وزیر اعظم کو بہتر کارکردگی کا بہت وقت ملا
وزیر اعظم عمران خاں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب وزراء کو اپنے شعبوں کی بہتری کے نتائج دکھانے کے لئے مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ پاور یعنی بجلی اور گیس کی مسلسل کمی اور عوام کے لئے ان بنیادی ضروریات کے آئے روز بڑھتے نرخوں پر مبنی بل لوگوں کی اکثریتی آبادی کی محدود آمدنی کے باعث باقاعدگی سے ادا کرنا وقت گزرنے کے ساتھ بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ان حالات میں ملک کے مختلف مقامات پر بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور گیس کی عدم دستیابی، سردی کے موجودہ شدید موسم میں لوگوں کی مشکلات میں خاصا اضافہ کر رہی ہے۔ اسی طرح صنعتی یونٹوں کو رواں رکھنا، گھروں میں صبح، دوپہر اور شام، کھانا پکانا اور ہیڑوں کوکمرے گرم کرنے کے لئے چلتا رکھنا، کئی لوگوں کے معمولات ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں توانائی سمیت کئی شعبوں میں ڈیڑھ سال تک اصل اعداد و شمار کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابھی پورے ملک کو 18ویں ترمیم کی پوری طرح سمجھ ہی نہیں آئی۔ فوڈ سیکیورٹی وفاقی حکومت کے پاس ہے، لیکن اس کے اختیارات صوبائی حکومتوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ معیشت بہتر ہو رہی ہے، لیکن برآمدات بڑھانے تک مشکلات سے نہیں نکل سکتے۔
انہوں نے صاف الفاظ میں اپنے وزراء کو پیغام دیا کہ جب تک مختلف وزارتیں، قومی مفاد کے حصول کی بنیاد پر واضح کارکردگی کے ذریعے عوام کے مسائل اور مشکلات میں کمی نہیں کریں گی، تکالیف اور پریشانیاں جاری رہنے سے حکومت کو لوگوں اور اپوزیشن کی تنقید کا سامنا کرتے رہنا پڑے گا۔ وزیراعظم عمران خاں نے مہنگائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس بارے میں عوام کی روز مرہ خورو نوش اور دیگر ضروریات کی بلا جواز بڑھتی قیمتوں کو ایک چیلنج قرار دیتے ہوئے اس پر قابو پانے کے موثر اقدامات بروئے کار لانے پر زور دیا، حالانکہ گزشتہ ڈھائی سال کے دوران عوام کی بیشتر اشیائے ضروریات، دو سے پانچ گنا زیادہ قیمتوں پر دستیاب ہو رہی ہیں۔ ادرک کی قیمت ایک ہزار روپے فی کلو سے واپس ہوئی ہے، انڈے، دودھ، گوشت، ڈبل روٹی، سبزیاں، دالیں،پھل اور آٹے کے نرخ بھی گزشتہ ہفتوں میں مسلسل بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ ایسی تازہ خبریں قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر باقاعدگی سے روزانہ کئی بار منظر عام پر آتی رہتی ہیں، لیکن اس بے لگام اور بے تحاشا مہنگائی کے ذمہ دار عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
اس امر کی بڑی وجہ مہنگائی کے ذمہ دار لوگ، حکمران طبقے کے لوگ خود یا ان کے قریبی عزیز و اقارب، دوست و احباب اور سرمایہ دار طبقہ ہے۔ خوردنی اشیائے ضرورت تو زیادہ تر وطن عزیز میں پیدا ہوتی ہیں، لیکن ان فصلوں کے مارکیٹ میں آنے کے باوجود مہنگائی اور کم یابی کے لئے سراسر مصنوعی حربے اور بھونڈے طور طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں جو ذخیرہ اندوز عناصر استعمال کرتے ہیں۔عمران خان کے موجودہ حکومت کی کارکردگی کی بہتری کے لئے ڈھائی سال کا عرصہ کم کہنے کا کوئی معقول جواز نہیں ہے۔ وہ تو حکومت میں آنے کے لئے بقول ان کے گزشتہ 24 سال اور بعد ازاں 30 اکتوبر 2011ء کے مینار پاکستان کے بڑے جلسے کے انعقاد کے وقت سے برسر اقتدار آنے کی کوشش یا جدوجہد کر رہے تھے، پھر انہوں نے 2014ء میں چار ماہ کے لئے اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا۔ اس کے بعد 2018ء کے عام انتخابات میں حصہ بھی لیا۔ اس تمام عرصے کے دوران عمران خاں کے حامی، دوست اور مشاورت کار ان کے معاون اور ساتھی رہے، ان حالات میں وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ انہیں اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر کرنے کا موقعہ نہیں ملا، درست نہیں ہے۔