیوں؟ قرآن کو جب انہوں نے ایک زندہ دستور پایا تو انہوں نے خود کو دستوری مسلمان قرار دیا۔


آخری سوال لبرل اور سیکولر کہلا کر ندرت کے تعاقب میں رہنے والے اپنے پیارے پیارے ہم وطن دانشوروں سے ہے۔ کیا وہ اس مسیحی قانون دان کی وہ پیروی کرنا پسند کریں گے،جو آسان سا عمل ہے؟ اگر نہیں تو دوسرا راستہ وہی ہے جو دستور شکن اختیار کیا کرتے ہیں۔ بولو، کالے بوٹ یا مسیحی چیف جسٹس کا کالا گاؤن؟

مزید :

رائے -کالم -