بھارتی حکومت کی مسلم لاز سے چھیڑ چھاڑ

بھارتی حکومت کی مسلم لاز سے چھیڑ چھاڑ
بھارتی حکومت کی مسلم لاز سے چھیڑ چھاڑ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھا رت میں طلاق بل کی مخالفت میں مسلم خواتین سڑکوں پر نکل آئیں۔ خواتین پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے طلاق ثلاثہ بل کی مخالفت کرتے ہوئے نعرے لگا رہی تھیں۔

بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا نے اپوزیشن کی سخت مخالفت کے باوجود بیک وقت تین طلاقوں سے متعلق متنازع بل پاس کر لیا۔

ایوان زیریں سے منظوری کے بعد اب اس بل کو ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں پیش کر دیا گیا ہے، جہاں ممکنہ طور پر حکومت کو مشکلات درپیش ہوں گی۔لوک سبھا کے مقابلے میں راجیہ سبھا میں حکومتی ارکان کی تعداد کم ہے، جس وجہ سے وہاں بل پر کافی ہنگامے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

لوک سبھا سے پاس کیے گئے بل میں پہلی مرتبہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے کو سنگین جرم کے زمرے میں ڈالا گیا ہے ،جس کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس بھی احتجاج کررہی ہے۔

لوک سبھا میں کانگریس ارکان نے کہا کہ بل کو پاس کرنے سے قبل غور کے لئے اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھیجا جائے، تاہم ان کی تجویز مسترد کردی گئی۔مسلم لا بورڈ نے بھی بل کی مخالفت کی تھی، لیکن اس کے باوجود وزیر قانون روی شنکر پرساد کی جانب سے پیش کئے گئے بل کو لوک سبھا نے منظور کرلیا۔


بھارت میں "مسلم پرسنل لاء بورڈ" کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تین طلاق پر بل کا مقصد مسلم معاشرے کو تباہ کرنا اور جیلوں کو مسلمان مردوں سے آباد کرنا ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے تین طلاق پر بل پیش کرنے اور جلد بازی میں اسے پاس کرانے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا مقصد مسلم مردوں سے جیل کو بھرنا ہے تاکہ مسلم معاشرہ انتشار کا شکار ہوجائے۔

مولانانعمانی نے کہاکہ اتنے حساس مسئلے پر جلد بازی میں بل پیش کیاگیا اور اسی طرح اسے آناً فاناً پاس کرایا گیا، جس سے حکومت کے عزم کا پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلم معاشرے کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے بی جے پی کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ مسلم خواتین کوبرابری کا حق دینے کی بات کرتے ہیں، لیکن آپ کی جماعت میں ایک بھی مسلم خاتون نہیں ہے اور آپ کے پاس ایک بھی مسلمان رکن پارلیمنٹ تک نہیں ہے۔


بھارت میں مسلم پرسنل بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے یکساں سول کوڈ لانے کی کوشش سے ملک میں خلفشار پیدا ہو گا اور وہ متحد ہو کر حکومت کے فیصلے کی مخالفت کریں گی۔

لاء کمیشن کی جانب سے ایک سوال نامہ جاری کیا گیا تھا جس میں مجوزہ یکساں سول کوڈ کے بارے میں لوگوں سے ان کی رائے معلوم کی گئی ہے۔ اس سوال نامے کے ساتھ ایک اپیل بھی منسلک ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد ان کمزور طبقوں کو انصاف دلوانا ہے جو تعصب کا شکار ہیں۔

لاء کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ مجوزہ سول کوڈ کے خد و خال کے بارے میں ہر ممکنہ تجویز پر غور کرنا چاہتا ہے۔ بھارت میں یکساں سول کوڈ کی تجویز انتہائی حساس موضوع ہے۔

اگرچہ دستور ہند میں یہ مشورہ شامل ہے کہ حکومت یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کرے گی، لیکن عام طور پر حکومتوں نے اس سمت میں ٹھوس پیش رفت سے گریز کیا ہے۔

پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ 'وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ملک میں آمریت لانا چاہتی ہے اور حکومت کی نیت خراب ہے۔ اس ملک میں ہندو اور مسلمان صدیوں سے اکٹھے رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اپنے مذہبی قوانین پر عمل کیا ہے۔


