2021ء کی طرح2022ء میں بھی مہنگائی اور ٹریفک ازدھام کا چیلنج؟
قارئین کی خواہش تھی،سال کا آخری کالم جاتے ہوئے 2021ء کے غم اور خوشیاں شیئر کی جائیں، تبدیلی کے نعرے کے قوم پر اثرات تحریر کئے جائیں تاکہ تاریخ کا حصہ بن جائے۔2021ء پیاروں کی جدائی، کورونا اور ڈینگی کے واروں کی نظر ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے سونامی سے بھی مشروط رہے گا۔پٹرول41فیصد، ڈیزل 37فیصد، گھی 54فیصد، کوکنگ آئل51فیصد، آٹا 21 فیصد، چینی چار فیصد، پیمپرز 48فیصد، دالیں، گوشت، چائے کی پتی، دودھ، روٹی، دہی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ سرکاری اور نجی ملازمین سارا سال مہنگائی کا رونا روتے اور تنخواہوں میں اضافہ کا رونا روتے رہے۔2021ء کا آخری جھٹکا اور 2022ء کا آغاز منیٰ بجٹ کی صورت میں رونما ہو رہا ہے،جس کے آنے سے پہلے ہی عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں،آنے والے دِنوں میں آئی ایم ایف کیا کیا دُکھ مزید دے گی اس کا اندازہ ہونا شروع ہو گیا،حکومت اتحادی اپوزیشن سب بے بس نظر آ رہے ہیں اب کالم کے موضوع کی طرف آتا ہوں۔ گڈ گورننس کا المیہ رہا رشوت، کمیشن، سفارش کا کلچر پروان چڑھا۔ لاہور جیسا شہر جس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے جہاں لاکھوں گاڑیاں،رکشے، چنگ جی اور اب لوڈر لاہور کی سڑکوں میں رواں دواں ہیں،اور لاہور کو آلودگی میں دنیا بھر میں پہلا نمبر دلانے میں کامیاب رہے۔لاہور کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کے بعد ٹریفک اور گندگی رہا۔ 2022ء میں ٹریفک کے ازدھام مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، آلودگی کے ساتھ لاہوریوں کو2022ء میں نئی نئی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،جس کا اظہار محکمہ ماحولیات والے کر رہے ہیں۔ آج کے کالم میں سب سے اہم ترین مسئلے کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں۔
گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی اہل لاہور کے حقیقی مسائل کی طرف آنے کی بجائے پسند نہ پسند اور سفارش کی بھینٹ چڑھتی نظر آئی ہے۔گلاب دیوی انڈر پاس ضروری تھا یا بند روڈ، نیازی چوک اہم تھا فیصل آباد، اسلام آباد سے چند گھنٹوں میں آنے والے اہل ِ لاہور کو نیازی چوک میں جو درد ملتا ہے اس کے حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے واہ پیا جانے یا راہ پیا جانے۔موٹروے سے آنے والوں کو لاہور میں داخلے کے وقت کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر دھند یا سموگ کی وجہ سے موٹروے بند ہو تو جی ٹی روڈ سے آنے والوں کو کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔اس کا اندازہ اہل ِ لاہور کے ہر دوسرے فرد کو ہو چکا ہے اگر نہیں ہوا ہے تو وہ ہے حکومت۔ گزشتہ حکومت بھی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے نیازی چوک سے انڈر پاس اور فلائی اوور نہیں بنا سکی،موجودہ حکومت کو بھی ساڑھے تین سال ہو گئے ان کی بھی وہی مجبوریاں دکھائی دے رہی ہیں۔ موٹروے پر چڑھنا اور واپسی پر گھروں کو آنا ایک مشکل مرحلہ تھا اور ہے۔
