عمران خان ایک جذبانی لیڈر!
عمران خان نے واقعی تاریخ رقم کی ہے، کرکٹ اور شوکت خانم ہسپتال سے شہرت حاصل کرنے کے بعد اُنہوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف بنائی۔ کافی جدوجہد کے بعد جب کچھ نہ بنا اورریاستی اداروں کومسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے خلاف تیسری سیاسی قوت کی ضرورت تھی تو اُن کی سرپرستی کرکے حکومت دلائی گئی تاکہ اسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔۔۔ پھر پی ٹی آئی کے بانی کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو عموماًدوسروں کے سہارے اقتدار میں آنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے جو کوئی مقام حاصل کرکے پھر ہضم نہیں کرسکتے اور اپنے محسنوں کو آنکھیں دکھاتے ہیں لیکن جذباتیت عمران خان کی طبیعت کا خاصا رہی ہے۔ سیاست میں آنا اور دوسرے نقطہ نظر کو تسلیم نہ کرنا، جمہوری معاشروں میں ایسے نہیں ہوتا۔ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد سیاسی میدان میں تماشہ بہت ہوچکا اور مزید ہونے والاہے لیکن دونوں اطراف عوام کی کسی کو فکر نہیں، صرف اقتدار کی جنگ میں تقریباً 10سال ضائع ہوچکے ہیں۔
راقم کو وہ وقت یاد ہے جب کوئٹہ سٹیڈیم میں جنرل پرویز مشرف آمریت کے دور میں اپوزیشن جماعتوں کا جلسہ جاری تھا۔جلسے میں محمود خان اچکزئی کی ملی عوامی پارٹی سمیت بلوچستان کی دیگر جماعتوں نے بھرپور شرکت کی۔ مسلم لیگ (ن) کی سینئر رہنما تہمینہ دولتانہ کے نعروںکے جواب میں جلسے میں کچھ بدمزگی پیدا ہوئی ۔جلسے کے اندر سے ایک پتھربھی سٹیج کی طرف آیا جو پاکستان ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ اور آج کے وزیر مال پنجاب نوابزادہ منصور احمد خان کی ٹانگ پر لگا۔ محمود خان اچکزئی سنگین صورت حال کا اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ مہمانوں کی عزت کریں ۔ اِس جلسے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت شامل نہیں تھی کیونکہ پیپلز پارٹی صوبہ بلوچستان کے صدر لشکری رئیسانی کی رہائش گاہ پر آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں بلوچستان کی دیگر جماعتوں کے ساتھ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی چیئرمین مسلم لیگ (ن) راجہ ظفر الحق کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اُن کی بائیں جانب تشریف رکھتے تھے ۔صدر مجلس کی ابتدائی گفتگو کے بعد عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی تجویز دی، بلوچ نے بھی عمران خان کی تجویز کی تائید کردی اور زوردیا کہ سول نافرمانی کی تجویز کے حق میں اے پی سی متفقہ قرارداد منظور کرے اور اِس کی تاریخ کا اعلان کرکے اُٹھے۔ کچھ لوگوں نے تجویز کی حمایت تاہم زیادہ تر لوگوں نے سول نافرمانی تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے واضح کیا کہ اِس وقت زمینی حقائق اورماحول ایسا نہیں کہ سول نافرمانی کی کال دی جائے۔ ہمارے عوامی رابطے ایسے بھرپور نہیں ہیں کہ حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرسکیں۔ ایسی کوئی بھی کال خود اے آر ڈی کے لئے باعث شرمندگی ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے بھی مشکلات پیدا کرے گی،تجویزکو کامیاب کروانے کے لیے بھرپورعوامی رابطہ مہم کی ضرورت ہے ۔
اِسلامک ڈیموکریٹک فرنٹ کے چیئرمین کے طور پر راقم کی باری آئی تو میں نے سوال اٹھایا کہ جب ہم یوٹیلیٹی بل ادا نہیں کریں گے تو واپڈا، سوئی گیس ،واسا ،پی ٹی سی ایل اورشہری سہولتیں فراہم کرنے والے دیگر اداے کنکشن کاٹ دیں گے کیا ہم عوام کو اِس حد تک تیار کرچکے ہیں کہ حالات کو سول نافرمانی کی طرف لے جاکر حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر دیں؟ہمیں عوام کو کوئی حل دینا ہے۔بہرحال عمران خان کے اصرارکے باوجود اجلاس میں سول نا فرمانی کی تحریک کا اعلان نہ ہو سکا۔
