سیاسی کارکن
چین کو آزاد ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ چند لوگوں نے ذخیرہ اندوزی کرکے مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا۔ ماؤزے تنگ نے جاسوسی کرنے والے اہلکاروں کو اصل وجہ معلوم کرنے کا کام سونپا۔جلد ہی ماوزے تنگ یہ جان کر حیران ہوا کہ اس سارے کھیل میں اس کے قریبی سیاسی کارکنوں کا ہاتھ تھا۔ماؤزے تنگ نے ہر چیز کو بالائے تاک رکھ کر اپنے ملک کی خاطر ان کرپٹ کارکنوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر عبرت کا نشان بنا دیا۔اس دن کے بعد چین میں کوئی بھی کرپشن کا تصور کرنے سے ڈرتا ہے اور اب چین کی ترقی پوری دنیا پر عیاں ہے۔چین سپر پاور بننے کی طرف گامزن ہے۔ان سطور کو پڑھ کر یقینی طور پر ہم سب کے دل میں فوری طور پر یہ خیال پروان چڑھے گا کہ کاش ہمیں بھی ماؤزے تنگ جیسا عظیم لیڈر میسر آ جائے، پر کہاں سے آجائے؟ ایسا ملک جہاں کے بڑے چوروں، ڈکیتوں، لٹیروں کی پشت پناہی کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہوں۔جہاں قانون شکنوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہو۔ جہاں تھانوں کے سربراہ کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہو۔ جہاں کارکنان سے ناجائز کام کروا کر اپنا مشن پورا کیا جاتا ہو، پھر انہی کارکنوں کو منظر عام سے ہٹانے میں دیر نہ کی جاتی ہو۔ وہاں ماؤزے تنگ جیسا آفاقی رہنما کہاں پیدا ہو گا؟
اہل وطن اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایسے سیاسی کارکن، جن کا دامن کرپشن کی کیچڑ میں لتھڑا ہو، پارٹی کے نام پر ناجائز طریقے سے فنڈز اکٹھے کرنے میں جن کا کوئی ثانی نہ ہو۔ایسے چاپلوس، مالشیے، پالشیے، کرپشن کے مینار کارکن قیادت کی آنکھ کا تارا کیسے بن جاتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ ایمان داری سے پارٹی اور ملک کے لئے قربانیاں دینے والے سیاسی کارکنوں کو کھڈے لائن لگا کر چوری کھانے والے طفیلیوں کو نوازنے کا سلسلہ نہ جانے کب ختم ہو گا؟ اس کی تازہ ترین مثال خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست فاش کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ حکمران جماعت کے اکابرین ٹکٹوں کی بندر بانٹ سمیت مہنگائی کو اس کی بڑی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان نے فوری ایکشن لیتے ہوئے پارٹی کے نئے تنظیمی عہدیداروں کا اعلان کرکے ٹکٹوں کی تقسیم اور پارٹی معاملات کو ازسرنو ترتیب دینے کی ہدایت جاری کی ہے، تاکہ آئندہ ہونے والے بلدیاتی اور عام انتخابات میں دوبارہ شکست کا ذائقہ نہ چکھنا پڑے۔ خاکسار جناب عمران خان کے اس فیصلے پر حیران ہے کہ چلے ہوئے کارتوس بھلا کریں بھی کیا؟
میری ناقص رائے میں مسئلہ جوں کا توں ہے۔پارٹی کے مخلص، محنتی، باکردار، نظریاتی کارکن جو پارٹی قیادت کے اشاروں پر ناچتے ہوئے بغیر دیکھے کنویں میں چھلانگ لگانے سے دریغ نہیں کرتے، ہمیشہ کی طرح ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ اگر اوپر سے نیچے تک غور کریں۔دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔جناب عمران خان اپنی پارٹی کے ایم این ایز، ایم پی ایز کو صرف سینٹ کے انتخابات یا اعتماد کا ووٹ لیتے وقت ملنا گوارا کرتے ہیں۔ ان پارلیمنٹرینز کو علاقے کے ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈز دینا تو کسی دیوانے کا خواب ہی ہو گا اور خیر سے حکومتی وزراء بھی اپنے لیڈر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ایم این ایز کو فون کا جواب دینا تو درکنار، ایک مسیج کا جواب دینا بھی اپنی توہین خیال کرتے ہیں۔ یہ تو کہانی ہے۔ پارٹی کے اسمبلی ممبران کی اور بیچارا کارکن تو کسی کھاتے میں نہیں آتا۔ لگتا یہ ہے کہ جناب عمران خان کی کچن کیبنٹ کے لوگوں نے کپتان کے کان میں یہ بات ٹھونس دی ہے کہ جناب آپ قائداعظم ثانی ہیں۔آپ عالمی سطح کے لیڈر بن چکے۔ پاکستان کے مسائل اور سیاست کے لئے ہم ہیں ناں۔ آپ جناب کی قدر و منزلت سے کون واقف نہیں۔چینی، روسی صدور، برطانوی وزیراعظم ہو یا گلف کے حکمران سب آپ کے گن گاتے ہیں۔
آپ نہ ہوتے تو افغانستان کا مسئلہ بھلا کہاں حل ہونا تھا۔ امریکی صدر جوبائیڈن بھی عنقریب کال کر کے آپ کے سارے گلے شکوے دور کر دیں گے۔ آپ دیکھئے گا ہر طرف ڈالروں کی برسات ہو جائے گی۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو آپ کی قدر نہیں کرتے۔ آپ جیسا مقبول عوامی لیڈر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ آپ کو عوام دل وجان سے چاہتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی آپ پر جان چھڑکتے ہیں۔ ای وی ایم مشین سے جعلی ووٹوں کا قلع قمع ہو کر رہے گا۔ پچھلے 3 سال میں ریکارڈ ترقیاتی کاموں کا سہرا بھی آپ کے سر ہے۔ آپ نے آنے والی نسلوں کا سوچا ہے۔ آپ کے لازوال کاموں کے ثمرات آنے والے سالوں میں نظر آئیں گے۔ ملک کا پڑھا لکھا طبقہ جانتا ہے اور برملا اظہار بھی کرتا ہے کہ آپ نے مافیاز کا جس طرح مقابلہ کیا، اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی اور آپ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ یہ بات لکھ کر رکھ لیں کہ اگلے انتحابات میں دو تہائی اکثریت تو پتھر پر لکیر ہے۔ چھوڑیں مہنگائی کا راگ الاپنے والے منہ پھٹ میڈیا کو، اس کا تو کام ہی یہی ہے۔ آپ بس شریف برادران، زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی منجی ٹھوکتے رہیں۔ آپ کا کارکنان سے ملنا بنتا ہی نہیں اور یہ جو ایم این اے، ایم پی اے بھی منتخب ہوئے ہیں، وہ صرف آپ کے نام پر ہوئے ہیں ورنہ ان کی اپنی کیا اوقات تھی۔ چھوڑئیے ان سیاسی کارکنوں کو یہ تو پیدا ہی شہر میں بینر آویزاں کرنے، جلسہ گاہوں کو سجانے، نعرے بازی اور وال چاکنگ کرنے کے لئے ہیں۔
قارئین! بدقسمتی سے پیارے دیس میں حقیقی سیاسی کارکنان کی حیثیت غلاموں سے زیادہ نہیں۔ہاں، جماعت اسلامی وہ واحد منظم جماعت ہے، جس میں کارکن کی تربیت کی جاتی ہے۔ جماعت کے امیر بننے کی سیڑھی تک کا سفر بڑا کٹھن اور طویل ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ پی پی پی میں سیاسی کارکن کی سنی جاتی ہے۔مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف کا ووٹ بینک اسی لئے قائم ہے کہ نواز شریف سیاسی کارکن کی قدرومنزلت سے واقف ہیں اور خیر سے حکمران جماعت کو یہ معلوم نہیں کہ اپنے خیر خواہ کو آنکھ کا تارا کیسے بنانا ہے۔مَیں تو یہ کہوں گا۔اب بھی وقت ہے۔پی ٹی آئی کے اکابرین فرعونیت کی چادر اتار کر آکسیجن کی مانند اپنے سیاسی کارکنوں کو سینے سے لگائیں۔حق داروں کو حق دیتے ہوئے یونین کونسل کی سطح سے اوپر تک تنظیم سازی کریں۔سب اچھا کی رپورٹ پر یقین نہ کریں۔مدح سرائی کرنے والے بھانڈوں کے بجائے مثبت اور اصلاحی تنقید کرنے والے قمیتی ہیروں کا ہار گلے میں پہنیں۔فرق خود بخود ظاہر ہو جائے گا۔