ملک میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد سے یکساں سول کوڈ کا ذکر دوبارہ شروع ہوا ہے اور گذشتہ ہفتے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں بھی ایک حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ وہ ایک ہی نشست میں تین مرتبہ طلاق کہہ کر شادی ختم کرنے کے طریقے کے خلاف ہے۔

طلاق کے اس طریقے کے خلاف سپریم کورٹ سے ایک مسلمان خاتون نے رجوع کیا تھا اور عدالت نے اس سلسلے میں حکومت سے اس کا موقف معلوم کیا تھا۔

آر ایس ایس جیسی ہندو نظریاتی تنظیموں کی جانب سے ایسے مسائل زیادہ اٹھائے جاتے ہیں اور مسلم تنظیمیں انہیں اپنے مذہبی امور میں مداخلت تصور کرتی ہیں۔مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ کی مخالفت میں متحد ہیں اور قانونی و جمہوری طریقے سے اس کی مخالفت کریں گی۔


بھارت میں بعض مسلمان سماجی کارکنوں کا بھی کہنا ہے کہ پرسنل لا ء میں اصلاح کی ضرورت ہے اور خاص طور پر عورتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیے، لیکن یہ مطالبہ آر ایس ایس جیسی ہندو نظریاتی تنظیموں کی جانب سے زیادہ اٹھایا جاتا ہے اور مسلم تنظیمیں اسے اپنے مذہبی امور میں مداخلت تصور کرتی ہیں۔

لاء کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ تمام مذاہب کے عائلی قوانین پر نظر ثانی کرے گا اور صلاح مشورے کا یہ سلسلہ 45 دن تک جاری رہے گا، لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔بورڈ کا کہنا ہے کہ وہ اپنا سوال نامہ جاری کر رہا ہے اور اس کے نتائج حکام تک پہنچائے جائیں گے۔


بھارت میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو قانون کے ذریعے تبدیلی مذہب کی آزادی پر قدغن لگانے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ اس طرح کی کوششیں آزادی سے پہلے بھی مختلف ریاستوں میں سامنے آتی رہی ہیں اور آج بھی۔

بھارتی فرقہ پرستوں نے ان قوانین کے چور دروازوں کے ذریعہ مسلمانوں کے پرسنل لاز پر اپنے پورے تام جھام سے ہلّہ بول دیا ۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لئے فرقہ پرستوں کی تگ و دو اور طلاق ثلاثہ، تعدد ازدواج اور حلالہ جیسی شرعی قوانین میں حکومت کی مداخلت ملک کی فاشسٹ قوتوں کے دیرینہ خوابوں کی تعبیر ہی کہی جائے گی۔

چونکہ مرکز پر اسی ٹولے کا قبضہ ہے جس کی سرشت ، جبلت، فطرت اور عادت فرقہ پرستی ہے۔ اس لئے اس وقت یہ اپنی پوری طاقت مسلمانوں کے پرسنل لا کو مسخ کردینے یا اکھاڑ پھینکنے پر جھونکے ہوئے ہیں۔

2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی نے فرقہ پرست اور فاشسٹ قوتوں کو آپے سے باہر کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار حاصل ہوتے ہی ملک کی اقلیتوں کے خلاف آئے دن طرح طرح کے غیر انسانی عمل اختیار کئے جارہے ہیں اور ملک کے سیکولر آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔


یوں بھی اس ملک میں بسنے والے ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور بودھوں کے ساتھ ہی مختلف کلچر اور تہذیب پر عمل کرنے والوں کو اس موضوع پر غور و فکر اور فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ دستور، سیکولرازم اور جمہوریت کے یہ نام نہاد محافظ اور علمبردار کس طرح دستور کو پامال کر رہے ہیں؟ اور پھر کیا یہ ممکن ہے کہ ایک مذہب و تہذیب کو ملک کی تمام آبادی پر بزور مسلط کردیا جائے؟ اور کیا اس جبر و تشدد کی وجہ سے ملک کا اتحاد اور اس کی سالمیت خطرے میں نہیں پڑجائے گی؟

مزید :

رائے -کالم -