پھر وقت گذرتا گیا، 2013ءکے انتخابات کے بعدمسلم لیگ (ن) نے حکومت تشکیل دی ،کچھ حلقوں میں دھاندلی کے نام پرعمران خان نے اسلام آباد ڈی چوک میں تقریبا ًچار ماہ کا دھرنا دیا جس میں بھی اُنہوں نے متعدد بار ایسے ہی جذباتی رویے اختیار کئے۔ لوگوں کو سول نافرمانی کی طرف بڑھنے اوربڑے شہروں کو بند کرنے کا اعلان بھی کیا گیا جبکہ مختلف تقاریب میں بھی عمران خان نے اِسی طرح کے جذباتی اعلانات کیے ، جن کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکااور شرمندگی اُٹھانا پڑی ۔ظاہر ہے کہ پھر اِس کی سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں جب حکومت ہٹائی گئی توعمران خان نے ایک جلسے کے دوران کاغذ لہرا کر خفیہ دستاویز کو امریکی سازش اور اپنی حکومت گرانے کا الزام عائد کیا لیکن حکومت ختم ہونے کے الزامات کو عمران خان نے خود ہی ایک ایک کرکے واپس لے لیا۔مجھ جیسا ایک سیاسی کارکن اپنے تجربے کی بنیاد پرکہہ سکتا ہے کہ عمران خان اپنی ناتجربہ کاری،لااُبالی پن، ضد، ہٹ دھرمی، دوسروں کو احترام نہ دینے اور جذباتیت کی وجہ سے حکومت سے نکالے گئے ہیں، اپنی حکومت کے دوران معیشت کی بحالی کے جو دعوے کئے گئے اور جوتجاویز دیں ، آج بھی مضحکہ خیز ہیں ۔ عوام کو تسلیاں دینے اور بلند بانگ دعوے کرنے کے علاوہ اُنہوں نے کچھ نہیں کیا جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے بڑے منصوبے اورنج لائن ٹرین اورسی پیک میں ر کاوٹیںکھڑی کیں۔ قومی اہمیت کے یہ منصوبے اُن کی ضداور جذباتیت کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے ۔مسلم لیگ (ن) سے دشمنی اپنی جگہ مگر اِس تاخیرسے ملک کو نقصان ہوا۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران طوطا فال اور جنتر منتر سے بھی بھرپورکام لیا گیا۔وزیر اعظم ہوتے ہوئے عمران خان نے سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے بارے جلسوں میں بڑھکیں ماریں تم میرے نشانے پر ہوجبکہ شریف فیملی کو ڈاکو، چور، لٹیرے کے خطابات اور القابات سے سیاسی فضاءکو مکدر کیا گیا۔اِسی طرح اپوزیشن کے خلاف کرپشن کیس بنائے جو عدالتوں میں ثابت ہی نہ ہو سکے ۔ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز ،خواجہ سعد رفیق ، سلمان رفیق اور دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ۔
کافی وقت گذر چکا ،بہت کچھ بے نقاب بھی ہوچکاہے کہ دراصل ریاستی ادارے بھٹو اور شریف خاندا نوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی ٹھان چکے تھے ۔اُن کا خیال تھا کہ نئی جماعت پڑھے لکھے طبقات پر مشتمل ہو اور سیاست میں حصہ لے۔ اِس مقصد کے لیے ریاستی اداروں نے بھرپور کوشش کے ساتھ عمران خان کو انتخابات میں جتوایا
۔پھر حکومت بھی بنوائی ، جس کا اظہار سابق آرمی چیف نے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی کیا ہے کہ ملکی بقاءاور سلامتی کے لئے عمران خان کی پارٹی کو سیاست میں لایا گیا۔ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں اقتدار عمران خان کے حوالے کیا گیا۔پی ٹی آئی حکومت کو لے کر چلے تو آخر میں یہ احساس پیداہوا کہ جس حوالے سے عمران خان کو وہ اقتدار میںلائے تھے ویسا کچھ بھی نہیں ہو سکا، لانے والوں کی توقعات پوری نہیں ہو سکیں،اُلٹا خارجہ پالیسی اور ملکی اقتصادیات کو نقصان پہنچاکر ملک کو بحران میں ڈال دیا گیا ۔یہ بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ عمران خان اپنی ذات کے گرد ہی طواف کرتے ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ اِس دنیا میں متقی اور پرہیزگار شخص صرف وہ ہیں، باقی سب سیاستدان کرپٹ ہیں۔ عمران خان کی جذباتیت اور غیر سیاسی رویے نے اُنہیں بند گلی میں پہنچادیا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرکے عمران خان پشیمان ہیں جبکہ چوہدری پرویز الٰہی ایوان تحلیل نہ کرنے کا مشورہ دے کر پی ٹی آئی کے لیے ناپسندیدہ شخصیت بن چکے ہیں ۔عمران خان کو خود پارٹی کے اندر سے بھی اُن ارکان اسمبلی کی مخالفت کا سامنا ہے جو انتخابات پر کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلی پہنچتے ہیں مگر اب ضد اور اَنا کی خاطر اُنہیں مستعفی ہونے کا کہا جارہا ہے تو پریشانی تو بنتی ہے۔تحریک انصاف کے سربراہ پہلے بھی کئی جذباتی فیصلے کر کے واپس لے چکے ہیں۔عوام پُرامید ہیں کہ شاید ایک یو ٹرن لے کر عمران خان یہ فیصلے بھی واپس لے لیں گے۔