دوسرا اہم ترین ایشو جس پر گزشتہ دس سال سے ایل ڈی اے کروڑوں روپے خرچ کر چکا ہے وہ ہے ٹھوکر چوک لاہور! شہباز شریف کے دور میں بھی متعدد بار اس کی ڈیزائننگ کی گئی،اور اب بھی ساڑھے تین سال سے کئی دفعہ ایل ڈی اے کے چیف انجینئر کی طرف سے ٹھوکر چوک کی ٹریفک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بجٹ کی منظوری اور اس کی ازسر نو ترتیب بنانے کا اعلان ہوا ہے، مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ملتان روڈ سے نہر پر جانے والوں کے لئے بھی رکاوٹیں موجود ہیں۔ ملتان روڈ سے آنے والوں کے لئے ملتان روڈ پر جانا بھی آسان نہیں، رائیونڈ روڈ اور نہر سے آنے والوں کے لئے بھی ہر وقت ٹریفک کا ازدھام موجود ہوتا ہے یہی صورتِ حال واپڈا ٹاؤن کی طرف سے اور نہر سے رائیونڈ روڈ اور کینال روڈ پر جانے والوں کے لئے موجود ہوتی ہے، ہر آنے والے دن میں ٹریفک کم نہیں ہو رہی۔رائیونڈ روڈ چوک میں پٹرول پمپ اور ناجائز تجاوزات کے ساتھ چنگ جی رکشوں نے رائیونڈ روڈ پر جانے والوں کے لئے پہاڑ کھڑا کر رکھا ہے۔ٹھوکر چوک لاہور کی ٹریفک کا بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، ٹریفک اہلکار چالان کرتے نظر آتے ہیں، ٹریفک کھلوانا شاید ان کا مسئلہ نہیں ہے، محسوس ہوتا ہے ٹریفک چیف کو لاہور کی ٹریفک کی روانی سے زیادہ چالانوں کے ذریعے ریونیو کا زیادہ حصول ٹارگٹ ہے۔
رائیونڈ روڈ اہل ِ لاہورکے لئے اس لئے بھی اہم ہو گیا ہے کہ بڑی یونیورسٹیوں کے کیمپس اس روڈ پر بن گئے ہیں۔ سروے میں جو بات سامنے آئی ہے وہ حکام بالا اور عوام الناس کے سامنے لانا ضروری ہے، نہر سے ایدھی روڈ کا بننا بڑا کام ہے اس کے ٹریفک کی روانی میں مثبت اثرات مرتب ہونا چاہئے تھے۔یہی حال خیابان جناح سے ایل ڈی اے ایونیو ون اور رائیونڈ کی طرف نئی سڑک بننے کے ہونا چاہئے تھے جو نہ ہو سکے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ گئے اس کی بنیادی وجہ تلاش کی گئی تو پتہ چلا لاہور پولیس نے رائیونڈ روڈ کے لیے بڑی گاڑیوں، ٹرالوں اور ٹریکٹر کے ساتھ لوڈر کی آمدورفت کھول دی ہے،جو رائیونڈ روڈ کی بے ہنگم ٹریفک کا باعث بن رہی ہے۔رائیونڈ روڈ سے اڈا پلاٹ تک ڈیفنس روڈ کے علاوہ دو اشارے پہلا ایدھی روڈ والا اور دوسرا ایل ڈی اے ایونیو والا،15سے30منٹ ہر گاڑی کے لئے رکنا مجبوری بن گیا ہے۔لاہور کے ٹریفک چیف کو نوٹس لینا چاہئے اور بڑی گاڑیوں کی صبح6بجے سے رات گئے تک آمدو رفت کیسے جاری ہے، نوٹس لینا چاہیے۔
بند روڈ، نیازی چوک، رائیونڈ روڈ، ٹھوکر چوک میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے مسائل کو ایل ڈی اے انتظامیہ سمیت ٹریفک پولیس کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا ورنہ آلودگی میں نمبر ون حاصل کرنے والا لاہور اہل ِ لاہور کو ذہنی مریضوں میں بھی پہلا نمبر حاصل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔لاہور میں ٹریفک پولیس ٹریفک کھولنے کی بجائے چالانوں میں زیادہ وقت دے رہی ہے،اس کا بھی نوٹس لینا ہو گا۔ نئے سال میں مہنگائی، بے روز گاری کے ساتھ ٹریفک بڑا مسئلہ رہیں گے۔ تحریک انصاف کے پاس ڈیڑھ سال ہے۔20،20اگر کھیلیں تو شاید آئندہ الیکشن میں زندہ رہیں ورنہ بلدیاتی الیکشن میں ان کو امیدواروں کی تلاش کا اشتہار دینا پڑے گا،خدارا سیاست کا رخ عوام کی طرف موڑیئے، عوام بڑی مشکل میں ہیں۔